انمول تجربات کا احوال

اس مضمون میں جانیں ایک طالبہ کی حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بندی، غیر متوقع مسائل اور بالآخر، امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کی راہ کے انمول تجربات کا احوال۔

دیپیکا اتی نارائنن

April 2022

انمول تجربات کا احوال

 

دیپیکا اتی نارائنن نے فلاڈیلفیا کی ڈریکسیل یونیورسٹی سے متعددی امراض میں ماسٹر آف سائنس کی ڈگری لی۔ تصویر بشکریہ ڈریکسیل یونیورسٹی

بایوٹیکنالوجی میں بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعدمیں جانتی تھی کہ ماسٹر ڈگری تحقیق میں کریئر بنانے کی جانب اگلا ضروری قدم ہے۔ گوکہ بھارتی یونیورسٹیاں بھی میرے زیرِ غور تھیں لیکن بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا میرا دیرینہ خواب تھا۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ یہ شرمندہ تعبیر ہو پائے گا کیونکہ اس میں بہت زیادہ خرچہ ہوتا، لیکن میرے والدین نے میرا ساتھ دیا۔ تاہم یہ امر مجھ پر بہت جلد منکشف ہو گیا کہ جہاں مجھے پہنچنا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیےمجھے ایک طویل راستہ طے کرنا ہے اور مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ آغاز کہاں سے کروں۔

تعلیمی روڈ میپ وضع کرنا
اپنی جستجو کے آغاز میں مجھے ایجوکیشن یو ایس اے کے ایک تعارفی اجلاس میں شرکت کا موقع ملاجو موزوں تعلیمی ادارے کی تلاش اور اس میں درخواست دینے کے عمل کو واضح کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوا ۔ میں نے کاموں کی ایک فہرست تیار کی اور ہر کام کی تکمیل کے بعد ان کو قلم زد کرتی جاتی۔ میں نے پہلے مرحلہ میں ان جامعات کی نشان دہی کی جن میں مائکرو بایولوجی کے شعبے موجود تھے، خاص طور پرجن میں متعدی امراض پر تحقیق ہوتی ہو۔ میں نے ان میں سے سات کو منتخب کیا اور درخواست دینا شروع کر دیا۔
اس پورے عمل کے دوران میں سخت دباؤ میں رہی۔ بھارت میں میری تعلیم کا آخری سال تھا۔ایک طرف تو میں ا پنی دلچسپی کے شعبے سے متعلق یونیورسٹیوں کی تلاش کر رہی تھی اور ان میں درخواست دے رہی تھی تو دوسری جانب جی آر ای اور ٹو او ای ایف ایل امتحانات کی تیاری بھی کر رہی تھی۔ بعض اوقات تو مجھے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا جو میرے قابو کے باہر تھے، مثلاً ایسے وقت میں جب مجھے اپنی ٹرانس کرپٹ درکار تھیں تاکہ میں داخلہ میعاد سے قبل ای میل بھیج سکوں ، ٹھیک اسی وقت چنئی میں میری یونیورسٹی طوفانی بارش اور سیلاب کے سبب ایک مہینے کے لیے بند ہوگئی۔ بہر کیف میری محنت رنگ لائی۔ دو جامعات کی جانب سے مجھے آفر لیٹر موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک میری سب سے زیادہ ترجیح والی یونیورسٹی فلاڈیلیفیا میں واقع ڈریکسیل یونیورسٹی ہے جہاں کے متعدی پروگرام میں میری دلچسپی تھی۔ میں نے اپنےا سٹوڈنٹ لون اور اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دی اور آخر کار امریکہ پہنچ گئی۔

فلاڈیلفیا میں زندگی
فلاڈیلفیا میں رہنا بہت شاندار تھا۔ ڈریکسیل میں میری جماعت میں طلبہ کم تھے ۔ ہم سب شہر میں نئے تھے اس لیے ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے۔ ہم کلاس کے باہر مختلف عجائب گھروں کی سیر کرتے اور شہر کے آس پاس کی تقریبات میں شرکت کرتے۔ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ طلبہ کے رعایتی فوائد کو ہر ممکن حد تک استعمال کیا جائے۔ تاہم امریکہ میں اپنے اطراف سے مانوس ہونے میں مجھے کچھ وقت لگا۔ چنئی نے مجھے شہری زندگی، ٹرانزٹ سسٹم اور بھیڑ بھاڑ والی زندگی کے لیے تو تیار کر دیا تھا مگر ایسے ریستورانوں کے لیے تیار نہیں کیا تھا جہاں کے کھانے دو دنوں تک میری ضرورت کے لیے کافی ہو سکتے تھے۔ اس نے یقینی طور پر برفیلی ٹھنڈ کے لیے بھی مجھے تیار نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی فلاڈیلفیا میں اپنے پہلے موسم سرما میں مجھے دشواری پیش آئی۔ مگر خوش قسمتی سے میرے لیے میرے دوست تھے جو ہمیشہ مدد کے لیے تیار رہتے تھے ۔ اور اس کے باوجود کہ یہ میری زندگی کا پہلا اتفاق تھا کہ میں تنِ تنہا رہ رہی تھی اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں بہت سی چیزیں میرے لیے نئی تھیں، میں اچھے تجربات سے دو چار ہوئی۔

ڈریکسیل میں تعلیم
ڈریکسیل میں میرا وقت بہت سود مند رہا اور میں نے ہر لمحے کا لطف اٹھایا۔ تعلیمی نظام اس سے بہت مختلف تھا جس سے میں واقف تھی۔ مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ مجھے ان کلاسوں کو منتخب کرنے کی آزادی تھی جن میں مجھے سب سے زیادہ دلچسپی ہے، اور یہاں تک کہ اگر میں چاہوں تو اضافی کلاسز بھی کر سکتی تھی۔ چونکہ یہ پروگرام پیشہ ور افراد کے لیے تیار کیا گیا تھااس لیے کلاسیں شام کو ہوتی تھیں۔ یہ ان ہم جماعتوں سے بات کرنے کا بھی ایک بہترین موقع تھا جنہیں کام کا تجربہ تھا، نیز ان سیکھنے کو بھی ملتا تھا۔
ایک گریجویٹ طالب علم کے طور پر مجھے مطالعہ کے نظام الاوقات کو برقرار رکھنے ، اپنی کلاسیز اور کیمپس میں اپنی جز وقتی ملازمت اور دیگر ذاتی کاموں کے ساتھ ہونے والی ہر چیز پر نظر رکھنے کے لیے تندہی سے کام کرنا پڑتا تھا۔ میں نے اپنے دوسرے سال میں ایک لیب میں ملازمت اختیار کی جہاں میں نے دو سمسٹر کام کیااور فائزر کے اشتراک کے ساتھ میں سی ڈیفیسائل اسٹڈی کا حصہ بنی۔یہی چیزفائزر میں میری ملازمت کے حصول کا سبب بنی ۔ وہاں ایک آسامی نکلی تھی ۔ میں نے درخواست دی اور میرا انتخاب ہوگیا۔

کلاسوں سے قطہ نظر پیشہ ورانہ سفر
فی الحال میں فائزرکے جراثیم کُش ٹیکہ کاری پر ہونے والی تحقیق سے متعلق شعبے میں کام کر رہی ہوں۔ یہ ایک ناقابل یقین حد تک فائدہ مند تجربہ رہا ہے اور میں ہر روز نئی نئی چیزیں سیکھتی ہوں۔ جب ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ جس وقت میں نے پہلی مرتبہ امریکہ آنے کے بارے میں سوچا تھا اس وقت سے لے کر اب تک بہت ساری چیزیں ہو چکی ہیں۔ یقینی طور پر ایسے بہت سے مواقع آئے جب میں مایوس اور پریشان ہوگئی۔ جب میں آخری مراحل میں تھی تو بہت ساری چیزیں ایک ساتھ کررہی تھی۔ لیکن جب میں اپنے سفر کے بارے میں سوچتی ہوں، تو مجھے وہ خوشی کے لمحات سب سے زیادہ واضح طور پر یاد آتے ہیں جن سے میں نے سفر کے دوران لطف اٹھایا ۔ ایسے ہی تجربات سے میں ایک بہتر اور مضبوط انسان بن سکی۔

دیپیکا اتی نارائنن فلا ڈیلفیا کی ڈریکسیل یونیورسٹی میں متعدی امراض کے گریجویٹ ڈگری پروگرام کی سابق طالبہ ہیں۔ اب وہ امریکہ میں فائزر کمپنی میں جراثیم کُش ٹیکہ کاری پر ہونے والی تحقیق سے متعلق شعبے میں کام کرتی ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے