اختیار تفویض کرتے ڈیجیٹل آلات

فلبرائٹ۔نہرو فیلو مینا پلئی دریافت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ڈیجیٹل ترسیل کیسے حقوق نسواں کے کارکنوں کو با اختیار بنا رہی ہے۔

مائیکل گیلنٹ

March 2021

اختیار تفویض کرتے ڈیجیٹل آلات

فل برائٹ-نہرو فیلو مینا پلائی نے اس بات کی تحقیق کی کہ ڈیجیٹل مواصلات کی افادیت کارکنوں کو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ تصویر آئی اسٹاک / گیٹی امیجز

کیا ہوتا ہے جب حقوق ِ نسواں کے لیے لڑنے والے اجلاس اور مظاہروں میں شرکت کے علاوہ ویب کانفرنسوں، چَیٹ روموں اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کے ذریعہ متحد ہوتے ہیں۔پلئی کے مطابق اس کا جواب ایسی طاقت ور تحریک ہے جس کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔

پلئی یونیورسٹی آف کیرل میں کام کرتی ہیں جہاں وہ انسٹی ٹیوٹ آف انگلش میں پروفیسر ہیں۔علاوہ ازیں وہ مرکز برائے ثقافتی مطالعات اور اسکول آف انگلش اور غیر ملکی زبانوں کی بھی سربراہ ہیں۔ان کی تحقیق اور تدریس اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل ترسیل کے میدان میں ترقی کارکنوں کو مقامی، علاقائی حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر حقوق نسواں کے لیے کام کرنے کی غرض سے با اختیار بناتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں ”یہ ایک نئی قسم کی تانیثیت کا آغاز ہے جہاں ڈیجیٹل دنیا نے عام خواتین کے لیے بھی اپنی کہانی بیان کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اس سے وسیع پیمانے پر آوازیں یکجا ہو ں گی۔ مستقبل کی ڈیجیٹل طاقت سے لیس تانیثی تحریکات بغیر کسی قائد کے وجود پذیر ہوں گی مگر ان کے اندر ایسے اداروں اور ڈھانچوں کو چیلنج کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہوگی جو خواتین کی مخالفت کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری تحقیق اسی شاندار تاریخی موڑ کو گرفت میں لے گی جہاں پوری دنیا میں خواتین میں مزاحمت کے نئے امکانات کے تئیں بیداری پیدا ہو رہی ہے۔“

پلئی گذشتہ تین عشروں سے لسانیات، ترسیل اور صنف کی درس وتدریس میں مصروف ہیں۔ انہیں پہلی مرتبہ فل برائٹ۔نہرو فیلو شپ کے متعلق دو عشرہ پیشتر اپنے تحقیقی نگراں سے معلوم ہوا تھا۔انہیں اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ۱۹۹۰ء کے وسط میں پہلی فیلو شپ ملی۔ انہوں نے اپنی دوسری فیلو شپ۲۰۲۰ ء میں مکمل کی جس میں وہ فل برائٹ۔نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسی لینس ایوارڈ اسکالر قرار پائیں۔

دوسری فیلو شپ کے تحت پلئی کا تقرر لاس اینجلس میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا(یو سی ایل اے) میں وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر ہوا۔یہاں انہوں نے”نیو جیوگرافیز آف ویمنس ڈیجیٹل ڈیسنٹ“ کے عنوان سے ایک کورس پڑھایاجس میں ان کی دلچسپی کے موضوعات مثلاً مختلف النوع تدریسی مضامین کاامتزاج، فلموں اور عوامی میڈیا میں دکھائے جانے والے حقوق نسواں کا تجزیہ اورروز مرہ کی زندگی میں ثقافت و صنف کا آپسی رشتہ وغیرہ شامل تھے۔پلئی کے لیے یہ نہایت شانددار تجربہ رہا۔ جن طلبہ کو انہوں پڑھایا وہ بھی مضامین کی طرح ہی نہایت اہم اور دلچسپ تھے۔

پلئی اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتاتی ہیں ”طلبہ کے چنندہ گروپ (جس میں افریقی۔امریکی بھی شامل تھے)کو پڑھانا میرے لیے اب تک کا سب سے خوبصورت تجربہ رہا۔ دوران تدریس تانیثی تحریک اور اختلافات کا زیر بحث آنے والے ہر پہلو (خواہ اس کا تعلق بھارت سے ہو، ٹیونیشیا سے ہو یا امریکہ کی می ٹو تحریک سے ہو)میں ہمیشہ اختلاف رائے موجود رہی۔ ان آوازوں کے تنوع کو وہ تکثیریت اور مؤثر سے تعبیر کرتی ہیں حالانکہ بعض اوقات ثقافتی اختلافات کو عبور کرنا کافی مشکل ہوجاتا تھا۔جب میں نے اپنے طلبہ کو ماہواری سے متعلق بھارت میں رائج توہمات کے بارے میں بتایا تو انہیں جھٹکا لگا۔جب انہوں نے سنا کہ امریکی میں خواتین کو ظلم اورجنسی جبر کا شکار ہونا پڑتا ہے اور اس سے نمٹنے میں انہیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں کافی حیرانی ہوئی۔لہٰذا ہم نے ساتھ میں بعض چیزوں سے پہلو تہی کی اور بعض چیزوں کو سیکھا۔“

پلئی نے امریکہ میں جو رشتے قائم کیے وہ بہت مضبوط تھے۔گو کہ یوسی ایل اے میں ان کا کام مکمل ہو گیا ہے مگر آج بھی ان کے اپنے امریکی طلبہ اور ہمکار اساتذہ سے تعلقات قائم ہیں اور وہ ان کو زمان و مکان سے پرے زندگی بھر کے رشتوں کا درجہ دیتی ہیں۔ فی الحال وہ’نئی تانیثیت‘ کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دے رہی ہیں جس کی تشکیل کی ترغیب کا سہرا وہ امریکہ میں دیے گئے اپنے خطابات اور مکالمات کے سر ہی باندھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ”امریکہ کے دوران قیام میں نے جن چیزوں کا مشاہدہ کیا، جو پڑھایا، جو سیکھا اور جن چیزوں سے مجھے محبت ہوئی ان چیزوں کے اثرات میں آج بھی اپنے اندر لیے پھرتی ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ میں نے متعدد تدریسی اور محبت بھرے جو رشتے قائم کیے ان میں میں نے بھی اپنے اثرات چھوڑے۔“

جو لوگ پلئی کے فل برائٹ۔نہرو فیلوشپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں ان کے لیے پلئی کاآسان مشورہ ہے: ”اس کی کوشش کریں! یہ آپ کے اندر تبدیلی پیدا کر دے گا، آپ کی دنیا بدل جائے گی۔ یہ آپ کے افق کی حدوں کو مزید وسعت دے گااور آپ کونئے پنکھ عطا کرے گا۔یہ نئی دنیا، نئے امکانات اور نئے لوگوں کے لیے کھڑکی کی مانند ہے۔آج کی نیٹ ورک والی دنیا میں یہ تحقیق،اشتراک اور انسانی تعامل کی نت نئی راہیں کھولے گا۔“

پلئی اپنی فیلوشپ کو شخصیت بدل ڈالنے والا تجربہ قرار دیتی ہیں۔وہ کہتی ہیں ”اس نے دنیا کے تئیں میرا نظریہ ہی بدل دیا۔یہی نہیں،یہ اپنے بارے میں میرے تصورات، میری ترجیحات اور میرے علمی کاموں پر بھی اثرا نداز ہوا۔ اس نے امریکہ اور امریکی باشندوں کی میری تفہیم کو بدل ڈالا۔ اس کی وجہ سے مجھے پائیدار تعلقات بنانے میں بھی مدد ملی۔“

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیویارک سٹی میں مقیم ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے