آٹو چلاتے امریکی سفارت کار

تین امریکی سفارت کار دہلی میں سفر کے لیے اپنے ذاتی آٹو رکشہ کا استعمال کرتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کون ہیں یہ سفارت کار اور یہ کیوں تھری وہیلر چلاتے ہیں۔

کریتیکا شرما

September 2022

آٹو چلاتے امریکی سفارت کار

 دائیں سے: رُتھ ہومبرگ، شارین کِٹَرمَین اور ڈاربی مَیسن اپنی والدہ اَین مَیسن کے ہمراہ اپنے اپنے  آٹو رکشہ کے ساتھ۔

آپ قطعاً حیران نہ  ہوں اگر اگلی بار آپ کو دہلی کی سڑکوں پر ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ والے آٹورکشہ  نظر آئیں۔ ممکن ہے ڈرائیور کی سیٹ پر کوئی خاتون امریکی سفارت کار اپنے پسندیدہ تھری وہیلر میں فراٹا بھر رہی ہو۔

اَین مَیسن، شرین جے۔کِٹَر مَین اور رُتھ ہومبرگ  نے آٹو رکشہ خریدا ہے تاکہ وہ راجدھانی دہلی کی سڑکوں  پر ’ٹُک ٹُک‘ سواری کا  اپنی مرضی سے لطف اٹھا سکیں۔ انہوں نے عام آدمی کی سواری کو اپنی ذاتی گاڑی میں تبدیل کر دیا ہے۔

مَیسن نے آٹو رکشہ کو ذاتی بنانے پر خاص توجہ دی۔ انہوں نے اس کا نام ’کِٹ‘ رکھا ہے جو ۱۹۸۰ء کے ٹی وی شو ’’ نائٹ رائڈر‘‘ کو خراج پیش کرنے کا ان کا طریقہ ہے۔ وہ اسے پچھلے دو سال سے چلا رہی ہیں ۔ وہ گاہ گاہ اپنی ’کِٹ‘ میں کچھ نہ کچھ اضافی چیزیں لگاتی رہتی ہیں جو اب ان کی شخصیت کی توسیع کا ذریعہ بن گیا ہے۔ مَیسن صاف گوئی سے  بتاتی ہیں ’’ کِٹ دیکھنے کے لائق چیز ہے ۔ میں نے اس میں اپنے مہمانوں کے واسطے ایک چھوٹا سا ٹشو کا ڈبہ بھی رکھا ہے ۔ساتھ میں ایک چھوٹا سا فون ہولڈر بھی ہے تاکہ مجھے معلوم رہے کہ میں کہاں ہوں  کیوں کہ میں اکثر راستہ بھول جاتی ہوں۔ ‘‘

ان کے آٹو کا رنگ بالکل سیاہ ہے جس میں مسافر سیٹ کے دونوں جانب دروازے ہیں۔ مسافر کی حفاظت کے لیے دونوں طرف چیتا پرنٹ والے پردے ٹنگے ہوئے ہیں۔ خود اپنی سہولت کے لیے مَیسن نے اسٹیئرنگ کے پاس ایک چھوٹا سا پنکھا لگا رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ سر کے اوپر ایک ’بلو ٹوتھ اسپیکر‘ بھی موجود ہے تاکہ آٹو چلاتے ہوئے  وہ اپنی پسندیدہ موسیقی کا لطف اٹھا سکیں۔

کِٹَر مَین   کی بات کریں تو ان کا آٹو رکشہ کمال کا ہے۔ اس کا رنگ گلابی ہے جس پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے ہیں۔ گرچہ گلابی رنگ ان کی پہلی پسند نہیں تھا مگر اس آٹو میں کچھ خاص بات تھی جس نے  انہیں اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ خود بتاتی ہیں کہ ان کی نگاہِ انتخاب اس آٹو پر کیوں پڑی’’ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گلابی رنگ مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے ۔ اور مجھے اپنی مرضی کا گلابی شیڈ کرانے کے لیے پورے تین ماہ انتظار کرنا پڑا۔ ‘‘

وہ ۶ مہینے سے  زائد سے دہلی میں آٹو چلا رہی ہیں۔ جب سڑک پر ان کا آٹو رواں دواں ہوتا ہے تو اس کے رنگ کی وجہ سے سب کی نظریں اس پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ کِٹَر مَین    نے آٹو کے دونوں جانب رنگ برنگی جھالریں بھی لٹکا رکھی ہیں۔ آٹو میں  سامنے کے شیشے کے دائیں اور بائیں جانب بھارت اور امریکہ کے جھنڈے لگے ہوئے ہیں جو ایک سچے سفارت کار کی پہچان ہیں۔ وہ  اپنے آٹو کے بارے میں بتاتی ہیں ’’ یہ ایک چھوٹی مگر بہت پھرتیلی اور پُر اثر گاڑی ہے ۔ حالاں کہ میں ایک سفارت کار ہوں مگر اس کے باوجود میں ایک عام آدمی کی زندگی کا تجربہ کرنا چاہتی تھی۔ اور بطور عورت اس کی سواری مجھے آزادی کا احساس کراتی ہے۔‘‘

سفارت کار ہومبرگ نے کالے اور پیلے رنگ کے روایتی آٹو کو ترجیح دی۔اس میں نمود جیسی کوئی چیز نہیں ہے ، نہ ہی کوئی شوخ رنگ ہے اور نہ کوئی زائد چیز۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ آٹو ان کے لیے بہت کام کی چیز ہے جسے وہ گذشتہ ایک برس سے زائد سے  دہلی کی سڑکوں پر دوڑا رہی ہیں۔وہ باخبر کرتی ہیں ’’ میں نے دفتر آنے جانے کے لیے اسے اس لیے چنا کیوں کہ اسے بھیڑ بھاڑ والی سڑکوں پر آڑا ترچھا چلانے میں بڑا مزہ آتا ہے ، اس پر خرچ بہت کم ہوتا ہے اور بھیڑ والی سڑکوں  پر سفر کرنے میں اس سے کافی آسانی ہوتی ہے۔ ‘‘

اوپر سے گھڑی کی سوئی کی رفتار کی سمت میں: رُتھ ہومبرگ، شارین کِٹَرمَین اور اَین میسن اپنے اپنے آٹو میں۔

آٹو چلانے میں ملنے والے لطف نے ان امریکی سفارت کاروں کو اس  کی جانب راغب کیا۔ اس کی بدولت سڑک پرسفر کرتے ہوئے مقامی لوگوں سے ایک عام انسان کی طرح گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے وہ کار میں سفر کرنے کی صورت میں محروم رہ جاتی ہیں۔ کِٹَر مَین    ہنستے ہوئے بتاتی ہیں ’’ گلابی رنگ سے لوگ کافی متوجہ ہوتے ہیں ۔ ایک بار ایک ایسے فوجی جنرل نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے مجھ سے ہاتھ ملایا جس کے شانوں پر تین ستارے جڑے ہوئے تھے۔ ایک بار پرانی چاندی کے رنگ والی امبیسڈر کار میں سوار  ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ میں اپنا راستہ بدل کر خاص طور پر یہ دیکھنے آیا ہوں کہ اتنے شاندار آٹو کو کون چلا رہا ہے۔‘‘

جب کہ مَیسن بتاتی ہیں ’’ ہاتھوں کا ہلانا، تعریف اور سوالات کی بوچھار یہ سب روز مرہ کی زندگی  کا حصہ ہیں۔اکثر لوگ بار بار مڑکر مجھے حیرت سے دیکھتے ہیں اوراس کی سواری کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں ہمیشہ انکار کردیتی ہوں۔ تو ان کو تھوڑی حیرت ہوتی ہے لیکن جب وہ سمجھ جاتے ہیں تو ہنسنے لگتے ہیں۔ اور مجھے ایسا لگتا ہے گویا میں نے کوئی مذاق کیا ہو۔‘‘

ہومبرگ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے جب متجسس لوگوں نے انہیں روکا اور ان سے   کئی سوال کیے ۔ وہ بتاتی ہیں ’’ مجھے ٹریفک سگنل پر سامان بیچنے والوں اور گاڑیوں پر سوار لوگوں نے روکا۔ یہ تو عام سی بات ہے کہ ٹریفک سگنل پر لوگ اپنی اپنی گاڑیوں سے اترکر آتے ہیں اور مجھ سے سوالات کرتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کی آخرمیں آٹو کیوں چلارہی ہوں؟ کیا مجھے آٹوچلانا پسند ہے؟کیا یہ ایک مشکل کام ہے؟ عام طور پر لوگ مجھےآٹو چلانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دہلی کی سڑکوں پر یہ ایک نہایت ہی شاندار ذاتی تجربہ ہے۔‘‘

کیا دہلی کی سڑکوں پر آٹو چلانا دشوار گزار ہے؟مَیسن کو شاید یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ہارن بجانا اس دشواری کا واحد علاج ہے۔ وہ تصریح کرتی ہیں ’’ ٹریفک کی اپنی ایک رفتار ہوتی ہے۔ ہارن ایک طرح کی خاص زبان ہے جس سے لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہیں جس سے آپ ٹریفک کی رفتار کےساتھ خود کو ڈھال سکتے ہیں۔‘‘

جب کہ ہومبرگ کو تو اب ہارن بجانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ یہ میرا طریقہ ہے۔ میں بہت زیادہ ہارن بجاتی ہوں۔ یہاں ہرشخص گاڑی چلاتے  ہوئے بہت زیادہ ہارن کا استعمال کرتا ہے ۔  بعض اوقات ہارن بجانے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کہاں ہیں۔ لیکن میری گاڑی چھوٹی ہے تومیں  بڑی مشکل میں پھنس جاتی ہوں۔ ساتھ میں چلنے والے لوگ مجھے بار بار ہارن دیتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ میری توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں تاکہ میں ان  کے لیے ہاتھ ہلاؤں ، مسکراؤں اور انہیں ہیلو کہوں۔ لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ میں نے ہارن کا بہت اچھا استعمال کیا ہے۔ یہ امریکہ سے بالکل مختلف تجربہ ہے جہاں ہم کبھی ہارن بجانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ ‘‘

چھوٹی گاڑی کو بڑی گاڑیوں کے درمیان  سے نکالنا بعض اوقات کافی عصاب شکن ہوتا ہے۔ مگر کِٹَر مَین    لوگوں کو حوصلہ رکھنے کی ترغیب دیتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں ’’ میرا مشورہ ہے کہ سڑک پر گاڑیوں کی بھیڑ سے گھبرائیں نہیں ۔ میں تو بڑے ٹرکوں کے بیچ سے ہوتی ہوئی سیدھے کاروں کی قطار کے آگے جا کھڑی ہوتی ہوں۔  اور یہ واقعی سود مند ہے۔‘‘   کِٹَر مَین ایک لائسنس یافتہ پائلٹ ہیں اور چھوٹا جہاز اڑا سکتی ہیں۔

لیکن بھارت میں ان سفارت کاروں نے ایک عام آدمی کی طرح سفرکو محض تفریح کے لیے ہی ترجیح نہیں دی بلکہ وہ ایک مثال بھی قائم کرنا چاہتی ہیں۔مَیسن آگاہ کرتی ہیں ’’ میری زندگی کا ایک اہم مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ میری دو بیٹیاں ہیں ۔ ایک میرے ساتھ دہلی میں رہتی ہے اور وہ بھی یہ آٹو چلاتی ہے۔یہ میرے لیے کبھی کوئی سوال تھا ہی نہیں۔ مجھے بیٹی پر ناز ہوتا ہے جب وہ اسے چلاتی ہے اور اپنی عمر کی عورتوں کو دکھاتی ہے۔ شاید وہ ان سے کہنا چاہتی ہے کہ اگر میں آٹو چلا سکتی ہوں تو تم کیوں نہیں چلا سکتیں؟‘‘



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے