بیماریوں سے بچنے کی پڑھائی

وبائی امراض کے علم (وبائیات) سے متعلق ڈگری پروگرام سے طلبہ کوصحت عامہ سے لے کے مصنوعی ذہانت تک کے شعبے میں اہم تحقیقی کام انجام دینے والے کریئر کے انتخاب میں مدد ملتی ہے۔

برٹن بولاگ

July 2020

بیماریوں سے بچنے کی پڑھائی

ٹولین یونیورسٹی وبائیات کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اس کا موقع دیتی ہے کہ وہ کلاس میں اور کلاس سے باہر اساتذہ کے ساتھ بخوبی تفاعل کریں۔ تصویر بشکریہ ٹولین یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ اینڈ ٹروپیکل میڈیسین۔

ایسے میں جب کہ دنیا بھرکے سائنسداں کورونا وائرس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں مصروف ہیں، ان کے ذریعہ کیے گئے کام نے وبائی امراض کے علم کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے ۔وبائیات طبی سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے تحت عوام میں کسی بیماری کے معاملات ، پھیلاؤ اور اس پر قابو پانے کے طریقوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

وبائیات کی جدید سائنس کی ابتدا ۱۹ویں صدی کے وسط میں اس وقت ہوئی تھی جب ڈاکٹروں کی جماعت یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ مہلک امراض کس طرح پھیلتے ہیں۔مشاہدات اور کافی سخت محنت کے بعد حاصل اعداد و شمارکے ذریعہ سائنسداں آخر یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ ہیضہ جیسے متعدی امراض کس طرح آلودہ پانی کے ذرائع سے اور دیگر بیماریاں ڈاکٹروں کے آلودہ ہاتھوں سے پھیلتی ہیں ۔ حال ہی میں وبائی امراض کے ماہرین نے ماحولیاتی عوامل اور مہلک قسم کی غیر متعدی بیماریوں کے درمیان رابطے کا انکشاف کیا ہے ۔ سائنسدانوں کی اس کامیابی نے صحت عامہ کے لیے کام کرنے والوں کو انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والے عوامل کو ختم کرنے یا اس پر قابو پانے کا موقع دیا ہے۔

کورونا جیسی وباسے نبرد آزما دنیا کے لیے تووبائیات کے مطالعے پر توجہ دینا اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔امریکہ میں بہت ساری یونیورسٹیوں میں گریجویٹ سطح پروبائیات مطالعہ پروگرام دستیاب ہیں۔مثا ل کے طور پر مساچیوسٹس کی ہارورڈ یونیورسٹی اور لوسیانا کی ٹولین یونیورسٹی میں ایک یا دو برس والے کئی ماسٹر پروگرام ہیں۔ان میں سے بعض کُل وقتی اور دیگر کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے لیے جز وقتی پروگرام ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے وبائی امراض کے شعبہ میں قریب دو سو طلبہ ہیں جن میں چالیس کا تعلق امریکہ سے نہیں ہے۔ جب کہ ٹولین یونیورسٹی کا وبائیات کا شعبہ قریب ایک سو طلبہ کا اندراج کرتا ہے جن میں ایک چوتھائی کا تعلق بیرون ملک سے ہوتا ہے۔

ہارورڈ ٹی ایچ چَین اسکول آف پبلک ہیلتھ ( جہاں وبائی امراض کا شعبہ بھی واقع ہے)کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر آف گریجویٹ اسٹڈیز ایرِک ڈی جیو وانی کہتے ہیں’’تحقیق اور کریئر کے پیش نظر طلبہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہم نے وقت کے ساتھ اپنے پروگرام میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اور سب سے بڑی چیز جس پر ہمارے ادارے نے حالیہ دنوں میں توجہ دی ہے وہ مخصوص بیماریاں نہیں بلکہ کسی علاقے میں رہنے والے لوگ، ان کا کھانا پینا، ماحولیاتی عوامل اور تولیدی مسائل ہیں ۔ہم اپنے طلبہ کو کسی مخصوص شعبے میں مہارت حاصل کرنے اور وسیع تعلیم کی تربیت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

جیووانی مزید کہتے ہیں’’بھارت ان چار سر فہرست ملکوں میں شامل ہے جہاں سے بڑی تعداد میں طلبہ ہمارے شعبے میں داخلہ لیتے ہیں۔ ہمارا عملہ ہمارے پروگراموں میں دلچسپی رکھنے والوں اور موجودہ یا سابق طلبہ کے درمیان رابطہ قائم کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔‘‘

دونوں ہی اداروں میں امریکی اور بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے داخلے کی شرطیں قریب قریب یکساں ہیں۔ یعنی داخلے کے لیے انڈر گریجویٹ سطح پر اچھا گریڈ ، گریجویٹ ریکارڈ ایکزامنیشن (جی آر ای )میں اچھے نمبر ، درخواست دہندہ کی جانب سے صحت عامہ میں کریئر بنانے کے مقاصد اور دلچسپیوں کی تفصیلات پر مبنی ایک ذاتی مکتوب اور سا بق اساتذہ اور ملازمت دینے والوں کے سفارشی خطوط درکار ہوتے ہیں۔ان سب کے علاوہ بین الاقوامی طلبہ کو انگریزی زبان پر دسترس کے ثبوت کے لیے ٹویفل (ٹی او ای ایف ایل) یا آئی ای ایل ٹی ایس امتحان میں کامیابی کی سند بھی پیش کرنی ہوتی ہے۔

ٹولین یونیورسٹی اپنے ماسٹر پروگرام کے طلبہ کو صحت عامہ کی ایجنسیوں میں صحت کی دیکھ ریکھ کی سہولت فراہم کرنے والوں یا کمیونٹی ہیلتھ سے متعلق اداروں میں تعاون یا انٹرن شپ کا انتظام کرکے عملی تجربہ بھی فراہم کرتی ہے۔ٹولین یونیورسٹی میں ماسٹر آف پبلک ہیلتھ پروگرام اِن ایپی ڈیمیولوجیکی ڈائرکٹر سوزن ہاسِگ کہتی ہیں’’یہ سہولت ٹولین یونیورسٹی کے مطالعاتی پروگرام کو منفرد بناتی ہے کیوں کہ آپ کو صحت عامہ کے شعبے میں ایسی آبادی میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے جہاں صحت کے مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘

ٹولین یونیورسٹی کے طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ کلاس روم کے اندر اور باہر کھل کر باتیں کرتے ہیں۔وہ کہتی ہیں’’ہم لوگوں کا شعبہ تھوڑا چھوٹا ہے، لہٰذا ہمیں وسیع پیمانے پر مشورہ اور تربیت دینے کا موقع ملتا ہے تاکہ طلبہ کورس سے خاطر خواہ استفادہ کرسکیں اور تمام متبادل پر غور و خوض بھی کر سکیں۔‘‘

دونوں ادارے بتاتے ہیں کہ ان کے قریب قریب تمام طلبہ کو گریجویشن کے چند مہینوں کے اندر ہی ملازمت مل جاتی ہے۔صحت عامہ کی ایجنسیوں، غیرسرکاری تنظیموں اور دوا ساز کمپنیوں اور اس طرح کے دیگر اداروں کے وبائی امراض سے متعلق شعبوں میں کریئر بنانے کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔ اب تو تکنیکی کمپنیوں میں بھی اس شعبے سے متعلق نئے مواقع سامنے آ رہے ہیں۔مثال کے طور پر آپ صحت عامہ کے ایپ او ر مصنوعی ذہانت سے متعلق پروگرام میں رجحانات کے تجزیے میں مدد وغیرہ جیسی ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔

ڈی جیو وانی کہتے ہیں ’’ہمارے ایم اے کے طلبہ کی تعداد کا ایک چوتھائی پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لیتا ہے ۔بہت سارے طلبہ سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں میں بھی ملازمت حاصل کرتے ہیں۔میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سارے طلبہ بایو اسٹیٹسٹِکس اور کمپیوٹیشنل کورس کاانتخاب کرتے ہیں ۔لہٰذاہم لوگوں نے اپنے یہاں اعداد و شمار کی تفصیلات سے متعلق سرگرمیوں پر خوب کام کیاہے۔‘‘

ہاسِگ بتاتی ہیں کہ ماضی میں ہمارے طلبہ گریجویشن کے بعد اکثر سرکاری اداروں میں جایا کرتے تھے۔ حالیہ دنوں میں نئی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر نئے امکانات د یکھنے کو ملے ہیں۔وہ کہتی ہیں ’’وبائی امراض کا علم ان تمام باتوں میں نہایت کار آمد ثابت ہو سکتاہے جو سوالوں کے پوچھے جانے اور ان کا ایسا حل تلاش کیے جانے پر مبنی ہے جن سے ان کے جوابات مل سکیں ۔‘‘

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے