گھر واپسی

امریکی سفارت کار سندھیا گپتا بھارت میں اپنی فلبرائٹ فیلو شپ کی تکمیل کی دو دہائی کے بعد بھارت واپس آنے کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔

کریتیکا شرما

January 2023

گھر واپسی

امریکی سفارت کار سندھیا گپتا(بائیں سے تیسری) ۹۹۔۱۹۹۸ میں امریکی فلبرائٹ اسکالر کے طور پر پنچایتی راج میں خواتین کی شمولیت کا مطالعہ کرنے بھارت آئی تھیں۔ بعد ازاں ۲۰۲۰ء میں امریکی سفارت خانے میں نائب قونصل کی حیثیت سے دوبارہ بھارت آئیں۔ (تصویر بشکریہ سندھیا گپتا)۔

نئی دہلی کے امریکی سفارت خانے میں قونصلرافسر کے عہدے پر فائز سندھیا گپتا  مقامی حکومت کی سیاست میں خواتین کی شمولیت کا مطالعہ کرنے کے لیے ۹۹۔۱۹۹۸  کے دوران بھارت میں قیام پذیر تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی تحقیق ہریانہ کی دیہی خواتین پر مرکوز تھی جس نے ان  کی شخصیت پر ایک نہ مٹنے والا نشان چھوڑا ۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا ۔ وہ ۲۰۲۰ء میں ایک امریکی سفارت کار کی حیثیت سے بھارت واپس آئیں۔ پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے بعض اقتباسات ۔

ہمیں اپنے بارے میں اور بھارت میں امریکی سفارت خانے میں اپنے کردار کے بارے میں بتائیں۔

جنوری ۲۰۲۰ء میں فارن سروس آفیسر کی حیثیت سے امریکی محکمہ خارجہ جوائن کرنے سے پہلے میں ریاست اوہائیوو کے شہر کلیولینڈ میں شہری حقوق کی وکیل کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔ یہی وہ شہر ہے جہاں میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔ نیو یارک شہر میں تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے بعد میں کلیولینڈ واپس چلی گئی تھی۔ اس سے پہلے میں نے واشنگٹن ڈی سی میں انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ بھی کچھ دنوں تک کام کیا تھا۔

شہری حقوق کی وکیل کی حیثیت سے میں نے ان تمام مدعیان کی نمائندگی کی جو کمپنیوں، سرکاری ایجنسیوں یا دیگر لوگوں کے خلاف مقدمہ کر رہے تھے جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی تھی۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس نے نہ صرف مساوات اور انصاف کے تئیں میری وابستگی کو مستحکم کیا بلکہ تجزیاتی تحریر، تحقیق، کیس مینجمنٹ اور بات چیت میں میری مہارتوں کو بھی فروغ دیا ۔  میرے خیال میں یہ وہ مہارتیں ہیں جن کا اطلاق فارن سروس پر بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ قانون میں کریئر کے بعد فارن سروس میں منتقل ہونے کی مختلف وجوہات تھیں لیکن میں سفارت کاری کے انتخاب کا سہرا اپنے فلبرائٹ تجربے کے سر باندھتی ہوں۔

اب میں نئی دہلی میں قونصلر افسر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہوں جہاں مجھے نان امیگرنٹ ویزا کے تعلق سے فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنے اس پہلے دورے کے دوران میں نے سفارت خانے کے ایکزیکٹو آفس میں اسٹاف اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے قریب قریب  ایک سال گزارا جہاں میں ناظم الامور اور قائم مقام ڈپٹی چیف آف مشن کی مدد کیا کرتی تھی۔

کیا آپ ہمیں امریکی فلبرائٹ اسکالر کی حیثیت سے بھارت میں گزارے گئے اپنے وقت کے بارے میں مزید بتا سکتی ہیں؟

میں ۱۹۹۸ء سے ۱۹۹۹ء تک بھارت میں فلبرائٹ اسکالر تھی۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ میں قریب قریب ۲۵ برس پہلے یہاں آئی تھی ۔ میری تحقیق پنچایتی راج (دیہی گاؤں کی کونسل) میں خواتین کی شراکت پر مرکوز تھی۔ چند سال قبل بھارت نے ایک آئینی ترمیم کو منظوری دی تھی جس کے تحت بلدیاتی اداروں کی ایک تہائی نشستوں کو خواتین کے ذریعے بھرنے کا التزام کیا گیا تھا۔ اس بات کو معلوم کرنے کا یہ ایک بہتر موقع تھا کہ دیہی علاقوں میں اس پالیسی کو کس طرح نافذ کیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر میری تحقیق ہریانہ خطے  پر مرکوز تھی کیونکہ میں نے کروکشیتر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے ساتھ رابطہ قائم کیا تھا اور یہ  دہلی کے قریب تھا جہاں میں رہا کرتی تھی۔ وہاں میں نے بہت سارے گاؤں کا دورہ کیا اور پنچایتوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین سے ملاقات کی۔ میری تحقیق نے مجھے ملک بھر میں دورہ کرنے اور مختلف خطوں کے تجربات کا موازنہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔

فلبرائٹ نے لوگوں سے ملنے، سماجی عوامل کے بارے میں بصیرت حاصل کرنے اور ایسی جگہوں، خاص طور پر دیہاتوں کا دورہ کرنے کا غیر معمولی موقع فراہم کیا جہاں میں بصورت دیگر کبھی نہیں جاپاتی۔ میں آندھرا پردیش میں اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ  امریکی نغمہ ’’ہم ہوں گے کامیاب‘‘ گانا ،یا گاؤں میں ایک کنبے کے گھرکی چھت پر سونا کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گی۔ میں فلبرائٹ پروگرام کی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے بھارت کے تنوع کو دریافت کرنے، دیکھنے اور گہری اور دیرپا دوستی قائم کرنے کا موقع فراہم کیا۔

سندھیا گپتا(دائیں) کی دلائی لاما سے ملاقات۔(تصویر بشکریہ سندھیا گپتا)

آپ نے اپنی فلبرائٹ تحقیق کے لیے بھارت کا انتخاب کیوں کیا؟

بھارت آنے سے پہلے میں نے ۱۹۹۷ء میں بیرون ملک جنوبی افریقہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ وہاں جانا ایک حیرت انگیز موقع تھا کیونکہ جنوبی افریقہ نے اسی وقت اپنا پہلا  جمہوری انتخاب منعقد کیا تھا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اپنے ماضی سے نبرد آزما بھی تھا۔ میں نے سچائی اور مصالحتی کمیشن کی کئی سماعتوں میں شرکت کی اور نسلی امتیاز کے بعد جنوبی افریقہ میں بلدیاتی اداروں کے ڈھانچے کا مطالعہ کرنے کے لیے دیہی علاقوں کا دورہ کیا۔ مجھے اس بات میں دلچسپی تھی کہ جب لوگ مقامی فیصلہ سازی میں فعال حصہ لیتے ہیں تو جمہوریت کیسے مضبوط ہوتی ہے۔ جنوبی افریقہ سے بھارت  آنا ایک فطری تعلق تھا کیونکہ دونوں ممالک کی جمہوری تحریکوں میں بعض چیزیں قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر نسلی امتیاز کے خلاف جنوبی افریقہ کی ابتدائی تحریک بھارت کی اپنی آزادی کی جدوجہد سے متاثر تھی  اور ظاہر ہے مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کی مزاحمت کے فلسفے نے جنوبی افریقہ میں ان کے قیام کے دوران جڑیں پکڑیں۔

بھارت میں آپ کے فلبرائٹ کے تجربے نے آپ کو امریکہ میں ایک وکیل کی حیثیت سے کس طرح متاثر کیا؟

قانون کے اسکول جانے میں میری دلچسپی ہمیشہ سماجی انصاف کو فروغ دینے، معاشرے میں پسماندہ افراد کی وکالت کرنے اور ان کے حقوق کے لیے ان کی جنگ میں ان کی حمایت کرنے کے لیے تھی۔ یہ توجہ عوامی فیصلہ سازی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے بارے میں میری فلبرائٹ تحقیق سے قریبی طور پر منسلک تھی۔ میں اپنے فلبرائٹ فیلو شپ کی مدت  کے دوران گاؤں والوں سے تبدیلی لانے کے لیے ان کے ہاتھوں میں طاقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے متاثر تھی۔ بھارت میں اس کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے اور مجھے یاد ہے کہ میں مہاتما گاندھی جیسی عظیم ہستیوں اور گاؤں کی سطح پر خود مختارحکومت کے لیے ان کے تصور کے حوالہ سے لوگوں سے رابطہ کیا کرتی تھی۔ میں نے ان موکلوں میں بھی یہی ترغیب دیکھی جن کی میں نے بعد میں نمائندگی کی اور جنہوں نے اقتدار کے سامنے حقیقت بیان کی  یا اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ دونوں ہی صورتوں میں بہ لحاظ مراتب (اوپرسے نیچے کی طرف درجہ وار) اور پالیسی اور نیچے سے اوپربااختیار بنانے کی کوششوں  کے امتزاج نے تبدیلی کو جنم دیا۔

 جب آپ کو پتہ چلا کہ امریکی محکمہ خارجہ میں کام کرتے ہوئے آپ کا پہلا دورہ بھارت کا ہوگا تو آپ کے خیالات کیا تھے؟

میں بہت خوش تھی۔  حالانکہ یہ مکمل طور پر حیرت کی بات نہیں تھی کیونکہ میں نے اپنی ترجیحات کی فہرست میں بھارت کوپہلے سے ہی بہت اوپررکھا ہوا تھا۔  میں نے سوچا کہ بھارت واپس آنا اور یہاں اپنے فارن سروس کریئر کا آغاز کرنا بہت معنی خیز ہوگا۔

میں نے ۹۹۔۱۹۹۸میں  سنا کہ کالج سے نکلنے والے فلبرائٹرس( جیسا کہ میں تھی)مستقبل کے سفارت کار ہوں گے۔ میں نے کئی برسوں تک( جب میں فارن سروس کے بارے میں سوچ رہی تھی)اس بات پر زیادہ غور نہیں کیا اور پھر ایسا لگا جیسے میں نقطہ آغاز پر مراجعت کر رہی ہوں۔ میں فلبرائٹ کے دوران بھی اس بات سے آگاہ تھی  کہ کس طرح اس پروگرام کے ذریعے قائم ہونے والے لوگوں کے درمیان روابط دونوں ممالک کے درمیان باہمی افہام و تفہیم  کومستحکم کرسکتے ہیں۔ لہذا، اس تعلق کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری عہدے پر واپس آنا بہت اہم تھا۔

بھارت میں امریکی سفارت کار کے طور پر کام کرنے کے بارے میں سب سے دلچسپ بات کیا ہے؟

بھارت میں امریکی سفارت کار کی حیثیت سے خدمات انجام دینا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں رہا ہے۔ مجھے ایسی جگہوں اور تجربات تک رسائی حاصل ہے جنہوں نے مجھے ثقافت کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعلقات کے بارے میں منفرد بصیرت فراہم کی ہے۔ لیکن جب میں بھارت میں اپنے قیام کے بارے میں غور کرتی ہوں تو بلا شبہ سب سے بڑا اعزاز ناقابل یقین لوگوں سے جڑنا اور ان سے سیکھنا رہا ہے خواہ یہ وہ لوگ  ہوں جن سے میں روزانہ کی بنیاد پر بات چیت کرتی ہوں یا جن سے میں سرکاری حیثیت میں ملتی ہوں۔

مثال کے طور پر میں تبت کے جلاوطنی میں حکومت والے اس افسر کو یاد کرتی ہوں  جنہوں نے میرا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا تھا اور خود کو’ بھارت کی بیٹی ‘ قرار دیا تھا۔

یا پھر بلدیاتی ادارے کے ٹھوس فضلے کو توانائی میں تبدیل کرنے پر کام کرنے والے سماجی کاروباری پیشہ ور کو  یا میں معذوری سے متعلق حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے انٹرن کو یاد کرتی ہوں جنہوں نے مجھے دکھایا کہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے کا مطلب کیا ہے۔ یا سفارت خانے میں میرے مقامی عملے کے ساتھی کو یاد کرتی ہوں جنہوں نے تنوع، مساوات، شمولیت اور رسائی کو فروغ دینے کی بارہا بات کی ہے اور اس کوشش میں اپنا دل وجان لگا دیا ہے۔ وہ لمحات جب میں نے سب سے زیادہ جڑا ہوا، خوش یا متحرک محسوس کیا ہے وہ لوگوں کے ساتھ رابطے کے لمحات ہیں۔ ان لمحات نے اس دورے کو واقعی غیر معمولی بنا دیا ہے۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے