امریکی یونیورسٹیوں میں حفاظتی انتظامات

امریکی یونیورسٹیاں ایمرجنسی فون بوتھ، سیفٹی اَیپس اور ’واک اسکارٹس‘ جیسے اقدامات کے ذریعہ اپنے طلبہ کی سلامتی کو یقینی بنانے کا خاص خیال رکھتی ہیں۔

نتاشا مِلاس

October 2022

امریکی یونیورسٹیوں میں حفاظتی انتظامات

امریکی یونیورسٹیاں اپنے طلبہ کی سلامتی کے لیے متعدد انتظامات کرتی ہیں جن میں کیمپس پولس، نقل و حمل کی سہولتیں، ایمرجنسی الارم سسٹم، حفاظتی کیمرے اور کیمپس ہی میں رہائش کے متبادل شامل ہیں۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ طلبہ کیمپس میں خود کو محفوظ محسوس کریں۔ تصویر بشکریہ یونیورسٹی آف مشی گن ڈی پی ایس ایس۔

یونیورسٹیوں کی فہرست بناتے ہوئے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ اور ان کے والدین کے ذہن میں گردش کرنے والے اہم سوالات میں سے ایک کا تعلق محفوظ اور تناؤ سے پاک کیمس سے ہوتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیاں اپنے طلبہ کو کیمپس میں تحفظ کا احساس دلانے کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ایک طرف جہاں چھوٹے کالج اپنے کیمپس کو محفوظ رکھنے کے لیے مقامی پولیس کی خدمات حاصل کرتے ہیں، وہیں بڑی یونیورسٹیوں کے پاس اپنے وسیع و عریض کیمپس کی نگرانی کے لیے اپنے ذاتی پولیس محکمے ہوتے ہیں۔

امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے نئے طلبہ کے لیے ان انتظامات اور اقدامات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے جو ہنگامی حالات اور کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ حفاظتی اقدامات میں کیمپس پولس، نقل و حمل کی سہولیات، ہنگامی الارم سسٹم، سکیورٹی کیمرے اور کیمپس میں رہائش کے متبادل شامل ہیں۔ مثال کے طور پر یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا (یو ایس ایف) میں ایک وقف یونیورسٹی پولس محکمہ، پولس سے ہنگامی رابطے کے لیے ایک یونیورسٹی سلامتی ایپ، خود حفاظتی پروگرام، ماحولیاتی بیداری اور ذاتی حفاظت سے متعلق کورسز، گولف کارٹ ٹرانسپورٹیشن اور کیمپس میں اسکارٹس جیسی سہولیات دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ رہائش گاہ کے انتخاب میں مدد کے لیے کیمپس سے باہر حفاظتی وسائل کا بھی انتظام ہے۔یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں یونیورسٹی کمیونیکیشنس اینڈ مارکیٹنگ ٹیم کے میڈیا ریلیشنز کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر التھیا جانسن کہتی ہیں ’’یونیورسٹی کے فلوریڈا کے ٹمپا بے خطے میں تین کیمپس ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا کیمپس پھلتے پھولتے میٹروپولیٹن علاقےٹمپا میں واقع ہے۔ یونیورسٹی کا وسیع و عریض کیمپس اور آس پاس کا احاطہ تقریباً ۵۰ ہزار طلبہ کا مسکن ہے اور جو ۱۵ ہزار سے زائداساتذہ اور غیر تدریسی عملے کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔ کسی بڑی بستی کی طرح یہاں بھی جرائم کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن یونیورسٹی نے طلبہ،اساتذہ اور دیگر عملے کی حفاظت کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔‘‘

یو ایس ایف کے پولس محکمے کے اہلکار طلبہ، اساتذہ اور عملے کے تحفظ کے لیے باقاعدگی سے کاروں یا سائیکلوں پر یا پھر پیدل ہی کیمپس میں گشت کرتے ہیں۔ جانسن کہتی ہیں ’’کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مناسب ردعمل کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔‘‘

جزوی طور پر یہ طلبہ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی کسی بھی صورتحال کی اطلاع یونیورسٹی کو دیں جو اس کے دخل کی متقاضی ہو۔ ایسی صورتحال میں طلبہ کی جانب سے جلد بازی مطلوب ہوتی ہے۔ جانسن کا کہنا ہے ’’اگرآپ خود کو ممکنہ خطرناک صورتحال میں پاتے ہیں جہاں آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی ذاتی حفاظت کو خطرہ ہے تو یونیورسٹی پولس یا قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں سے رابطہ کرنے میں جھجھک بالکل محسوس نہ کریں۔ آپ سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن آپ کسی کے شکار بن جائیں یہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

یونیورسٹی آف مشی گن بھی طلبہ کی حفاظت اور سلامتی کے لیے ایک فعال طریقے پر کام کرتی ہے۔ یونیورسٹی کا ڈویژن آف پبلک سیفٹی اینڈ سکیورٹی (ڈی پی ایس ایس) اپنی کمیونٹی کے لیے مکمل طور پر تسلیم شدہ پولس فورس کے بشمول متعدد خدمات کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ان میں ہنگامی فون کالوں کا جواب دینا، تقاریب کی حفاظت اور سفر کی صورت میں کسی کو حفاظت کی غرض سے ساتھ رکھنابھی شامل ہے۔

بلو روشنی والے فون

بلو روشنی خارج کرنے والے فون دہائیوں سے کئی امریکی کیمپسوں میں ایک اہم حفاظتی سہولت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نیلے رنگ کی بڑی بتی والے ان اونچے کھمبوں میں ایمرجنسی بٹن نصب ہیں، ساتھ میں براہ راست پولس سے بذریعہ فون رابطے کی سہولت بھی ہے۔ یہ بلو روشنی والے فون اہم مقامات پر نصب کیے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مدد کے لیےپولس سے رابطہ کر سکیں۔

ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں بلو روشنی والے فون دستیاب ہیں جو جسامت اور خصوصیات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ زیادہ تر فون میں رابطے کے لیے اسپیکر موجود ہوتے ہیں لیکن اس میں کیمرہ یا شمسی توانائی سے کام کرنے کی خصوصیت بھی شامل ہو سکتی ہے۔

بنیادی طور پر بلو روشنی والے تمام فون ایک ہی مقصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال میں سرخ رنگ کے بٹن کو دبانا ہوتا ہے۔ سرخ بٹن دبانے سے کھمبے کے اوپر نصب نیلے رنگ کی بڑی بتی جلنے لگتی ہے اور کیمپس پولس کو مدد طلب کرنے والے شخص کے محل وقوع کا پتہ چل جاتا ہے۔

مشی گن یونیورسٹی میں بلو روشنی والے فون کے علاوہ ایلیویٹرس اور پارکنگ میں ریڈ باکس ایمرجنسی فون یا بٹن بھی نصب ہیں۔ یہ براہ راست ڈی پی ایس ایس ڈسپیچ سروسیز سے منسلک ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فون اٹھاتا ہے یا بٹن دباتا ہے تو ڈسپیچ سروسیز کو خود بخود جگہ کا علم ہو جاتا ہے اور پھر ایک افسر کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔

اسی طرح نیو یارک یونیورسٹی میں ایک اہم حفاظتی سہولت کیمپس بھر میں واقع عمارتوں پر ہری بتی کا جلنا ہے. ہری بتی کا جلنا اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ عمارت میں چوبیسوں گھنٹے ایک حفاظتی افسر موجود ہے اور یونیورسٹی کا کوئی بھی طالب علم، استاد یا عملے کاکوئی رکن عمارت میں پناہ لے سکتا ہے۔

کیمپس حفاظتی خدمات

یونیورسٹیوں کے سلامتی سے متعلق محکمے طلبہ کو گروپس میں چلنے یا سواری کا بندوبست کرنے اور رات کو اکیلے گھومنے پھرنے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یونیورسٹیاں طلبہ کو ’اسکارٹ سروسز ‘ جیسے اندھیرا ہونے کے بعد چلنے والی گاڑیاں (آفٹر ڈارک شٹلز) کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ اگر کسی طالب علم کو معمول کی کلاس کے بعد گھر جانا ہو تو یو ایس ایف جیسے بعض ادارے ماہانہ ’اوبر واؤچر‘ فراہم کرتے ہیں۔

امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں ایک اور عام خصوصیت اسمارٹ فونس کے لیے حفاظتی ایپس ہے۔ ’یو ایس ایف سیف‘ ایپ یونیورسٹی کا سرکاری سلامتی ایپ ہے جو ہنگامی رابطوں، حفاظتی وسائل، متعامل و تلاش کے قابل نقشوں اور کسی ایک جگہ تک فوری رسائی فراہم کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف مشی گن میں تعینات ڈپٹی چیف آف پولس میلیسا اوورٹن کا کہنا ہے کہ ڈی پی ایس ایس نے بھی اینڈرائیڈ اور آئی او ایس فون کے لیے ایک مفت ایپ تیار کیاہے۔ وہ کہتی ہیں ’’یو ایم پبلک سیفٹی ایپ کے ذریعے آپ کسی جرم یا پریشانی یا مشکوک سرگرمی کی اطلاع دے سکتے ہیں، کام کے اوقات کے بعد سواری کی درخواست کر سکتے ہیں، ہنگامی انتباہات کے لیے ’پُش نوٹیفکیشنز ‘(ایک خود کار پیغام جسے اَیپ کے ذریعہ اَیپ استعمال کرنے والے اس وقت بھیجا جاتا ہے جب اَیپ بند ہو)موصول کر سکتے ہیں اور جرائم سے متعلق انتباہات دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

اوورٹن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف مشی گن کا پولس محکمہ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تاکہ طلبہ، خاص طور پر بین الاقوامی طلبہ کے ساتھ ان کی حفاظت کے تعلق سے رابطے میں رہے۔
بین الاقوامی طلبہ خاص طور پر یہ جاننے کے خواہاں ہو سکتے ہیں کہ یونیورسٹیاں نفرت انگیز جرائم کے موضوع سے کس طرح نمٹتی ہیں۔ ڈی پی ایس ایس نفرت انگیز جرائم کی فوری اطلاع دینے کے لیے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
یو ایم ڈی پی ایس ایس کی ویب سائٹ پر مرقوم ہے’’یو ایم کی غیر امتیازی پالیسی کے مطابق ڈی پی ایس ایس نسل، رنگ، قومی نژاد، عمر، ازدواجی حیثیت، جنس، جنسی رجحان، صنفی شناخت، صنفی اظہار، معذوری، مذہب، قد، وزن یا تجربہ کاری سے قطع نظر تمام افراد کے آئینی حقوق کی پاسداری کرے گا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی اور ڈی پی ایس ایس ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی جرم سے سختی سے نمٹے گا۔‘‘

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے