امریکہ میں تعلیم کے لیے موزوں ڈگریاں

درست امریکی ڈگری بھارتی طلبہ کے لیے حیرت انگیز مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح معیاری تعلیم کا انتخاب آپ کے لیے بہتر ہے۔

مائیکل گیلنٹ

April 2022

امریکہ میں تعلیم کے لیے موزوں ڈگریاں

تصویر بشکریہ برناڈ کالج

سائنسداں، ماہر اقتصادیات، ماہر تعمیرات، پروگرامر، انجینئر، آرٹسٹ، ماہر بشریات ….. ایک امریکی یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ، بھارتی طلبہ بہت سارے دلچسپ کریئر اور پیشوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد کے لیے موزوں ڈگری کا راستہ کیسے چنتے ہیں؟

بیچلر آف آرٹس یا بیچلر آف سائنس، ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا ڈاکٹر آف فائن آرٹس کے درمیان انتخاب کرنا مشکل معلوم ہو سکتا ہے، لیکن صحیح راہ کے انتخاب میں مدد کے لیے متعدد لوگ اور وسائل موجود ہیں۔

انڈرگریجویٹ ڈگریاں

متعدد طلبہ چھوٹی عمر ہی میں یہ طے کرلیتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہیں۔ مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو یہ نہیں جانتے۔اگر آپ امریکہ میں انڈرگریجویٹ تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کر رہے ہیں توبرنارڈ کالج کی بھرتی اور انتخاب سے متعلق ڈائریکٹر روبی بھٹاچاریہ کہتی ہیں کہ بہت سے اداروں کے لیے غیر فیصلہ کن ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔وہ بتاتی ہیں ’’حالانکہ وہاں ایسی امریکی یونیورسٹیاں ہیں جو درخواست دہندگان سے اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے کہتی ہیں کہ وہ امریکہ کی چنندہ ترین یونیورسٹیوں میں کس پروگرام کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حقیقت میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ درخواست دہندگان کو کسی مخصوص میجر کے تحت داخلہ نہیں دیا جاتا ہے۔طلبہ کو کالج یا یونیورسٹی میں ہی داخلہ دیا جاتا ہے اور پھر اندراج کے پہلے یا دو سال کے اندر ان کے تعلیمی منصوبوں کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ یہ ان بہت سے طریقوں میں سے ایک ہے ۔یوں بھی انڈرگریجویٹ یونیورسٹی کے داخلے گریجویٹ داخلوں سے مختلف ہوتے ہیں۔‘‘

یونیورسٹی آف سان فرانسسکو کے بین الاقوامی داخلہ جاتی امور کے ڈائریکٹر پرنو پردھان کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر سائنس، انجینئرنگ،تجارت، معاشیات اور عمرانیات جیسے میجر مضامین بھارتی طلبہ میں بے حد مقبول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’میں طلبہ کوتاکید کے ساتھ مشورہ دیتا ہوں کہ کسی میجر کا انتخاب کرتے وقت وہ کھلا ذہن رکھیں۔پروگرام کا انتخاب کرتے وقت ان کی مہارت کی نوعیت، تعلیمی دلچسپی اور کریئر اہداف جیسے عوامل بنیادی عوامل ہونے چاہئیں۔‘‘

اگر آپ انڈرگریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے لیے اندراج کر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس کا پتہ لگانا اور غلطیاں کرنا ٹھیک ہے۔ پردھان کہتے ہیں’’ امریکی تعلیمی نظام کا لچیلا پن اس کی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ‘‘اگر تحصیل علم کا کوئی کورس کام نہیں کر رہا ہے اور اگر ضرورت ہو تو طلبہ پہلے قدم کے طور پر اپنے تعلیمی مشیروں اور پروفیسروں سے ملاقات کر سکتے ہیں جو اکثر میجرمضمون کو تبدیل کرنے یا کسی دوسرے ادارے میں منتقل کرنے کے سلسلے میں لچک دار رویہ رکھتے ہیں۔

گریجویٹ ڈگریاں

ایک بار جب بھارتی طلبہ بیچلر ڈگری حاصل کر لیتے ہیں تو بقول پردھان’’ بہت سےطلبہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) کے شعبوں میں ماسٹر پروگراموں کو اختیار کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس اور ڈیٹا سائنس جیسے پروگرام سرفہرست متبادل ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ، بین موضوعاتی اور تکنیکی انتظامی پروگرام تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔‘‘

این وائی یو کے ٹنڈن ا سکول آف انجینئرنگ میں داخلہ جاتی امور کے سفیر ابھیودے پائی کہتے ہیں کہ اختصاص والی ماسٹر ڈگریاں کامیاب عملی زندگی بنانے کی جانب اہم قدم ثابت ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’یہاں تک کہ اگر آپ بہت سوں میں سب سے زیادہ ہوشیار ہیں تو بھی کسی وقت آپ کو اپنے علم کی بنیاد کو حمایت دینے کے لیے ٹھوس ڈگری کی ضرورت ہوگی۔ میں مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ طلبہ کو بیچلر کے بعد اعلیٰ ڈگری حاصل کرنی چاہیے۔یہ نہ صرف آپ کے علم کی بنیاد کی افزائش کا ایک بہترین طریقہ ہے بلکہ یہ نیٹ ورکنگ اور دلچسپی کے دیگر شعبوں کی تلاش کا ایک حیرت انگیز موقع بھی ہے۔ ‘‘

ماسٹر ڈگری کا انتخاب طلبہ کوانڈرگریجویٹ تعلیم کی اجازت سے کہیں زیادہ توجہ مرکوز کرنے والے موضوعات کو آگے بڑھانے کا منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔ پائی کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس، سائبر سیکیورٹی، کمپیوٹیشنل بایولوجی اور روبوٹکس اور میکیٹرونکس جیسے تیزی سے مقبول ہونے والے شعبے بہت سی یونیورسٹیوں میں واحد ماسٹرس پروگرام ہیں۔

بہت سے طلبہ کو غیرایس ٹی ای ایم شعبوں میں تحریک ملتی ہے اور ماسٹر ڈگریاں مختلف اختصاص میں گہرائی میں جانے کے لیے اسی طرح کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ انڈیا، گریجویٹ داخلوں کی بھرتی مشیر نکی چوکسی کہتی ہیں کہ آرکیٹیکچر اور ڈیزائن خاص طور پر بھارتی طلبہ میں ماسٹرس کے مقبول پروگرام ہیں۔ریاست ایریزونا میں واقع ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی تنہا ۴۵۰ سے زیادہ ماسٹر اور دیگر گریجویٹ سرٹیفکٹ حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ یہ پروگرام بزنس ایڈمنسٹریشن، عالمی صحت، انسانی وسائل کے بندوبست ، سماجی کام، تعلیم، فنون لطیفہ، موسیقی اور بہت کچھ جیسے متنوع مضامین کا احاطہ کرتے ہیں۔

کچھ طلبہ کے لیے ایک ماسٹر ڈگری کافی نہیں ہوگی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ اگرچہ ڈاکٹریٹ حاصل کرنے کے لیے کئی سال مزید تحصیل علم کی اور ایک سخت مقالہ پروجیکٹ کی تکمیل کی ضرورت پڑسکتی ہے، لیکن اس کے انعامات اہم ہوسکتے ہیں۔ لافایٹ گریجویٹ اسکول میں یونیورسٹی آف لو سیانا سے ۲۰۲۱ء میں شائع شدہ مضمون کے مطابق ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے والے طلبہ تحقیق کے ذریعے نئی دریافتیں کر سکتے ہیں، اپنے شعبوں میں عالمی ماہرین بن سکتے ہیں، تعلیمی اور پیشہ ورانہ دونوں امکانات کو شامل کرنے کے لیے کریئرکے مواقع کی توسیع کر سکتے ہیں اور تنخواہوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹریٹ کے پروگراموں کے لیے اعلیٰ سطح کی عہدبستگی کی ضرورت ہوتی ہے، اگرچہ اسے اس وقت تک اختیار نہیں کیا جانا چا ہیے جب تک طلبہ کے پاس وہ زبردست جنون نہ ہو جس کے حصول کے لیے وہ برسوں کی مدت وقف کر دینا چاہتے ہوں۔

سیکھنا اور چننا

پائی کا کہنا ہے کہ جب اس پروگرام کو منتخب کرنے کی بات آتی ہے جس میں آپ کو ڈگری حاصل کرنا ہے تو متبادل لامتناہی اور تذبذب میں ڈالنے والے ہو سکتے ہیں۔ لہذا، طلبہ کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ انہیں کیا اچھا لگتا ہے اور وہاں سے شروع کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں ’’اپنا وقت اور کوشش ایک ایسی چیز کو تلاش کرنے میں لگائیں جس کے بارے میں آپ اپنی پوری عملی زندگی میں سیکھتے رہیں۔ یعنی توجہ اپنے جنون پر دیں۔ جنون سادہ طور پر ایک ایسی صلاحیت ہے جو آپ کی دلچسپی کے موضوع کے بارے میں سیکھنے سے آپ کو کبھی نہیں روکتی۔‘‘

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک بار جب آپ اس بات کی نشاندہی کر لیں کہ آپ کو سب سے زیادہ کیا راغب کرتا ہےتو ایسی ڈگری اور یونیورسٹی کا انتخاب کریں جو اس موضوع کے لیے آپ کی لگن اور دلچسپی کے مطابق ہو۔

تمام ماہرین کسی پروگرام یا ڈگری کو صرف اس کی درجہ بندی، شہرت یا وقار کی وجہ سے منتخب کرنے یا اپنے والدین کو ایسا کرنے کے لیے آپ پر دباؤ ڈالنے کے خلاف محتاط کرتے ہیں۔ بھٹاچاریہ کہتی ہیں ’’وہ عوامل اس بات کو یقینی نہیں بناتے ہیں کہ کالج یا یونیورسٹی اس قسم کے مواقع یا تجربات پیش کرے گی جو آپ کو ایک فرد کے طور پر کامیابی کے لیے درکار ہیں۔امریکہ میں شائع ہونے والی تمام درجہ بندیاں منافع بخش اداروں کی طرف سے کی جاتی ہیں ، نہ کہ حکومت کی طرف سے۔ وہ یہ نہیں بول سکتے ہیں کہ آیا یہ یونیورسٹی آپ کے لیے اور آپ کی ضروریات کے لیے موزوں ہو گی یا نہیں کیونکہ آپ امریکہ میں پڑھنے اور سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں ’’ آپ کو کامیابی کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے اس پر غور کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ تحقیق کر رہے ہیں۔اگر آپ کے ذہن میں سوالات ہیں تو آپ کو براہ راست یونیورسٹی کے داخلہ جاتی دفتر سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ ہم داخلہ کے لیے معلومات کے سرکاری ذرائع کے طور پر آپ کی مدد کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہم آپ کے داخلہ کے لیے غور کر رہے ہیں، آپ کے والدین کے لیے نہیں۔‘‘

اگر طلبہ کو یہ فیصلہ کرتے وقت راہنمائی کی ضرورت ہے کہ ڈگری پروگرام کی کس سطح کے لیے درخواست دی جائے تو چوکسی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ طلبہ کو براہ راست یونیورسٹی کے داخلہ جاتی امور کے نمائندوں سے رابطہ کرنا چاہیےجن کا کام ہی مشاورت اور راہنمائی ہے۔جب کہ اکثر طلبہ آن لائن پلیٹ فارمس کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ ایسی معلومات کو اندرونی بنانے کا رجحان رکھتے ہیں جو نہ تو سب سے زیادہ درست ہوسکتی ہیں اور نہ ہی تازہ ترین۔‘‘ اپنے مقامی ایجوکیشن یو ایس اے آفس سے رابطہ کرنا بھی مدد کا ایک بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔اعلیٰ تعلیم کا انتخاب کرتے وقت طلبہ کو جس دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے قطع نظر، نقطہ نظر کو برقرار رکھنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بھٹاچاریہ کہتی ہیں’’ گہری سانسیں لیں اور اس مہم جوئی کے بارے میں پرجوش ہونے کے لیے وقت نکالیں جو آپ کی زندگی کے اگلے باب میں آپ کی منتظر ہے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ،گیلنٹ میوزک کے بانی اورسی ای او ہیں۔ وہ نیویارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے