گورستان میں ماضی کی دریافت

یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن کے سرمایہ کی بدولت آثارِ قدیمہ کی ایما پر کی جانے والی کھدائی حیدر آباد میں واقع قطب شاہی ہیریٹیج پارک کی نئے سرے سے تفہیم میں مدد کرتی ہے۔

اسٹیو فاکس

May 2017

گورستان میں ماضی کی دریافت

گرچہ قطب شاہی ہیریٹیج پارک ۴۳ ہیکٹر رقبے میں پھیلا ہوا ہے، اے ایف سی پی پروجیکٹ کے تحت بحالی کا منصوبہ اس کے مرکزی حصّے تک محدود تھا جو قریب قریب ۱۶ ہیکٹر پر محیط ہے اور جسے سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔

حیدرآباد کے مشہور زمانہ گولکنڈہ قلعہ کے ٹھیک نیچے قطب شاہی ہیری ٹیج پارک واقع ہے جو دنیا کے انتہائی نما یاں اور قرونِ وسطیٰ کے تاریخی قبرستانوں میں سے ایک ہے ۔۴۳ ہیکٹر رقبہ پر پھیلے اس قبرستان میں ۷۰ سے زیادہ مقبرے، مسجدیں ، کنویں، جنازے کی تجہیز و تکفین کی جگہوں کے علاوہ پویلین ، باغات اور دیگر عمارتیں ہیں۔ یہ گورستان حیدرآباد میں سولہویں ۔ سترہویں صدی میں حیدرآبادکے قطب شا ہی خاندان کے کم و بیش ۱۷۰ سال کے دورِ اقتدارمیں تعمیر کیا گیا تھا ۔اب یہ گورستان تحفظ اور زمین کی تزئین کی بحالی سے متعلق ایک بڑے منصوبہ سے فیضیاب ہونے جار ہا ہے۔ اس منصوبہ کا مقصد اس جگہ کو طویل مدت کے لیے محفوظ کرنا اور رسائی کے قابل بنانا ہے جو عالمی ورثہ سمجھے جانے والے مقامات کی فہرست میں عارضی طور پر ہی سہی مگر درج ہے۔

امکان ہے کہ ہیری ٹیج پارک کی بحالی کا یہ منصوبہ ۲۰۲۳ ءمیں مکمل ہو جائے گا۔ حکومت ِ تلنگانہ کے آثارِ قدیمہ اور عجائب گھر کے محکمہ کے ساتھ مل کر آغا خان ٹرسٹ فار کلچر (اے کے ٹی سی ) اس منصوبہ کے نفاذ کی نگرانی کر رہاہے ۔ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر، آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی ایجنسی ہے جو پوری دنیا کے ۳۰ ملکوں میں خاص کر ایشیا اور افریقہ میں سرگرم عمل ہے ۔

اس منصوبے کا ایک کلیدی حصہ امریکی محکمہ خارجہ کے امریکی سفیر فنڈ برائے ثقافتی تحفظ(اے ایف سی پی) کی جانب سے ملے ایک لاکھ ایک ہزار ڈالر (قریب ۶۷ لاکھ روپے )کی بدولت ممکن ہو سکا۔ اے ایف سی پی ثقافتی اہمیت کے مقامات ، اشیا ءاور روایتی ثقافتی اظہار والے اقسام کے تحفظ میں عالم گیر پیمانے پر ۱۰۰ سے زیادہ ملکوں میں مدد کرتا ہے۔

آغا خان ٹرسٹ فار کلچرکو ۲۰۱۴ ءمیں اے ایف سی پی کی جانب سے عطیہ ملا اور اس نے منصوبہ کے نفاذ کا عملی اقدام شروع کیا ۔ اس پروجیکٹ کا باقاعدہ اختتام دسمبر ۲۰۱۵ ءمیں ہوا ۔ اس کے بعد اس احاطہ سے کھدائی کے دوران ملی چیزوں کی نمائش جولائی ۲۰۱۶ ءمیں منعقد کی گئی۔

گرچہ قطب شاہی ہیریٹیج پارک ۴۳ ہیکٹر میں پھیلا ہوا ہے مگر یہاں جو کھدائی کی گئی اسے اس کے سب سے زیادہ اہم خیال کیے جانے والے مرکزی حصے تک محدود رکھا گیا جو ۱۶ ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔ جدید سائنسی تحقیق ، آثاریاتی کھدائی اور مناسب تحفظاتی اقدام کی بدولت اے ایف سی پی کے عطیہ نے۱۶ ویں صدی کے رہائشی احاطہ اور حصار بند باغ میں واقع مقبرہ کی طرح ہی قطب شاہی ٹامب کمپلیکس میں ملے ڈھانچوں کے تنوع کو سمجھنے ، ان کی پیمائش کرنے اور ان کی دستاویزات تیار کرنے میں مدد کی۔ ان کھدائیوں کے دوران پانی کے بہاؤ اور استعمال کی وسیع صورتیں سامنے آئیں جن میں پختہ مٹی کے پائپ سے کام لیے جانے کا بھی پتہ چلا۔

آغا خان ٹرسٹ فار کلچرکے چیف ایکزیکٹواور ماہرِ تحفظِ آثارِ قدیمہ اور ماہر تعمیرات رتیش نندا نے بتایا ”ثقافتی تحفظ کے لیے اے ایف سی پی سے جوعطیہ ہمیں ملا ا س سے ہمیں اس احاطہ کو سمجھنے میں مدد ملی ۔ ہمیں یہ پتہ چلا کہ ابتدائی طور پر یہ علاقہ رہائشی تھا جسے بعد میں قبرستان میں تبدیل کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ باغ کے احاطہ کی دیواریں بھی دریافت کی گئیں جس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ مغلوں کی طرح ہی قطب شاہی حکومت میں ایسے مقبرے بنوائے جاتے تھے جو باغوں سے گھرے ہوئے ہوں۔‘‘

نندا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا ”اس کے علاوہ باغ کے احاطہ کی دیواریں بھی دریافت کی گئیں جس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ مغلوں کی طرح ہی قطب شاہی حکومت میں ایسے مقبرے بنوائے جاتے تھے جو باغوں سے گھرے ہوئے ہوں۔ اہم بات یہ ہے کہ باغ کے حصارکے بچے کھچے حصے سامنے آ نے سے اب یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ پہلے بادشاہ سلطان قلی قطب شاہ اور ابراہیم قلی قطب شاہ کے مقبرے حصار بند باغ کے اندر تھے ۔ اس طرح اس عام خیال کی نفی ہو گئی کہ شمال میں مغلوں کے برعکس قطب شاہی عہد میں مقبرے دیکھنے کے لیے حصار بند باغ نہیں بنائے جاتے تھے ۔ زمین کی تزئین کی بحالی میں ان معلومات سے مدد لی جارہی ہے۔‘‘

نندا بتاتے ہیں کہ اے ایف سی پی سے ملے عطیہ سے ہی وا گزار ہوئی باقیات کا تحفظ ممکن ہو سکا ۔ اس سے یہ بات بھی یقینی ہوگئی کہ یہ نمایاں نئی دریافتیں اوپر سے ڈھکی نہیں جائیں گی جیسا کہ عام طور پر کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ یہاں آنے والوں کو حسب سابق نظر آتی رہیں گی۔

اس کے علاوہ حکومت ہند کی وزارت ثقافت میں شامل محکمہ آثارِ قدیمہ کے سابق علاقائی ڈائرکٹر(شمال)کے کے محمد کی قیا دت میں آثارِ قدیمہ کے طلبہ کو نمایاں طور پر سرِ میدان عملی تجربہ کرنے کا موقع بھی اے ایف سی پی سے آثار قدیمہ کی کھدائی پروگرام کے ذریعہ ہی ملا ۔ کے کے محمد ہی اس وقت آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کے موجودہ پروجیکٹ آرکیا لوجیکل ڈائرکٹر بھی ہیں۔

کے کے محمد بتاتے ہیں ” یہاں تاریخ پرت در پرت مدفون ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں بے شمار جنگیں ہوئیں ، تاریخ بنی اور مٹی۔ اس لیے ہمیں تلاش ہے کہ تاریخ کا وہ کون سا حصہ ہے جو یہاں دفن ہے ، اس سے کیسے پردہ اٹھایا جائے اور اسے کیسے دنیا کے سامنے لایا جائے ۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگارہیں ۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے