زیرِآب کام کرنے والے ڈرون

سَم پریتی بھٹا چاریہ نے گہرے پانی میں کام کر سکنے والے ڈرون تیار کیے ہیں جو راحت اور بچا ؤ کی کاروائی میں ، تفتیش میں اور سمندر کے اندر تابکاری کے رساؤ کو روکنے میں مد د کر سکتے ہیں۔

جیسون چیانگ

November 2018

زیرِآب کام کرنے والے ڈرون

سَم پریتی بھٹاچاریہ (درمیان میں) مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ہائیڈروسوارم ٹیم کے ارکان کے ساتھ بات چیت کے دوران اپنے ہاتھ میں زیر آب کام کرنے والے ڈرون کا نمونہ لیے ہوئے۔ تصویر للّی پیکوئٹ

عام طور سے ہم ڈرون کی تعبیر ایسی مشینوں سے کرتے ہیں جو آسمان میں اڑ سکتے ہیں۔لیکن ہند نژاد امریکی سَم پریتی بھٹا چاریہ کے ذریعے بوسٹن میں قائم کی گئی نو وارد کمپنی  ہائیڈرو سوارم ، ڈرون کے بالکل مختلف استعمال کو دنیا کے سامنے لانے میں مصروف ہے۔ یہ کمپنی سمندری تحفظ، پائیداری اور حفاظت و نگہداشت کے نئے طریقوں کو وضع کرنے کا کام کررہی ہے ۔بھٹاچاریہ نے گہرے پانی میں کام کرنے والا فٹ بال کی ناپ والا خود مختار ڈرون اس وقت تیارکیا جب وہ مسا چیو سٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے میکانیکل انجینئر نگ میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔گہرے پانی میں کام کر سکنے کی صلاحیت والے اس ڈرون سے سمندری تحقیق اور سمندری مواد کے ذخیرے حاصل ہونے کے امکانات ہیں ۔ بھٹاچاریہ بوسٹن میں واقع غیر منافع بخش تنظیم  لیب ایکس فاؤنڈیشن کی شریک بانی ہیں ۔ ان کا فاؤنڈیشن طلبہ کو بر وقت مواقع کی فراہمی اور عالمی سرگرمیوں سے رو برو کرانے کے لیے پُر عزم ہے۔انہیں ۲۰۱۶ ء میں  فوربس تھرٹی انڈر تھرٹی فہرست میں جگہ ملی تھی۔ پیش ہے ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ انڈیا میں پلی بڑھیں، یہ بتائیں کہ اس وقت آپ کی دلچسپیاں کیا تھیں؟

جب میں کولکاتہ میں رہا کرتی تھی تو چند گھنٹو ں کے لیے ہمیں ٹی وی پر ڈِسکوری چینل دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ ڈِسکوری پر مریخ کے مشن سے متعلق دورے پر بنی دستاویزی فلم نے مجھے بہت متاثر کیا ۔بیرونی خلا ، روبوٹ اور ناسا نے حقیقی طور پر مجھے مسحور کیا ۔ اور میں اَیسٹرو فزی سِسٹ (فلکیات کی اس شاخ کی ماہر جو طبیعات اور کیمیا سے تعلق رکھتی ہے)بننے کا خواب دیکھنے لگی ۔ مگر یہاں میں نے پایا کہ متبادل محدود ہیں۔

وہ کون سی چیز تھی جس نے آپ کو امریکہ جانے کی ترغیب دی؟ یہاں اور امریکی کالجوں کے درمیان آ پ نے کیا فرق پایا؟

انڈیا میں زیاد ہ تر انڈر گریجویٹ کالج امریکہ کے کالجوں سے کافی مختلف ہیں۔آپ کو انڈیا کے زیادہ تر کالجوں میں بر وقت تجربے کی سہولت میسر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ یہاں بہت کم کالج ایسے ہیں جہاں صلاحیت سازی کے وسائل دستیاب ہیں۔میرے ایک قریبی دوست نے جب مجھے امریکہ کی ایک یونیورسٹی لیب میں اپنی انٹرن شپ کے بارے میں بتایاتو میں امریکی تجربہ گاہوں میں انٹرن شپ کے مواقع تلاش کرنے لگی ۔۵۰۰ سے بھی زیادہ ای میل روانہ کرنے کے بعد مجھے امریکہ میں ذرات سے متعلق طبیعات کی امریکہ کی اوّلین تجربہ گاہوں میں سے ایک  فرمی لیب میں انٹرن شپ کا موقع مل گیا ۔جدید انجینئر نگ میں یہ میرا پہلا بر وقت تجربہ تھا۔ یہاں کام کرنے کے بعد میں نے جان لیا کہ اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کا سوال ہی نہیں ہے۔

ہائڈروسوارم کا خیال آپ کوکس طرح آیا؟

ایم آئی ٹی میں اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے میں نے فورڈ پروفیسر آف انجینئرنگ ہیری اساڈا کے ساتھ نیوکلیر ری ایکٹر کے پانی کے ٹینکوں میں شگاف کی تلاش کے لیے تیار کیے گئے زیرِ آب روبوٹ پر کام کر نا شروع کیا۔ اسی سلسلے میں ایک دن میں اسمگلنگ کے بارے میں پڑھ رہی تھی کہ مجھے خیال آیا کہ ہمارے روبوٹ غاروں میں یا جعلی کمروں میں چھپے اسمگلر وںکے جہازوں کی تلاش کا کام بھی کر سکتے ہیں ۔ ۲۰۱۴ ء میں ملیشین ایئر لائنس کی فلائٹ

ایم ایچ ۳۷۰ کے لاپتہ ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ سمندروں سے متعلق ہماری معلومات کتنی کم ہے۔ مجھے سب سے زیادہ دلچسپ یہ بات لگی کہ گہرے پانی کی تحقیق میں خلائی تحقیق سے بھی زیادہ چیلنج ہیں۔ مجھے اس بات کا گمان تھا کہ ہمارے چھوٹے روبوٹ بڑے خطے کا پتہ لگانے میں اور راحت اور بچائو کی کارروائی میں مدد کرنے میں ایک ساتھ کام کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔

گہرے پانی میں کام کرنے والے آپ کے ڈرون کے بعض عملی استعمال کیا ہیں؟

ہمارے ڈرون میں صلاحیت ہے کہ مستقبل میں اسمگلروں کی نگرانی سے لے کر راحت اور بچاؤ کی کاروائی اور تحقیق تک اور تابکاری کے رساؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے نیو کلیر ری ایکڑ کے پانی ٹینکوں کی جانچ کر سکے۔ مجھے مسرت ہوگی اگر میں سمندروں اور بندر گاہوں کی حفاظت میں تعاون کرسکوں۔ایم ایچ ۳۷۰ کے لا پتہ ہونے جیسے حادثے نے مجھے یہ احساس دلایا کہ تیز رفتار اور زیادہ موثر راحت اور بچاؤ کی کاروائیوں کے لیے ہمیں اپنی تکنیک کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

آپ کی غیر منافع بخش تنظیم لیب ایکس فاؤنڈیشن کو شروع کرنے کی ترغیب آپ کو کیسے ملی اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

لیب ایکس کے شریک بانیان کی دی اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی ۔ ان سب کی ایک ہی قسم کی کہانیاں تھیں۔ ہم سب ہی چھوٹے چھوٹے انجینئرنگ اسکول سے آئے تھے ۔ ہم انڈیا میں رک کر بڑی بڑی چیزیں کیوں نہیں بنا سکے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی بھی ہمیں اس طرح کا کوئی کام کرنے کا موقع نہیں دے گا۔ میرے خیال میں ہم لوگ انسانی وسائل اور ذہانت کی بڑی مقدارکو برباد کر رہے ہیں جس کا استعمال کچھ زیادہ اختراعی اقدامات پر کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں نے لیب۔ ایکس کا آغاز کیا ۔اس کا مقصد خواہش مند انجینئروں کو اختراع کے مواقع فراہم کرنا ہے۔

لیب ایکس کو قائم کرنے کا ہمارا مقصد انٹرن شپ کے مواقع، تحقیقی مظاہرے، ورکشاپ، طلبہ کے اشتہار اور نمائشی اجلاس اور مختلف مقررین کی تقاریر جیسے پروگراموں کے ذریعے بر وقت سیکھنے کا ماحول تشکیل دینا ہے۔

آپ ہی کی طرح کی دلچسپیا ں رکھنے والے مستقبل کے انجینئر یا طلبہ کے لیے آپ کیا مشورے دینا چاہیں گی؟

خود میں اعتماد رکھیں۔ کوئی بھی نئی چیز یا وہ چیز جس میں آپ واقعی دلچسپی رکھتے ہیں، اسے انجام دینے میں خوف نہ کھائیں۔ یہ مت کہیں کہ میں ریاضی میں بالکل اچھا نہیں ہوں اور میں کبھی انجینئر نگ نہیں کر سکتا ۔ انجینئرنگ کرنے کی کوشش کریں اور اس سے خوف نہ کھائیں۔ گریڈ کے بارے میں پریشان نہ ہوں کیوں کہ آخر میں یہ بس نمبر ہی ہوتے ہیں ۔ اس چیز کی اہمیت زیادہ ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں سے کیا تیار کرتے ہیں اور اپنے دماغ سے کیا تخلیق کرتے ہیں۔

جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے