تبدیلی سے نمٹنا

بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجتے وقت والدین کو بہت سے خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسے وسائل کے بارے میں جانیں جن کا تعلق ان خدشات کے ازالے سے ہے۔

اسٹیو فاکس

April 2023

تبدیلی سے نمٹنا

(ڈِمپل بھاٹی /آئی اسٹاک / گیٹی امیجیز)

والدین کو اُس وقت فطری طور پر کئی خدشات لاحق ہوتے ہیں جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ان کے بچوں کے گھر چھوڑنے کا وقت آتا ہے۔ ان خدشات میں اکثر اُس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آدھی دنیا کا سفر طے کر کے امریکہ جانا ہو۔

کیمپس میں حفاظت اور کھانوں کے متبادل سے لے کر ثقافت کی تبدیلی تک، والدین اس تعلق سے فکر مند ہوتے ہیں کہ ان کے بچے ایک نئے تعلیمی نظام میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دباؤ کے ساتھ ایک نئے ملک میں کس طرح اپنی زندگی کو ڈھالیں گے۔

ممبئی کے انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی میں تدریسی خدمات انجام دینے والے بی این تھوراٹ، جن کے تین بچے امریکہ میں زیر تعلیم ہیں، کہتے ہیں ’’۱۷ سالہ بچے کو اپنے گھر سے بہت دور جانے دینے کو لے کر ایک طرح کے تناؤ کا شکار تھا۔ حقیقتاً بچوں کو چھوٹی عمر میں کہیں بیرون ملک جانے دینا والدین کے لیے ایک پُرچیلنج فیصلہ ہے۔‘‘

تھوراٹ کی طرح زیادہ تر والدین کے خدشات بھی ان ہی باتوں کے گرد گھومتے ہیں کہ آیا امریکی تعلیم سرمایہ کاری، رہائش اور خوراک کے متبادل، تعلیمی اور جذباتی مدد جس کی ان کے بچے توقع کر سکتے ہیں، کے شایانِ شان ہے اور کیا ان کے بچے وہاں محفوظ رہیں گے۔

والدین کے لیے وسائل

جب والدین اپنے بچوں کے لیے ان تعلیمی اداروں کی تلاش شروع کرتے ہیں جو ان کے لیے بہترین ہیں تو خوش قسمتی سے ان کے لیے معلومات کا خزانہ دستیاب ہے۔ معلومات کا ایک اہم ذریعہ ان یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس ہیں جہاں وہ  داخلہ لینے کے لیے غور و خوض کرتے ہیں۔

امریکہ ۔ بھارت تعلیمی فاؤنڈیشن (یو ایس آئی ای ایف) امریکی یونیورسٹی کیمپس میں ایک بین الاقوامی طالب علمانہ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر والدین اور ممکنہ طلبہ کے لیے باقاعدگی سے اجلاس کا اہتمام کرتا ہے۔ یہ سابق طلبہ کی موجودہ طلبہ کے ساتھ وابستگی میں معاون ہوتا ہے ۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ موجودہ طلبہ ممکنہ طلبہ اور ان کے والدین کے ساتھ تجربات کا اشتراک کر سکیں۔

ادیتی لیلے ممبئی میں یو ایس آئی ای ایف کے ساتھ بحیثیت ایجوکیشن یو ایس اے مشیر تعینات ہیں۔ وہ کئی کنبوں کی مشاورت کے اپنے تجربے کا اشتراک کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ہم والدین کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ یونیورسٹی کی ویب سائٹس کو باریک بینی سے دیکھیں، یونیورسٹی کے تعلق سے دی جانے والی معلومات سے متعلق اجلاس میں شرکت کریں اور اگر ضرورت ہو تو اپنے سوالوں کے جواب کے لیے یونیورسٹی کو لکھیں۔ ایجوکیشن یو ایس اے کے مشیر اس عمل میں والدین کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔‘‘

مشیروں کا کہنا ہے کہ کچھ والدین اپنے بچوں کے ساتھ کالجوں میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ انہیں وہاں قیام کرنے میں مدد مل سکے اور وہ سمجھ سکیں کہ ان کے ابتدائی دن کیسے گزرتے ہیں۔ اپنے دو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ بھیجنے والے بندو اور مینک تیواری کا کہنا ہے کہ کیمپس میں رہنے سے ان کے بچوں کی پریشانیوں کو کم کرنے میں کافی مدد ملی۔

بندو کہتی ہیں ’’ہم نے بڑے بچے کو (اس کے یونیورسٹی کیمپس میں) چھوڑ دیا۔ واقفیتی پروگرام کے دوران، نئے لوگوں کے لیے دستیاب جن وسائل اور مضبوط امدادی نظام کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا (خواہ جذباتی  ہو یا تعلیمی) وہ بہت اطمینان بخش تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہمیں اپنے بیٹے سے یہ پتہ چلا کہ یہ نظام واقعی کام کرتا ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔‘‘

طلبہ کی حفاظت

کیمپس میں حفاظت ان والدین کے لیے اہم خدشات میں سے ایک ہے جن کے بچے پہلی بار والدین کے بغیر رہنے والے ہیں۔  زیادہ تر یونیورسٹیوں نے آنے والے بین الاقوامی طلبہ اور ان کے والدین کی آسانی کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص نظام اور ضابطے اختیار کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مشی گن یونیورسٹی میں ڈویژن آف پبلک سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (ڈی پی ایس ایس) نے اپنی طلبہ برادری کے لیے مکمل طور پر تسلیم شدہ پولس فورس، تقاریب کی حفاظت اور پولس کے ساتھ سواری کا انتظام جیسی سہولیات رکھی ہیں۔ بڑی یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس اکثر ان کے مجموعی حفاظتی انتظامات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اس کےعلاوہ یونیورسٹی پولس ڈیپارٹمنٹ کے مشن اسٹیٹمنٹ، ایمرجنسی ہیلپ لائنس سے متعلق معلومات، کیمپس میں رابطے کے  فون نمبر اور سلامتی اعداد و شمار سے متعلق سالانہ رپورٹس فراہم کرتی ہیں۔

کمیونٹی سے رابطہ

بڑے امریکی کیمپسس میں عام طور پر ہم خیال ساتھیوں اور طلبہ کے کئی طبقات ہوتے ہیں۔ بھارتی طلبہ کے لیے انڈین اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن گھر سے دور ایک گھر کی طرح ہے۔ نئے طلبہ کے قیام میں مدد کرنے سے لے کر فائنل اکزام کے دوران مفت کھانے کو یقینی بنانے تک ایسوسی ایشن اپنی طلبہ برادری کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہ ثقافتی رقص کے مقابلوں کا بھی اہتمام کرتا ہے اور بھارتی تہوار وں کا انعقاد بھی کرتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بھارتی طلبہ گھر کی کمی محسوس نہ کریں۔

اسی طرح ایک غیر منافع بخش تنظیم نارتھ امریکن ایسوسی ایشن آف انڈین اسٹوڈنٹس کالج اور یونیورسٹی کیمپس میں مختلف بھارتی گروپوں کو مربوط کرتی  ہے تاکہ بھارتی طلبہ کے لیے بہتر وسائل پیدا کیے جا سکیں۔

یونیورسٹیاں اپنے بین الاقوامی طلبہ کو واقفیتی پروگراموں کے دوران کلیدی خدمات اور وسائل کے بارے میں بھی آگاہ کرتی ہیں۔ چونکہ تبدیلی عام طور پر دشوار گزار ہوتی ہے ،لہٰذا بندو نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ بچوں کی سکونت کے پہلے چند ہفتوں کے دوران ان کے لیے دستیاب رہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ابتدائی ہفتے دشوار گزار ہوتے ہیں ، لہٰذا بچوں سے بات چیت کرتے رہیں۔ جب ان کے  فون کرنے میں کمی آجائے تو آپ خوش ہو سکتے ہیں کہ آپ کے بچوں نے خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا ہے۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے