باربی کیوکے شوقین امریکی

گرمیوں میں برپا ہونے والی امریکی محفلوں میں گھر سے باہر کھلی جگہ گرلنگ اور باربی کیو کرنے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور چار جولائی کو ایسا کرنا امریکیوں میں بہت مقبول ہے۔

لورین مونسین

July 2022

باربی کیوکے شوقین امریکی

آگ پر بھونے ہوئی سور ، گائے اور مرغ کی پسلیاں ایک قاب میں رکھی ہوئی۔ (میری سونمیز فوٹوگرافی/ © شٹر اسٹاک)

گرمیوں میں برپا ہونے والی امریکی محفلوں میں گھر سے باہر کھلی جگہ گرلنگ اور باربی کیو کرنے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور چار جولائی کو ایسا کرنا امریکیوں میں بہت مقبول ہے۔

گرمیوں میں برپا ہونے والی امریکی محفلوں میں صرف ہاٹ ڈاگ یا ہیمبرگر ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ اس میں امریکیوں میں انتہائی مقبول باربی کیو بھی شامل ہوتا ہے جس کا نام سنتے ہی منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ اس میں چیزوں کو بالعموم گوشت کو آگ یا دہکتے ہوئے کوئلوں پر بھنا جاتا ہے۔ ایڈرین ملر کھانے پینے کی چیزوں کے تاریخ دان ہیں اور ” بلیک سموک: افریقن امیریکن اینڈ دا یونائیٹد سٹیٹس آف باربی کیو” (سیاہ دھواں: افریقی نژاد امریکی اور ریاستہائے متحدہ باربی کیو) نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ باربی کیو کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے اور اس کا انحصار اس پر ہے آپ کس علاقے کی بات کر رہے ہیں۔ دستر خوان پر گرل کی گئی سبز یوں میں دن بدن اضافہ  ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم کھانوںن کے مقامی ماہرین اکثر (اپنے) علاقے کی (باربی کیو کی) مخصوص ترکیب پر بڑا ناز کرتے ہیں۔ ان تراکیب کی بنیاد جانور کے خاص حصے کے گوشت، پکانے کی تکنیک یا مصالحے کے اجزا پر ہوتی ہے۔

جنوب میں رہنے والوں کو گوشت بہت پسند ہے۔ اگر آپ شمالی اور جنوبی کیرولائنا میں جائیں تو آپ کو زیادہ تر لوگ سور کے گوشت کا باربی کیو بناتے دکھائی دیں گے۔ اس میں سور کے کندھوں کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے یا پورے سور کو سیخوں کے ذریعے بھونا جاتا ہے۔ اگر مزید جنوب میں الاباما، جارجیا اور مسس سپی  میں جائیں تو چکن باربی کیو اتنا ہی مقبول ہے جتنا سور کا باربی کیو مقبول ہے۔

کینسس سٹی کے علاقے کے ریستورانوں کو اپنے گرل کیے گئے گوشت میں میٹھے شیرے والا مصالحہ لگانے پر بڑا فخر ہے۔ مشرقی ٹیکساس میں، ذائقوں کے ماہرین کی نظریں ٹیکساس کی تثلیث (یعنی گائے کے سینے کے گوشت، آنتوں میں بھرے قیمے اور سور کی پسلیوں) کی متلاشی ہوتی ہیں۔

شکاگو میں جائیں تو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹے سور کی پسلیوں کے ٹکڑے یا مرغی ملے گی۔ ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس کے جانب بڑھیں تو مصالحوں کی موٹی تہہ والا سور کا گوشت ملے گا۔ اگر سور کی تھوتھنی یعنی اس کے جبڑے اور منہ کے گوشت کا مزہ لینا ہے تو سینٹ لوئس جانا ہوگا۔

خاندان سے جڑی کھانے کی ترکیب

ملر کہتے ہیں کے امریکی باربی کیو کی بنیاد مضبوط آبائی امریکی بنیاد پر کھڑی ہے۔ شروع میں آنے والے افریقی نژاد امریکیوں نے آبائی امریکیوں کے کھانے کے طریقوں کو اپنایا جس میں وہ گوشت کو پکانے یا گرل کرنے کے لیے گھومنے والی سیخوں، اونچائی پر بنے چولہوں اور کم گہرائی والے آگ کے الاؤں کا استعمال کیا کرتے تھے۔

باربی کیو کی جس شکل کو امریکی آج جانتے ہیں یہ ۱۷۰۰ کی دہائی میں بتدریج اس وقت سامنے آئی جب ریاست ورجینیا میں برطانوی نوآبادکاروں نے غلام بنائے گئے افریقیوں کو اپنے کھانے علیحدہ بنانے پر مجبور کیا۔ افریقی نژاد امریکی بار بی کیو کرنے کے ماہر ہوگئے اور اس وقت سے انہوں نے بار بی کیو کو مقبول بنانا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے اُن کے کھانے کے طریقے بہتر ہوتے گئے ویسے ویسے وہ  باربی کیو کے آج کے مقبول، علاقائی طریقے نکالنے میں مدد کرتے چلے گئے۔

ملر بتاتے ہیں کہ ملک کے ہر ایک کونے میں جنوبی بار بی کیو کے مستند ذائقے کو پھیلانے کے لیے بار بی کیو کرنے والے سیاہ فاموں نے کشتیوں، بگھیوں اور ٹرینوں میں سفر کیا۔ ملر کے مطابق افریقی نژاد امریکی ایک طویل عرصے سے بار بی کیو کے موثر ترین سفیر چلے آ رہے ہیں۔ وہ شہری علاقوں میں بار بی کیو فروخت کرنے والے اولین تاجر تھے۔ انہوں نے یہ کام کبھی گھر سے، کبھی کسی گلی سے یا ریستوران سے کیا۔

ملر بتاتے ہیں کہ بیسویں صدی میں جب بار بی کیو دیہی ماحول سے شہری ماحول میں منتقل ہوا تو بار بی کیو کی وہ علاقائی شکل سامنے آنے لگی جو اکثر کسی خاص شہر سے جڑی ہوتی تھی۔

خاندانی رشتے

سینٹ لوئس میں ’سموکی اوز باربی کیو اینڈ کیٹرنگ‘ کے نام سے ایک مشہور ریستوران ہے۔ اس ریستوران میں دنیا بھر سے کھانا کھانے لوگ آتے ہیں۔ یہ ریستوران ایرلین واکر اور اُن کے شوہر، اوٹس نے جو اب دونوں ۷۰ برس کے ہیں ۱۹۹۷ میں کھولا تھا۔

لوگ اس ریستوران میں بار بی کیو کی گئی سور کی تھوتھنی کا  مشہور زمانہ گوشت کھانے آتے ہیں جسے ٹیلی ویژن پر بھی  دکھایا جا چکا ہے۔ ایرلین نے بتایا،تھوتھنیوں کے گوشت کا ذائقہ سور کے گوشت جیسا ہی ہوتا ہے اور یہ میکسیکو کے تلے ہوئے گوشت سے تیار کیے جانے والے چیچارون نامی کھانے کی طرح  خستہ ہوتا ہے۔

واکر فیملی نے جب یہ ریستوران کھولا تو انہوں نے اوٹس کے والدہ کی بار بی کیو کرنے کی ترکیب استعمال کی۔ اوٹس کی والدہ ۱۵ برس کی عمر میں ایک ریستوران میں کام کرنے کے لیے مسس سپی سے سینٹ لوئس آئیں۔ اُن کے انتقال کے بعد اوٹس نے اپنا ذاتی ریستوران کھولنا چاہا کیونکہ ایرلین کے مطابق کوئی بھی اس طرح بار بی کیو نہیں کرتا تھا جیسے اس (اوٹس) کی والدہ کرتی تھیں۔

سموکی اوز طویل عرصے سے علاقے کے لوگوں کی زندگیوں کا ایک حصہ چلا آ رہا ہے۔ واکر خاندان اکثر مقامی نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور اب تک 16 طالبعلموں کی یونیورسٹی کی تعلیم کے اخراجات ادا کرنے میں مدد کر چکا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر، سموکی اوز  آگ بھجانے والے اور پولیس کے محکموں کے اہل کاروں کو دوپہر کا کھانا فراہم کرتا رہا ہے۔

اوٹس نے بتایا کہ وہ اور ان کی بیوی اس جگہ کے قریب رہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مدد کرتے رہنا اور خیال رکھنا انتہائی اہم ہے۔

پہلے پہل اس مضمون کی اشاعت ۳۰ جون ۲۰۲۱ء کو عمل میں آئی۔

تشکر برائے متن : شیئر امیریکہ



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے