تعلیم سے ملازمت تک  

امریکی یونیورسٹیوں کی ’ کریئر سروسیز‘ بین الاقوامی طلبہ کی راہنمائی کرتی ہیں کہ کس طرح وہ ممکنہ آجروں کے سامنے اپنی شخصیت کو بہترین انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔

مائیکل گیلنٹ

March 2023

تعلیم سے ملازمت تک   

امریکی یونیورسٹیوں کے ’کریئر سروسیز‘ دفاتر اکثر کریئر فیئر، ٹاک اور استقبالیہ جیسی تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں جہاں طلبہ کو ممکنہ آجروں سے ملاقات اور بات چیت کا موقع میسر آتا ہے۔ (تصویر بشکریہ یوینورسٹی آف مشی گن اسکول فار انوائرونمینٹ اینڈ سسٹین ابیلیٹی)

بین الاقوامی طلبہ کے لیے امریکی یونیورسٹیوں کی نئی  قسم کی تعلیمی ثقافت سے مطابقت پیدا کرنا ایک  دشوار گزار کام ہوسکتا ہے۔اسی طرح گریجویشن کے بعد کام کی ایک نئی اور مسابقتی ثقافت کو اپنانا بھی یکساں طور پر مشکل ہو سکتا ہے۔ اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکی یونیورسٹیاں طلبہ کومادرِ علمی  سے روزگار کی دنیا میں منتقل ہونے میں مدد کا ایک اہم وسیلہ دستیاب کرواتی ہیں جسے عرف عام میں ’کریئر سروسیز‘ کہا جاتا ہے۔

یونیورسٹی آف ہیوسٹن کے ’کریئر سروسیز آفس ‘کی ایک مشیر پرینکا راؤت کہتی ہیں کہ وہ طلبہ کو یہ سمجھنے میں مدد کرتے ہیں کہ امریکہ میں نوکری کرنے کے تقاضے کیا ہیں، کسی مخصوص شعبے میں ملازمت کا طریقہ کار کیا ہے اور یہ بھی کہ ’’ریزیومے اور سی وی کے درمیان کیا فرق ہے۔‘‘

وہ کہتی ہیں ’’ہم انہیں یہ سمجھنے میں بھی مدد کرتے ہیں کہ انٹرویو کی تیاری، ملازمتوں کی تلاش اور انٹرن شپ کیسے کی جائے اور انہیں اس شعبے کے  لیے موزوں کیسے بنایا جائے جہاں وہ ملازمت تلاش کر رہے ہیں۔‘‘

ثقافتیں اورروزگار

امریکہ میں بعض مخصوص شعبوں میں ایک امید افزا کریئر کی راہیں بھارت کے مقابلے میں بہت مختلف نظر آسکتی ہیں۔ راؤت کہتی ہیں ’’بھارت میں اگر آپ انجینئر یا ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک اچھےتعلیمی ادارے میں داخلے کے لیے داخلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اور امتحان کی کارکردگی ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آپ کو داخلہ کہاں ملے گا۔ ‘‘

تاہم وہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں یونیورسٹیاں اور آجر امیدواروں کا انتخاب کرتے وقت بہت سارے عوامل دیکھتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بھی آسانیاں ہیں جو اپنے مضامین یا کریئر کی راہیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

کریئر سروسیز کی بدولت طلبہ کو نہ صرف آجروں کے سامنے اپنی تکنیکی کامیابیوں کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ وہ بات چیت کی صلاحیت، ٹیم سازی اور مذاکرات جیسی مہارتیں بھی سیکھ سکتے ہیں۔

راؤت کہتی ہیں ’’بھارت سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی طلبہ کے ساتھ جب میں نے بات چیت کی تو ایک بات واضح ہو گئی کہ وہ لوگ ’سی وی‘ کو ’ریزیومے ‘ہی سمجھتے ہیں لیکن امریکہ میں یہ دونوں مختلف دستاویز سمجھے جاتے  ہیں۔ ’سی وی ‘میں تحقیق، تدریس اور اشاعتوں کی تفصیلات شامل کی جاتی ہیں جبکہ’ ریزیومے ‘میں انٹرن شپ، غیر نصابی سرگرمیوں اور مہارتوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں مقیم بھارتی طالبہ کے لیے اس فرق کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔‘‘

یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا (یو ایس ایف) میں ڈاکٹریٹ کی پڑھائی کرنے والی الیکٹریکل انجینئر نرمیتا رائے نے اپنی یونیورسٹی کی کریئر سروسیز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آجروں کی توجہ حاصل کرنے والا ’ریزیومے‘ تیار کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’’بھارت میں آپ ریزیومے میں، ہر ایک تفصیل اور ہر پروجیکٹ جس پر کام کیا ہے، کا ذکر کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے شعبے کو دیکھتے ہوئے مجھے’ ریزیومے‘ کو کتنا مختصر رکھنا چاہیے۔ مالیات اور کاروباری شعبوں میں کام کرنے والے ان کے دوستوں کے پاس صرف ایک صفحہ پر مشتمل ’ریزیومے‘تھے۔ لیکن کیا اتنا مختصر’ ریزیومے‘ میرے لیے بھی ٹھیک ہے؟ کریئر سروسیز تک پہنچنے سے پہلے مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اس کے بارے میں  کس سے پوچھوں۔‘‘

کریئر سروسیز سے ملنے والی مدد سے نرمیتا رائے بہت مسرور ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں ’’انہوں نے میرے پس منظر کو سمجھا اور مجھے ایک کوچ کی خدمات فراہم کیں جو الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے میں کریئر اور آجروں کے بارے میں واقفیت رکھتے تھے۔ انہوں نے میرے تمام سوالات کے جواب ایک ایک کر کے دیے۔‘‘

یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ کریئر انگیجمنٹ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ایریڈنے چینگ درخواست دہندگان کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ اسامی کو دیکھتے ہوئے اپنا ریزیومے تیار کریں۔ وہ بتاتی ہیں ’’اسامی کی تفصیلات دیکھیں۔ اہم مہارتوں، اہلیتوں اور یہاں تک کہ مطلوبہ ذاتی خصوصیات پر بھی نظر ڈالیں جو اس اسامی کے لیے درکار ہیں۔ اسی کو دیکھتے ہوئے آپ اپنی صلاحیتوں کی نشاندہی کریں اور پھر اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان تمام نکات کو آپ نے اپنے ریزیومے کے مہارتیں اور تجربات والے حصوں میں شامل کیا ہے۔‘‘

چینگ مزید مشورہ دیتی ہیں کہ طلبہ اپنے پیشہ ورانہ، تعلیمی اور رضاکارانہ تجربات کو انفرادی انداز میں بیان کریں۔ وہ کہتی ہیں ’’جب بھی ممکن ہو، کسی نہ کسی طریقے سے اپنے اثرات کو ظاہر کرنے کی کوشش کریں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ مخصوص اعداد و شمار یا سنگ میل کا استعمال کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنا کہ آپ کی کوششیں کتنی اہم رہی ہیں، کو ریزیومے میں شامل کرنا بہتر ہے۔

رابطوں کا قیام

چینگ کہتی ہیں ’’کریئر سینٹرس آجروں کے ساتھ تعلقات اُستوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاکہ یہ آجر طلبہ کے لیے ایک ذریعہ بن سکیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی طلبہ کو اپنے کریئر سینٹر کی طرف سے فراہم کردہ مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ وہ ان آجروں سے براہ راست رابطہ قائم کر سکیں اور ان سے سیکھ سکیں۔‘‘

کریئر سروسیز کے دفاتر اکثر کریئر میلوں، بات چیت، استقبالیہ اور دیگر تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں جہاں طلبہ ممکنہ آجروں کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ چینگ مشورہ دیتی ہیں کہ طلبہ کو اسکول کی رہنمائی والے پروگراموں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اور کسی بھی ایسی اسامی کے لیے درخواست دینی چاہیے جس کے وہ اہل ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’کالج کی زندگی کے مطابق خود کو ڈھالنا مشکل ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر بین الاقوامی طلبہ کے لیے۔ تاہم اگر آپ کو ایک اطالیق، جو ان تمام چیزوں سے گزر چکا ہو، کی رہنمائی حاصل ہو آپ کا تجربہ بہت آسان ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے اسکول میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے رسمی طور پراطالیقی پروگرام یا رہنمائی پروگرام نہیں ہے تو سابق طلبہ سے رابطہ کرنے میں  ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ آپ کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہو سکتی ہے کہ سابق طلبہ مدد کرنے اور مشورہ دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔‘‘

رائے مشورہ دیتی ہیں کہ بھارتی طلبہ کو کریئر سروسیز کے ذریعے دستیاب تمام مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں ’’یہاں تک کہ کریئر سروسیز کا سب سے چھوٹا ورکشاپ بھی آپ کے کام آسکتا ہے اور یہ پہلے سے ہی آپ کو پڑھائی کے دوران بتایا جاتا ہے لہٰذا آپ کے پاس نہ جانے کی واقعی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ آپ کا اپنے کریئر کو شروع کرنے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر آپ کا تعلق  کسی دوسرے ملک سے ہے  تو کریئر سے متعلق پروگرام آپ کو ثقافت کے فرق سے نکلنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ان پروگراموں میں آپ آجروں کے ساتھ بات کرنا سیکھ سکتے ہیں اور اس بات سے واقف ہو سکتے ہیں کہ امریکہ میں چیزیں کس طرح کام کرتی ہیں۔‘‘

ابتدا کیسے کریں

چینگ کا کہنا ہے کہ آپ کے کریئر کا راستہ جو بھی ہو، آپ کبھی بھی اپنے اسکول کے کریئر سروس آفس کا دورہ کر سکتے ہیں اور منصوبہ بندی شروع کر سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’’ایک بین الاقوامی طالب علم کے طور پر آپ کو امریکی امیگریشن قوانین کی وجہ سے ملازمت اور انٹرن شپ کی تلاش کے لیے زیادہ غور و فکر کرنا ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ اس عمل سے واقفیت کی اور اپنےکریئر کی  منصوبہ بندی جلد شروع کریں۔ آپ کے اسکول کے کریئر سینٹر آپ کے میجر سے لے کر کریئر کی تلاش اور ملازمت کی پیش کش سے متعلق بات چیت تک، آپ کے کریئر کی راہ کے ہر قدم کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں ۔لہٰذا آپ کو اکیلے میں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘

مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے