تعلیمی رکاوٹوں کو دور کرنا

امریکی یونیورسٹیاں معذور بین الاقوامی طلبہ کے لیے متعدد امدادی خدمات فراہم کرتی ہیں۔

نتاشا ملاس

April 2023

تعلیمی رکاوٹوں کو دور کرنا

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ’آفس آف اَیکسسبُل ایجوکیشن‘ کیمپس شراکت داروں کے ساتھ قرابت میں کام کرتا تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکے کہ معذور طلبہ یونیورسٹی کی زندگی میں دستیاب تمام مواقع سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔(تصویر بشکریہ آفس آف اَیکسسبُل ایجوکیشن)

بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا ایک اطمینان بخش تعلیمی اور ثقافتی تجربہ ہوسکتا ہے لیکن اس میں دشواری بھی درپیش ہو سکتی ہے۔

ممکنہ رکاوٹوں میں درخواست دینے  کا پیچیدہ عمل، مالی ضروریات  اور نئے تعلیمی اور ثقافتی ماحول سے ہم آہنگ ہونا شامل ہیں۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند معذور طلبہ کو اس میں اضافی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حیدرآباد میں امریکہ ۔ہند تعلیمی فاؤنڈیشن (یو ایس آئی ای ایف ) کی علاقائی افسر سُجانا مے ریڈی بتاتی ہیں ’’ ان دشواریوں میں ایک نیا اور غیر معروف نظام، ثقافتی و لسانی بندشیں اور محدود وسائل یا خدمات جو خاص طور پر ان کی ضروریات کے مطابق ہیں، شامل ہو سکتی ہیں۔ معذور طلبہ کو کالج میں کامیاب ہونے کے لیے مہنگی رہائش یا معاون ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ خاطر خواہ مالی امداد کے بغیر وہ اپنی پسند کے ادارے میں  تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘

امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے معذور بھارتی طلبہ درخواست کے عمل کو آگے بڑھانے اور درست  تعلیمی ادارے (یعنی ایک ایسی یونیورسٹی جو ان کی تعلیمی اور معذوری کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے)کی تلاش میں مدد کے لیے  ایجوکیشن یو ایس اے کے مشیر سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

اپنے طور پر تحقیق کریں

یو ایس آئی ای ایف ممبئی میں ایجوکیشن یو ایس اے کی مشیر ادیتی لیلے باخبر کرتی ہیں ’’ مناسب یونیورسٹیوں کے لیے تحقیق کرتے ہوئے آپ یہ جان سکتے ہیں کہ کسی خاص کیمپس میں معذور افراد کے لیے کون سی خدمات دستیاب ہیں۔ تسلیم شدہ یونیورسٹیوں میں معذور طلبہ کے لیے تمام وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔‘‘

جب کہ مے ریڈی کہتی ہیں کہ تعلیمی طور پر موزوں  ادارے کی تلاش کے علاوہ معذور طلبہ کو’’داخلے سے متعلق عملے اور معذوروں کی خدمات سے متعلق دفاتر کو اپنی ضروریات اور خدشات سے آگاہ کرنا چاہیے۔‘‘اس سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ مخصوص ادارہ ضروری امداد فراہم کرے۔

مددگار نیٹ ورک

بہت ساری امریکی یونیورسٹیوں میں معذوری کی خدمات سے متعلق دفاتر یا دیگر امدادی پروگرام ہوتے ہیں جو رہائش اورمتعدد طرح کی  خدمات دستیاب کراتے ہیں۔مے ریڈی بتاتی ہیں’’ ان میں معاون ٹیکنالوجی، اطلاعات یکجا کرنے سے متعلق خدمات، قابل رسائی رہائش اور نقل و حمل اور علمی مصروفیات جیسے امتحانات یا متبادل ٹیسٹنگ فارمیٹس جیسی چیزوں پر زیادہ وقت دینا شامل ہیں۔‘‘

طلبہ تنظیمیں بھی ایک مفید وسیلہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ مے ریڈی باخبر کرتی ہیں ’’ بین الاقوامی طلبہ کو کیمپس کی طلبہ تنظیموں اور معذوروں کی وکالت کرنے والے دیگر گروپوں سے مدد مل سکتی ہے جو انہیں ان وسائل سے وابستگی اور ایک معاون معاشرے کی تعمیر میں مدد کرتے ہیں۔‘‘

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ’آفس آف اَیکسسبُل ایجوکیشن‘  میں معذوری مشاورت کی ڈائریکٹر  کارلیگ کیوڈ بتاتی ہیں’’ہمارے پاس  خدمات بہم پہنچانے والے انتہائی ماہر پیشہ ور  افراد کی ٹیم ہے جو براہ راست طلبہ کے ساتھ کام کرکے انہیں انفرادی ضرورت کے اعتبارسے موافق رہائش دستیاب کرواتی ہے۔ہم طلبہ طبّی مرکز، رہائشی ، مطبخ پر مبنی اور کریئر اور علمی شعبہ جات سے متعلق  کیمپس پارٹنر کے ساتھ قرابت میں کام کرتے ہیں  تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ معذور طلبہ کو یونیورسٹی کی زندگی میں تمام مواقع تک یکساں رسائی حاصل ہو سکیں۔‘‘

’آفس آف اَیکسسبُل  ایجوکیشن‘  کی طرف سے فراہم کی جانے والی مدد کی مختلف سطحیں ہیں۔ کیوڈ کہتی ہیں ’’بین الاقوامی طلبہ بھی ملک کے طلبہ کے لیے دستیاب معذوری کے حقوق اور معاونت کی خدمات کے حقدار ہیں۔ ہم لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ معذورافراد ایک انوکھا گروپ ہے جس کے لیے منفرد غور و فکر کی ضرورت ہے۔ امریکہ سے باہر کے طلبہ پوسٹ سیکنڈری  تعلیمی ماحول میں خصوصی قابل رسائی رہائش گاہوں اور متبادل سے واقف نہیں ہوسکتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے ہم یقینی طور پر بین الاقوامی طلبہ کے تعارفی کورس سے متعلق تقریبات میں اپنی خدمات کو فروغ دیں گے۔ ہم اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ معذوری سے متعلق خدمات حاصل کرنے کے لیے اضافی سطح کی مدد درکار ہوسکتی ہے تاکہ وہ کامیاب طالب علم بن سکیں۔‘‘

’آفس آف اَیکسسبُل ایجوکیشن‘  باقاعدگی سے کمیونٹی تقریبات اور معلومات کے تبادلے کی ورکشاپس کی میزبانی کرتا ہے۔ کیوڈ کہتی ہیں ’’ہم معذور طبقات سے متعلق مقامات (ڈِسکو) کے ساتھ طلبہ کے زیر انتظام ایک عمارت کا بھی اشتراک کرتے ہیں جہاں طلبہ مل سکیں، نیٹ ورک بنا سکیں، تجربات کا اشتراک کرسکیں اور دوستی قائم کرسکیں۔‘‘

اس موسم گرما میں دنیا بھرسےسیکنڈری اسکول کی تعلیم  کے بعد معذوروں کے لیے خدمات فراہم کرنے والے کیرل میں ایک کانفرنس میں ملیں گے جہاں کیوڈ معذور بین الاقوامی طلبہ کے لیے  امریکی کالجوں میں منتقلی کے بارے میں ایک اجلاس کا اہتمام کریں گی۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے