عالمی ذائقے

امریکہ سے درآمد شدہ لوازمات بھارتی خانساماؤں کو تحریک دیتے ہیں کہ وہ روایتی پکوانوں کے نئے اقسام بنا ئیں۔

مائیکل گیلنٹ

June 2022

عالمی ذائقے

شیف راکھی واسوانی روایتی بھارتی کھانوں میں امریکی لوازمات کو شامل کرتی ہیں۔ تصویر بشکریہ راکھی واسوانی۔

بھارت میں اگائی جانے والی فصلیں چاول، کافی، کدو اور آم متفرق ہونے کے ساتھ متنوع بھی ہیں۔ لیکن زرعی اعتبار سے  زرخیز ممالک بھی بین الاقوامی تبادلوں(اعلیٰ معیار کے لوازمات  کی دستیابی کے نتیجے میں ) سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔اگر یقین نہ آئے تو بھارتی خانساماؤں سے پوچھیں۔

کرارے امریکی کروندے سے لے کر کیلیفورنیا کے اخروٹ تک  امریکی لوازمات نے  بھارتی طبّاخی کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ جس کا حال یہاں کے طبّاخ ہی جانتے ہیں۔ بارہا بھارتی خانساماں روایتی بھارتی پکوانوں میں امریکہ سے درآمد شدہ لوازمات کو شامل کرکے روایتی پکوانوں کو ایک نئی شکل دے دیتے ہیں۔

انوٹھی وشال ایک مصنفہ، غذا ئی مورخ اور کالم نگار ہیں۔انہیں بھارت اور دنیا بھر کے طبقات  کے درمیان طبّاخی سے متعلق رشتوں  میں مہارت حاصل ہے ۔ وہ کہتی ہیں’’بھارتی فنِ طبّاخی  متنوع لوازمات کے استعمال کی وجہ سے تاریخی طور پر اختراعی خصوصیت کی حامل رہی ہے۔ اس میں شامل کئی لوازمات دوسرے خطوں اور ثقافتوں سے بذریعہ تجارت یہاں آئے ہیں  اور ملک کی مضبوط اور گہری جڑوں والی طبّاخی ثقافت میں گہرائی کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔

Anoothi Vishal

 

انوٹھی وشال ایک مصنفہ اور غذائی مورخ ہیں جو عالمی نقطہ نظر رکھتی ہیں۔ تصویر بشکریہ انوٹھی وشال۔

امریکی لوازمات، بھارتی طرز ِ طبّاخی

وشال  اپنے کھانوں میں ایک کلیدی جزو کے طور پر امریکہ سے درآمد شدہ کروندے کا استعمال کرتی رہی ہیں۔ وہ بھارت کے مختلف علاقوں  کے پکوانوں پر تحقیق کرتی ہیں اور کھانوں سے متعلق اپنی جانکاری کا استعمال کرکے ایسی فہرستِ طعام  بناتی ہیں جو روایتی ہونے کے ساتھ اختراعی بھی ہوتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ ان کی سرگرمی میں یہ بات شامل ہے کہ وہ روایتی پکوانوں میں  امریکی کروندے جیسی نسبتاً نئی چیز کو شامل کرنے کی جستجو کریں مگر اس بات کا لحاظ رکھیں کہ پکوان کے ذائقے برقرار رہیں جو بھارتی کھانوں کو مقبول بناتے ہیں۔‘‘

پرانی دہلی، وسطی اور جنوبی ہند میں  سڑک کے کنارے بکنے والے پسندیدہ کھانوں سمیت وشال کے اجداد  کے زمانے سے چلے آرہے کھانوں کو کروندے کو ذہن میں رکھ کر نئے طریقے سے تیار کیا گیا ہے۔ ۲۰۲۱ء کے اواخر میں انہوں نے ملک گیر پیمانے پر پھیلے لیلا ہوٹلوں اور پنجاب گرِل کے نام سے چلائے جارہے  ریستورانوں میں چاٹ فیسٹیول کا اہتمام کیا ۔ ان میلوں میں روایتی چاٹ میں امریکی کروندے کو بھی شامل کیا گیا۔  بھارت میں درآمد کیے جانے والے مقبول امریکی کھانوں میں تازہ پھلوں، ٹری نٹس(کاغذی بادام، برازیل نٹ، کاجو،ریٹھہ،بیکن، پستہ اور اخروٹ شامل ہیں) اور مختلف قسم کے تیار شدہ کھانے شامل ہیں۔ ممبئی کی معروف خانساماں، صنعت کار، مصنفہ اور فنِ طبّاخی کی تعلیم دینے والی راکھی واسوانی کہتی ہیں ’’مجھے امریکہ کے لوازمات کے بارے میں  جو بات سب سے اچھی لگتی ہے  ہے وہ ہے ان کا معیاری ہونا،  جو ایک متاثر کن چیز ہے۔ میں نے اپنے کھانوں میں اوریگون کا ریٹھہ، کیلیفورنیا کا سوکھا آلو بخارا، پستہ، کیلیفورنیائی اخروٹ ، واشنگٹن کا سیب، مرغ، بطخ اور ٹرکی کا استعمال کیا ہے۔میں نے واقعی اس بات کی تعریف کی ہے کہ امریکی خوراک فراہم کرنے والے کتنے باخبر ہیں۔ جب  امریکی لوازمات کی بات آتی ہے تو وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ انہیں کیسے سنبھالا جائے۔ وہ اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ انہیں کہاں تیار کیا جاتا ہے۔ اپنی ابتدا ہی سے امریکی لوازمات اعلیٰ معیار کے ساتھ تیار کیے جاتے ہیں۔‘‘

غذائی آمیزش

وشال کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بہت سارے  لوازمات دکانوں اور خوردہ کاروباریوں کے ذریعہ بھارتیوں کو دستیاب ہوتے  ہیں۔ واسوانی باقاعدگی سے امریکی فوڈ سپلائرس سے لوازمات حاصل کرتی ہیں جن کے ساتھ انہوں نے پیشہ ورانہ رشتے اُستوار کیے ہیں ۔  لیکن اس کے ساتھ ہی  دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تبادلوں کے لیے بھی خصوصی کوششیں جاری ہیں۔ یہی بات پکوان کے تعلق سے بھی صادق آتی ہے۔

واسوانی  نے گذشتہ برس امریکی قونصل جنرل ڈیوڈ جے رانز کے ساتھ شراکت میں ’’ امریکی ذائقے‘‘ نامی  کلاس منعقد کی۔ اس کی کفالت امریکی محکمہ زراعت  کی عالمی زرعی خدمات نے ممبئی میں کی جس میں امریکی لوازمات اور بھارت ذائقوں کی روایات پر توجہ مرکوز کی گئی۔یہ پروگرام ممبئی میں واسوانی کے ’ پیلیٹ کلینری اسٹوڈیو اینڈ اکیڈمی ‘ میں منعقد کیا گیا تھا  جہاں ناظرین براہ راست اس میں شرکت کر سکتے تھے۔ اس کے بارے میں انہوں نے بتایا’’اس موقع کے لیے جوڈش ہم نے مل کر تیار کی وہ چاٹ کی ایک نئی قسم  تھی، جہاں ہم نے کھجور اور املی کی جگہ  امریکی  کروندے اور جامن کا استعمال کیا جو روایتی لوازمات ہیں۔ پکوان بہت پسند کیا گیا ۔ یہ دیکھنے میں بھی خوبصورت لگ رہا تھا ۔ اس کے علاوہ یہ ڈش عمل تکسید کو روکنے والے عوامل سے پُر بھی تھی۔‘‘

Collage of food items

 

راکھی واسوانی بروکلی، اخروٹ، گوبی کے سوپ، کیک، گلاب اور پستہ ٹرفل اور کروندے والی بادام برفی میں امریکی لوازمات شامل کرتی ہیں۔ تصاویر بشکریہ راکھی واسوانی

ماسٹر کلاس ایک استاد اور کھانا بنانے کے اختراع کار کے طور پر واسوانی کے نقطہ نظر کے مطابق ہے۔ وہ  طبّاخی سے متعلق ایک اسکول چلاتی ہیں اور طلبہ بھارت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر کھانے کی صنعت میں  روزگار حاصل کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’جب بھی ہم پکوان کی  کوئی ترکیب سکھاتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ تازہ لوازمات کے استعمال کے اہل ہوں  اور وہ جہاں بھی ہوں ، اپنے کھانا پکانے کو اس کے مطابق ڈھال سکیں۔  ایک استاد کے طور پر میرا کام یہ بھی ہے کہ میں ملکوں کے درمیان رشتے اُستوار کروں ۔ میں  کھانا پکانے کی ایسی ترکیبیں نہیں سکھانا چاہوں گی  جس میں  لازمی  طور پر امریکی لوازمات کا استعمال  اس طرح سے کیا جاتا ہے  جیسے وہ مغرب میں استعمال کیے جانے والے ’سمجھے جاتے‘ ہیں۔

واسوانی کو امید ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان خوراک کی تجارت جاری رہے گی اور اس میں اضافہ ہو گا ۔ وہ کہتی ہیں’’ میں  چاہتی ہوں کہ ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہوں۔‘‘ ایک شیف کے طور پر، مختلف قسم کے پکوان تیار کرنے کا تجربہ کرنا آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ  میں تقسیم کاروں اور لوازمات مہیا کرانے والوں کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے،  ان میں سے ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں  اس بات کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ پرجوش ہیں  کہ اس کے لوازمات  بہترین شکل میں دستیاب ہوں اور مجھے امید ہے کہ میرے جیسے بھارتی خانساماں اس سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہو سکتے ہیں۔‘‘

جب بین الاقوامی خوراک کی تجارت کو فروغ حاصل ہوتا  ہے تو اعلیٰ معیار کے لوازمات اور نئی ترغیبات اس عمل میں شامل تمام لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں ۔ وشال کہتی ہیں ’’ ایک غذائی   مورخ  کے طور پرمیں یہ کہہ سکتی  ہوں کہ بہت سےامریکی لوازمات  کو مقامی علاقائی بھارتی ذائقوں اور تکنیکوں کے ساتھ کامیابی کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے تاکہ بڑے پیمانے پر عوامی مقبولیت  کے ساتھ اختراعی پکوان پیش کیے جا سکیں۔تجارت دو طرفہ  چیزہے۔ اگر بھارتی مصنوعات اور پکوان امریکہ جیسے کثیر ثقافتی معاشروں میں مقبول ہو سکتے ہیں تو امریکی پکوان یہاں کیوں پسند نہیں کیے جا سکتے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور  سی ای او ہیں۔ و ہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے