طبقات کا قریب لانا

ورثے کے موضوع پر مبنی ایک منفرد تبادلہ پروگرام مغربی بنگال سے لے کر واشنگٹن ڈی سی تک نوجوان فنکاروں اور پیشہ ورافراد کو اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سیکھیں۔

مائیکل گیلنٹ

January 2019

طبقات کا قریب لانا

اسمتھ سونین سینٹر فار فوک لائف اینڈ کلچرل ہیریٹیج کی ناظم اور ماہر تعلیم بیٹی بیلانوس(بائیں) اور روشن مستقبل کے لیے باہم تدریس پروجیکٹ کے امریکی شرکا نے ۲۰۱۸ء میں بھارتی ہم منصب اداروں کا دورہ کیا۔(تصویر بشکریہ کونٹَیکٹ بیس)۔

سنہ ۲۰۱۷ ءکے ستمبرکے اوائل میں ۳۱ بھارتی اور ۲۰ امریکی شہریوں نے ایک منفرد قسم کے پروگرام میں شرکت کی۔

ثقافتی تبادلے سے مالامال اس پروگرام کا مقصد کمپیوٹروں، کھانا پکانے کے طریقوں، ہوائی جہازوں، فنون لطیفہ اور زندگی میں کم از کم ایک بار تخلیقی شراکت کے ذریعے تعلقات قائم کرنا تھا ۔

دی لرننگ ٹوگیدر ٹووارڈ اے برائٹر فیوچر پروجیکٹ دنیا بھر میں امریکی محکمہ خارجہ کےکمیونٹیز کنیکٹنگ ہیریٹیج کی شراکت داری والے ۶ پروجیکٹ میں سے ایک ہے جس کا اہتمام و انتظام ورلڈ لرننگ نامی تنظیم کرتی ہے۔ مذکورہ پروجیکٹ کی شروعات کولکاتہ میں واقع ایک سماجی ادار ے کَونٹیکٹ بیس اور واشنگٹن ڈی سی کے اسمتھ سونین سینٹر فارفوک لائف اینڈ کلچرل ہیریٹیج نے کیا تھا۔ دونوں تنظیموں نے مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے علم کو فروغ دینے ، تحفظ فراہم کرنے اور اس کا اشتراک کرنے کی خاطر خود کو وقف کردیا ہے۔

بنگلہ ناٹک ڈاٹ کام(کَونٹیکٹ بیس اسی کے تحت آتا ہے) کی ڈائرکٹر اور پروجیکٹس کی وائس پریزیڈینٹ اننّیا بھٹاچاریہ بتاتی ہیں ”ہماری دونوں تنظیمیں اس بات پر یقین کرتی ہیں کہ امن کی فضا بحال کرنے میں ثقافت اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ثقافتی پائیداری طبقات کو با اختیار بنانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ہم ہند اور امریکہ دونوں ممالک میں نوجوانوں سے رابطہ قائم کرنے کے طریقوں کی تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے ورثے کے بارے میں باخبر ہوسکیں اور ان سے سیکھ بھی سکیں۔‘‘

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں ” ہم تخلیقی اداروں پر بھی توجہ دینا چاہتے تھے اور اس بات پر بھی کہ روایتی ہنر مندی، علم اور فنون لطیفہ کس طرح ادراک اور امن میں تعاون کر سکتے ہیں۔‘‘

عملی طور پر اس کا مطلب دونوں ملکوں سے ایسے نوجوان شرکاءکا انتخاب کرنا ہے جو فنون لطیفہ اور ثقافت میں گہری دلچسپی ، تجربہ اور مہارت رکھتے ہوں۔ اس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں مغربی بنگال سے لپیٹی جا سکنے والی پٹوا پینٹنگ کرنے والے،گلوکار، ڈوکرا میٹل ورکرس ، باؤل گانے والے اور دیگر فنکار شامل تھے۔ امریکی شرکا ءمیں بشریا ت، عمرانیات ، لسانیات اور عوامی حکایات جیسے شعبوں میں تعلیمی پس منظر رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

یہ تبادلہ پروگرام تصاویر ، ویڈیو اور دیگر ذرائع سے اپنی ثقافت اور پس منظر کی جھلکیوں کا اشتراک کرنے والے ہر ایک ملک سے عملے کے دو ارکان اور تین شرکاءکے ساتھ آن لائن ہی شروع ہوا۔ فروری ۲۰۱۸ ءمیں امریکی ٹیم نے اپنے بھارتی ساتھیوں سے ملنے کی غرض سے اور کولکاتہ میں ناقابل فراموش سُر جہان عالمی امن موسیقی میلے میں شرکت کرنے کے لیے بھارت کا دورہ کیا۔ چار ماہ بعد بھارت سے ٹیم نے امریکہ کا دورہ کیا اور واشنگٹن ڈی سی میں منعقد زندہ ثقافتی ورثے کی سالانہ نمائش اسمتھ سونین فوک لائف فیسٹیول میں شرکت کی۔

ان دوروں کے درمیان تبادلے کے ان پروگراموں نے شخصی طور پر شامل ہونے والوں کے علاوہ مجازی شرکاء کی شمولیت کا بھی نظم کرکے اسے وسعت دی۔ دونوں ملکوں کے شرکا ء نے پروگرام کے رسمی بلاگ اور فیس بک پیج کے ذریعے اپنے گھر اور روز مرہ کی زندگی کی تصویروں اور ویڈیوز کا اشتراک کیا۔

مثال کے طور پر سی جے گوادرراما اور ارپن ٹھاکر چکر ورتی میں موسیقی کی مشترکہ محبت اس وقت دونوں کے درمیان دوستی کا سبب بن گئی جب چکر ورتی نے گلوکاروں اور جان ڈینور، باب مارلے ، پِنک فلوئڈ اور دی اسکارپیئنس جیسے بینڈس کو سن کر لطف اندوز ہونے سے متعلق ایک پوسٹ تحریر کی۔

ان مجازی اور شخصی شرکت پر مبنی تبادلہ پروگراموں نے ثقافت اور فنون لطیفہ کی صرف باہمی ستائش کو ہی فروغ نہیں دیا بلکہ ان پروگراموں نے نئے کاموں کی تخلیق کی راہ بھی ہموار کی۔ مثال کے طور پر ہند کے نوجوان فنکار انور چترکار نے میکسیکو کی روایتی ریٹابلو پینٹنگ کی ایک ہو بہو نقل پتہ چتر(مغربی بنگال میں روایتی طور پر کپڑوں پر بنائی جانے والی اورلپیٹی جا سکنے والی مصوّری) میں تیار کی اور اسے آن لائن پوسٹ کردیا۔ اس کا اشتراک امریکی شراکت دار اَیشلے مارٹینیز نے بھارتی کے اپنے دورے کے دوران کیا ۔ تبادلے کا یہ پروگرام جیسے جیسے آگے بڑھتا رہا دونوں ملکوں کے شرکا ء نے اپنی اپنی زندگیوں اور ثقافتوں کے زیاد ہ سے زیادہ پہلوﺅں کا اشتراک کیا ۔ ان میں کھانا بنانے کے روایتی نسخے بھی شامل تھے جن کا ان کے بین الا قوامی دوستوں نے اپنے اپنے باورچی خانوں میں تجربہ کیا۔

اسمتھ سونین سینٹر فارفوک لائف اینڈ کلچرل ہیریٹیج کی ایک مہتمم اور ماہر تعلیم بیٹی بیلانوس نے امریکہ کی جانب سے تبادلے کے پروگرام میں راہنمائی کی ۔ وہ بتاتی ہیں کہ بھارتی ٹیم کے اسمتھ سونین فوک لائف فیسٹیول کے دورے کے درمیان کس طرح لرننگ ٹو گیدر ٹو وارڈ اے برائٹر فیوچر کے سب سے زیادہ یادگار مظہر کا کامیاب نظارہ پیش کیا گیا۔

فروری میں اپنے دورہ ہند کے بارے میں بیلا نوس بتاتی ہیں کہ انہوں نے اور ان کی امریکی ٹیم نے مغربی بنگال کے نیا گاؤں میں پٹوا مصوّری پر کام کرنے والے ایک بڑے گروپ کے ساتھ نہ صرف وقت گزارا بلکہ اس دوران فن کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو بھی سیکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ امریکی گروپ سے اپنی کہانی تیار کرنے کے لیے کہا گیا تھا جسے اسکرول(مصوّری کی ایسی شکل جسے لپیٹا بھی جا سکے) اور نغمہ دونوں کے قالب میں ڈھالے جانے کا منصوبہ تھا۔

بیلا نوس باخبر کرتی ہیں ”ہمارے ذہن میں واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل مال (جہاں ہر برس اسمتھ سونین فوک لائف فیسٹیول منعقد کیا جاتا ہے) کی تاریخی کہانی کو اشتراک کرنے کا خیال آیا۔‘‘

اس کہانی پر بھارتی فنکاروں نے حیرت زدہ کرنے والے تین اسکرول بنائے۔ فنکاروں میں سے ایک مامونی چتر کار نے پروگرام کے تبادلے کے تحت امریکہ کا دورہ کیا ۔ ان کے اسکرول کو لائبریری آف کانگریس میں جون کے اواخر میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس موقع پر پیش کیے جانے والے نغمے پر اداکاری بھی کی۔

بیلا نوس کہتی ہیں کہ امریکی گروپ کے روایتی بھارتی فنکاروں سے ملنے سے شروع ہونے والی فنون کی بصری اور اداکاری والی یہ پیشکش کافی حیرت انگیز تھی۔ پیشکش کے بعد یہ فنکار نیشنل مال بھی گئے۔ بقول بیلانوس”مامونی کا امریکہ میں ہم لوگوں تک آنے اور واشنگٹن ڈی سی میں ناظرین کے سامنے نغمہ گانے کا خیال اب بھی مجھے ایک منفرد احساس دیتا ہے ۔‘‘

تبادلے کے اس پروگرام کی وسعت کی وجہ سے دوسرے شرکاءنے اس کے مختلف پہلوؤں میں گہرائی پائی۔ مامونی چترکار، ربی داس باﺅل اور دونوجوان ثقافتی پیشہ وروں کے ساتھ امریکہ کا سفر کرنے والے باﺅل گلوکار گریش منڈل کے لیےاسمتھ سونین میوزیم آف افریقن امیریکن ہسٹری اینڈ کلچرکا یہ دورہ تاثر سے پُررہا ۔ منڈل بتاتے ہیں ”پہلے میں ان کہانیوں کے بارے میں بالکل نہیں جانتا تھا۔ امریکہ کی ثقافت کے بارے میں سیکھنا میرے لیے سب سے حیرت انگیز چیز تھی ۔‘‘

اگر مامونی چترکار کی بات کریں تو ان کے لیے یہ ثقافتی روایتوں کا اشتراک تھا جس نے دیر پا اثرات مرتب کیے۔وہ بتاتی ہیں ”تبادلے کے اس پروگرام کی وجہ سے میں نے سیکھا کہ دیگر ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ روایتی فنون لطیفہ کا اشتراک اسی قدر اہم ہے جتنا کہ فن کی اس صنف کی مشق کرنا ۔‘‘

تبادے کے مجازی پروگرام کے شرکا کنیڈی سوڈین اور دیبراج چکرورتی نے تبادلے کے پروگرام کے دیر پا اقدار کو پروگرام کے بلاگ پر ایک پوسٹ میں تحریر کیا ۔ انہوں نے لکھا ”کسی شخص کے ساتھ ایک مشترکہ دلچسپی کا اشتراک کرنا، جوآپ سے ۸۰۰۰ میل دور ہے، اور اس دلچسپی پر تبادلہ خیال کرنا یا اس کے ساتھ اس دلچسپی کا موازنہ کرنے کا اہل ہونا واقعی ایک سوغات ہے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ وہ نیویارک سٹی میں رہتے ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے