صنف مساوی کلاس روم کی تشکیل

دہلی میں اسکول کے اساتذہ بچوں کے لیے اسکول میں غیرامتیازی ماحول بنانے کی تگ و دو کررہے ہیں۔

رنجیتا بسواس

December 2022

صنف مساوی کلاس روم کی تشکیل

انگریزی زبان کی ماہرہ میگن ڈوناہو نے دہلی کے ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ساتھ شراکت میں ۳۰ اتالیق کے لیے صنفی ورکشاپ کیا جس سے ان اتالیق اساتذہ کو بھی اس بات کا موقع ملا کہ وہ دہلی کے اسکولوں کے اپنے ہم منصب اساتذہ کو بھی وہی اسباق پڑھا سکیں۔

ایک  بچے کو  اوّلین صنفی تجربہ اکثر و بیشتر کلاس روم میں ہی ہوتا ہے جہاں اسے معلوم ہوتا ہے کہ مردوزن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔حتیٰ کہ جن کھلونوں سے وہ کھیلتا ہے ان میں بھی صنفی تفریق نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچے اپنی عمرکے تین برس مکمل کرنے سےپہلے ہی صنفی طور پر با شعور ہو جاتے ہیں۔لہذا ،اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ  ابتدا ہی  سے محفوظ مگر صنف مساوی ماحول پیدا کریں۔

نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے مقامی انگریزی زبان دفتر (ریلو)نے دہلی سرکار کی شراکت سے ۲۰۲۲ءکے وسط میں  اسکولی اساتذہ کے لیے ایک ۱۵روزہ پروگرام شروع کیا۔ اس  پروگرام کا مقصد اسکولی اساتذہ کو مخصوص قسم کی تربیت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اسکولوں میں صنف مساوی ماحول تیار کر سکیں اور اسکول میں صنفی تشدد پر قابو پا سکیں۔ اس ورکشاپ کا انعقاد انگریزی زبان کی ماہر میگن ڈوناہو نے کیا تھا جس کے تحت انہوں نے ۳۰ اتالیق اساتذہ کو یکساں نصاب پڑھایا۔ منصوبہ یہ تھا کہ یہ۳۰ تربیت یافتہ اتالیق اساتذہ دہلی سرکار کے اسکولوں کے ۲ ہزار اساتذہ کو تربیت دیں گے جس کا اثر ۲۲ لاکھ سے بھی زائد بچوں پر پڑے گا۔

 اساتذہ ہی کیوں؟

ڈونا ہو بتاتی ہیں ’’ چوں کہ اساتذہ اسکول میں صنفی ترجیحات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اکثر اساتذہ لاشعوری طور پر منفی صنفی ضوابط قائم کرتے ہیں ، اس لیے وہ بچوں کے لیے نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جس کی تعلیم ان کے اساتذہ دیتے ہیں ۔ اساتذہ بچوں میں صنف مخصوص تصورات قائم کرتے ہیں یا پھر صنفی تعصبات کو ختم کرتے ہیں ۔‘‘

ڈوناہوگذشتہ چالیس برسوں سے دیہی اور شہری اسکولوں میں صنف مساوی ماحول تخلیق کرنے  میں سرگرم عمل ہیں۔اس طویل عرصہ کے دوران ان کا تجربہ بتاتا ہے ”ہمارے طرز گفتگو،  طرز اور مقام خوردو نوش، ہماری سیاسی سرگرمیاں اور ہمارے اداروں کی تخلیق“ میں صنف بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 اسکول میں صنفی تشدد پر قابو پانے میں بھی اسکولی اساتذہ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔صنفی تشد کے واقعات اسکول میں یا پھر اسکول کے قرب وجوار میں پیش آتے ہیں۔مگربچے اس سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ بعض اوقات تو اسکول ہی سے ان کا نام کاٹ دیا جاتاہے۔ اساتذہ صنفی تعصب اور دقیانوسی سوچ سے پاک ماحول پیدا کرنے کی سمت پیش قدمی کر سکتے ہیں جس کا اثر دانستہ یا نا دانستہ طور پر  کلاس روم میں نظر آتا ہے۔

تربیت کے دوران اسکولوں میں صنفی تشدد کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا گیا ۔مثلاً یہ کیوں ہوتا ہے؟ اساتذہ اس پر قد غن لگانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں اور اس پر نگرانی کیسے رکھ سکتے ہیں؟ ڈونا ہو بتاتی ہیں ”ہم نے اساتذہ کو اس سلسلے میں بھی تربیت دی کہ وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے خود کوباخبر رکھیں تاکہ صنفی تعصب پر قابو پاسکیں۔‘‘

محفوظ مقامات کی تخلیق

ڈوناہو باخبر کرتی ہیں کہ ریلو تربیت کے دوران اساتذہ کو صنفی طور پر خود اپنا محاسبہ کرنے کو کہا گیا۔انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے اس رویہ سے بچوں اور اسکول کے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

اس ورکشاپ میں اپنے تجربہ کے بارے میں دہلی ڈائریکٹوریٹ برائے تعلیم میں پروجیکٹ سربراہ مینو گپتا بتاتی ہیں”اس تربیت  کے دوران میں نے بہت کچھ سیکھا۔اس کا نصاب اور طریقہ تعلیم نہایت ہی عمد ہ تھا۔اس میں جس طرح کے سوالات کئے گئے ان سے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے اور تبدیلی قبول کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ میں نے اس دوران یہ بھی سیکھا کہ کلاس روم میں کسی نہایت حسّاس  موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ماحول کو کس طرح خوش گوار رکھا جا سکتا ہے۔‘‘

گپتا  کہتی  ہیں کہ بحیثیت معلّم اساتذہ کوچاہیے کہ وہ بچوں کی صنف مساوی ماحول میں پرورش میں مدد کریں۔وہ مزید گویا ہیں کہ اس پرو جیکٹ کی بدولت اساتذہ کے اندر یہ صلاحیت پیداہوئی ہے کہ وہ ذراتوقف کریں اور کام کاجی ماحول میں خود کا محاسبہ کریں۔ ”ہمارا برتاؤ کیسا ہے؟ اس میں اگر تبدیلی کی ضرورت ہے تو اسے فوراً کریں اور اپنے اند ر بہتری کی جانب گامزن ہوں۔“

گپتا بیان کرتی ہیں’’ اس تربیت سے شرکاء کے اندر صنف جیسے حسّاس موضوع کے متعلق بیداری پیدا ہوئی۔اس تربیت کے نتیجے میں ہم لوگ  اپنے سیکھنے والوں کےلیے ایک کھلا اورغیر متعصب ماحول تیار کر سکتے ہیں۔‘‘

مراری کمار جھا جو سماجی علوم کے تربیت یافتہ گریجویٹ استاد اور ایک اتالیق ا ستاد بھی ہیں بتاتے ہیں کہ یہ ورکشاپ ان کا صنفی مباحث کے متعلق اوّلین تجربہ تھا اور بلا شبہ اس کی اشد ضرورت تھی۔وہ کہتے ہیں ’’ میں گذشتہ ایک عشرے سے تعلیم کے میدان میں سرگرم عمل ہوں مگر یہ میرے لیے پہلا موقع تھا جب میں صنفی مباحث کے تدریسی پہلوؤں سے آشنا ہوا۔ بحیثیت ایک معلّم ہمیں چاہیے کہ ہم ایک ایسی زبان کو فروغ دیں جس سے صنفی مساوات  کا ماحول قائم ہو۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ اکثر وہ مسائل جن سے امتحان میں بچےکی  کارگردگی پر راست طور پر متاثر نہیں ہوتی انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔  حالانکہ صنف مساوی کلاس روم تخلیق کرنے کی تمام تر کاوشوں کا محور بچیوں کے زیادہ سے زیادہ داخلوں پر ہوتا ہے مگر صنفی مساوات قائم رکھنے کےلیے نہ صرف بچیوں کے داخلوں پر بلکہ ان کو اسکول میں برقرار رکھنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔اساتذہ اور معلّمین  کو بھی اس امر میں تربیت دی جانی چاہیے کہ کس طرح معلّمین  اور شاگردوں کے درمیان محفوظ رشتہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ در حقیقت  یہی چیز صنف مساوی کلاس روم کی ضامن ہے۔

رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ افسانوی ادب کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے