گُلوں میں رنگ بھرے

ہیلپ اَس گرین ایک ایسی نووارد کمپنی ہے جوتھرموکول کے ماحول مخالف متبادل سمیت پھر سے استعمال کے لائق بنائے گئے پھولوں اور زرعی فضلے سے تیار بہت ساری مصنوعات فراہم کرتی ہے ۔

رنجیتا بسواس

May 2019

گُلوں میں رنگ بھرے

تصویر بشکریہ ہیلپ اس گرین

چھوٹی بڑی ہزاروں عباد ت گاہیں بھارت کے طول و عرض میں موجود ہیں ۔ ان عبادت گاہوں میں لوگ ہر روز ہزاروں ٹن مٹھائی اور پھول چڑھاوے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جن مقامات پر پھولوں اور مٹھائیوں کو چڑھاوے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہاں سے بعد میں انہیں پھینک دیا جاتا ہے ۔ ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور میں واقع ایک اسٹارٹ اَپ ہیلپ اَس گرین نے ان چڑھاؤں کو ماحول دوست مصنوعات میں تبدیل کرنے کے ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے ۔

ان متروک اشیاء سے کوئلہ سے پاک اگربتیاں ، لوبان کے مخروطے، نامیاتی کینچواں کھاد اور پیکیجنگ کے لیے تحلیل ہوسکنے والی چیزیں تیار کی جاتی ہیں جن کا استعمال زہریلے تھرموکول کے متبادل کے طور پر کیا جا سکتا ہے ۔ کمپنی کے مارکیٹنگ منیجر اپورو مِسل کہتے ہیں ’’ کمپنی نے اب تک ۲۷۵ کیلو گرام سے بھی زیادہ حشرات کش تلچھٹ کا سد باب کیا ہے ۔‘‘

کمپنی کے قیام کا خیال ۲۰۱۵ ء میں اس وقت آیا جب دو دوست انکِت اگروال اور کرن رستوگی کانپور میں سردیوں کی ایک صبح کو دریائے گنگا کے کنارے ٹہل رہے تھے ۔ جب انہوں نے عقیدت مندوں کو دریا میں غسل کرتے اور اس کا آلودہ پانی پیتے ہوئے دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ انہیں ایک مشن مل گیا ہے ۔

تحقیق کے ذریعے ان دونوں نے جانا کہ دریائے گنگا کی آلودگی کی اہم وجوہات میں سے ایک عبادت گاہوں میں پیش کیے جانے والے پھولوں کا دریا بُرد کیا جانا بھی ہے ۔ مِسل کہتے ہیں ’’ اتر پردیش میں ہر روز جراثیم کش اور حشرات کش کیمیاوی مادّوں کا استعمال کرکے پیدا کیے گئے ہزاروں کیلو پھولوں کو دریائے گنگا میں پھینک دیا جا تا ہے ۔ اس معلومات کے سامنے آنے کے بعد دریا کو تحفظ فراہم کرنے کے خیال سے شروع کیا جانے والا یہ قدم اب ہیلپ اَس گرین میں تبدیل ہو چکا ہے ۔‘‘

صرف ۷۲ ہزار روپے کی معمولی ابتدائی سرمایہ کاری سے آغاز پانے والی یہ پہل اب پھولوں کے چڑھاوے کو دست کاری کے ذریعے ماحول دوست متبادل میں تبدیل کرنے کے لیے چیزوں کو پھر سے استعمال کے لائق بنانے والی ایک منفردٹیکنالوجی کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔

کمپنی ہر روز ۸ اعشاریہ ۴ ٹن پھولوں کا چڑھاوا یکجا کرتی ہے ۔ اسے اگر بتیوں ، لوبان کے مخروطوں اور زراعت میں استعمال کی جاسکنے والی کینچوا کھاد میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔ اگربتیوں کو پہلے دوسرے نام سے بیچا جاتا تھا مگر ۲۰۱۸ ء سے انہیں پھول کہا جانے لگا ۔ مِسل کہتے ہیں ’’ تین مہینے میں ہی ہم اس قابل ہو گئے کہ ہر منٹ اگر بتی کا ایک پیکٹ فروخت کرنے لگے ۔ اس طور پر ہم ہر پیکٹ کی فروخت کے ساتھ دریائے گنگا میں پھینکے جانے والے پھولوں سے سوا کیلو گرام پھول پھینکے جانے سے بچانے لگے ۔‘‘

وہ باخبر کرتے ہیں کہ معمولی قسم کی اگر بتیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں بینزین ، ٹو لیوئن اور زائی لین جیسے فضائی آلودگی کا سبب بننے والے مرکبّات کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ان کے علاوہ عام قسم کی اگربتیوں میں سلفر ڈائی آکساءڈ بھی بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے ۔ جب کہ پھول بَرینڈ نیم سے بکنے والی ہماری اگربتیوں میں نہ تو کوئلہ ہوتا ہے اور نہ ہی سلفر ۔‘‘

دریائے گنگا کو تحفظ فراہم کرنے کے ہیلپ اَس گرین کے خیال کو اس وقت ایک نئی سمت ملی جب پھولوں میں تھرموکول کے ممکنہ متبادل کا امکان نظر آیا ۔ کمپنی نے اب فلورا فوم کو فروغ دیا ہے جو تھرمو کول کا ایک ماحول دوست متبادل ہے اور جسے بازار میں جلد ہی پیش کیا جائے گا ۔

مِسل بتاتے ہیں ’’تھرموکول پوری دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے مادّوں میں سے ایک ہے ۔ اسے پھر سے استعمال کے لائق بنائے جانے کا طریقہ اب تک دریافت نہیں کیا جا سکا ہے ۔ تھرموکول کو تیار کرنے میں کافی توانائی صرف ہوتی ہے جوفضا میں نقصان دہ گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہے ۔ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے ہائیڈرو فلورو کاربن سے ہوا آلودہ ہوتی ہے جس سے اوزون کی سطح کو نقصان پہنچتا ہے ۔ پھولوں کو پھر سے استعمال کے لائق بنانے والی ٹیکنالوجی( فلاور سائیکلنگ)کا استعمال کرکے ہیلپ اَس گرین کے ذریعے فروغ دیا گیا فلورا فوم، پیکیجنگ کے لیے ایک انقلابی مادّہ ثابت ہوا ہے ۔ یہ صد فی صد ایک قدرتی شئے ہے کیوں کہ اسے پھولوں کو چڑھاوے اور زرعی فضلے سے تیار کیا گیا ہے ۔ اسے تیار کرنے کا عمل کاربن نیوٹرل ہے یعنی اس کی تیاری میں جس قدر کاربن ڈائی آکسائڈ استعمال ہوتی ہے ، کاربن ڈائی آکسائڈکی اتنی ہی مقدار نکال بھی دی جاتی ہے ۔ پییکجنگ کے روایتی مادّے کے مقابلے اس میں خرچ بھی کم ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں آگ لگنے کا خطرہ کم رہتا ہے ۔‘‘

یہ مادّہ لچک فراہم کرتا ہے اور اس سے کھچاؤکی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں جھٹکا برداشت کرنے اور پائیداری کا عنصربھی ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ سے اسے مصنوعات کی ضرورت کے حساب سے کسی بھی شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ فلورافوم کو مٹی میں مکمل طور پر منتشر ہونے میں قریب ۶۲ دن کا وقت لگتا ہے ۔ اسے آسانی کے ساتھ پھر سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔‘‘

سنہ ۲۰۱۸ ء میں کمپنی کے اہلکاروں نے نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں واقع نیکسَس انکیوبیٹر میں تربیت حاصل کی ۔ اس تربیت سے ان اہم مسائل کی شناخت کرنے اور انہیں حل کرنے میں مدد ملی جو ممکنہ طور پر بغیر توجہ کے رہ جاتے اور نتیجے کے طور پر کافی خطرناک ثابت ہوتے ہیں ۔ نیکسَس کی پُر جوش ٹیم اور اس کا بے مثال نیٹ ورک تمام مسائل کے حل تلاش کرنے میں نو وارد اور نوخیز کمپنیوں کی مدد کرسکتا ہے ۔ نیکسَس انکیوبیٹر اسٹارٹ اَپ ہب آسٹِن میں واقع آئی سی ٹو انسٹی ٹیوٹ آف دی یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ساتھ اشتراک کا نتیجہ ہے ۔

ہیلپ اَس گرین اب پھولوں کے چڑھاوے سے تیار نباتاتی چمڑا بازار میں اتارنے جا رہا ہے جس کا نام اس نے فلورا لیدر رکھا ہے ۔ مِسل کہتے ہیں ’’ ہم لوگوں نے پھولوں کے چڑھاوے کوپیکجنگ کے تحلیل پذیر مادّے اورحیاتیاتی چمڑے میں تبدیل کرنے کے لیے طریقے ایجاد کرنے کی خاطر اپنی تحقیق میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے ۔ ہم ان خواتین کو بھی با اختیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے ساتھ کام کررہی ہیں ۔ پھولوں کے چڑھاوے کو ایک مکمل سماجی کاروباری ادارے میں تبدیل کرنے کی غرض سے ہم سرگرمِ عمل ہیں ۔ اس کاروباری ادارے کی توسیع اب تک تین شہروں میں ہو چکی ہے ۔‘‘

رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں ۔ وہ افسانوں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں ۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے