کینسر سے بچ جانے والوں کی امداد

کانفیم نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب سے تربیت یافتہ ایک سماجی کاروباری مہم ہے جو سینے کے کینسر سے بچنے والی خواتین کو ان کی ضرورت کے حساب سے مصنوعات اور خدمات فراہم کر رہا ہے ۔

پارومیتا پین

March 2021

کینسر سے بچ جانے والوں کی امداد

دیہی خواتین پستان کے سرطان کا شکار عورتوں کے لیے آرامدہ مصنوعات بناتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ کانفیم۔

کانفیم نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب سے تربیت یافتہ ایک سماجی کاروباری مہم ہے جو سینے کے کینسر سے بچنے والی خواتین کو ان کی ضرورت کے حساب سے مصنوعات اور خدمات فراہم کر رہا ہے ۔کینسر کے عالمی اعداد و شمار کے آن لائن ڈیٹا بیس ’ گلوبوکون ۲۰۲۰‘کے مطابق کینسر میں مبتلا ہرچار خواتین میں سے ایک سینے کے کینسر کی شکار ہے ۔ سینے کے کینسر کا ایک مقبول علاج عمل جراحی سے پستان کاٹ دینے کا عمل ہے ۔ مگر جو خواتین یہ تدبیر اختیار کرتی ہیں انہیں بہت ساری جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل سے نبرد آزما ہوناپڑتا ہے ۔ علاوہ ازیں ان کے جسم کے حوالے سے سماج میں ایک منفی تصور قائم ہوتاہے جس کے سبب انہیں معاشرے میں گھل مل پانے میں دقتیں پیش آتی ہیں ۔

ہریانہ میں واقع کانفیم سینے کے کینسر سے بچنے والی خواتین کے لیے ایسے آرام دہ اور سستے مصنوعات اورخدمات تیار کرنے میں مصروف ہے جن سے ان کے صحت یاب ہونے کا عمل آسان ہوجاتا ہے ۔ اس سماجی کاروباری مہم کی ابتداء اس فیملی کی کینسر کے خلاف جنگ اور ذاتی نقصان سے ہوئی تھی ۔ آکرتی اور کویتا گپتا کی ماں ۔ بیٹی کی جوڑی نے کانفیم کی بناء ڈالی ۔ دراصل یہ کینسر سے بچنے والوں اور کینسر کے مریضوں کے حقوق کے لیے سالہاسال کی وکالت کا نتیجہ ہے ۔آکرتی بتاتی ہیں ’’۲۰۱۵ء میں میرے والد ایک وسطی حجم والی کمپنی میں اعلیٰ مالیاتی افسر تھے ۔ مگر چونکہ کینسر کے علاج کے سلسلہ میں انہیں بار بار لمبے عرصے کے لیے اسپتال میں بھرتی ہونا پڑتا تھا، لہٰذا ان کی کمپنی نے انہیں رخصت کردیا۔‘‘

ان کے والد جو کہ ایک چارٹرڈ اکاوَنٹنٹ تھے انہوں نے آزادانہ مشاورت شروع کی اور گھر ہی سے کام کرنا شروع کردیا۔ مگر انہیں احساس ہوا کہ  انہیں حالات سے دوچار (خاص کر ایسے لوگوں کے لیے جو نہ تو تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ان کی رسائی دوسرے ذرائع تک ہے)افراد کے لیے روزی روٹی کمانا کتنا مشکل ہوتا ہوگا۔

انہوں نے آکرتی  (جو اس وقت محض سترہ برس کی تھیں)کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ایسے افراد کا پتہ لگائیں۔ ان دونوں نے مل کر ایک ایپ تیار کی جس کے ذریعہ سے تربیتی پروگراموں ، حکومت کے پروگراموں اور مختلف کمپنیوں کے’ کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی ‘شعبوں کے متعلق معلومات فراہم کی گئی تھیں ۔ انہوں اپنی تنظیم وِن اوور کینسر کے بینر تلے کالج طلبہ کے لیے بیداری پروگرام منعقد کیے ۔ ان پروگراموں میں اختراعی کھیلوں اور متعامل سیشنوں کے ذریعہ نوجوانوں کو کینسر اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کیا جاتا تھا ۔

 

کانفیم کی تخلیق

جناب گپتا صاحب کو بار بار علاج کے سلسلہ میں طویل عرصوں تک اسپتال میں داخل رہنا پڑتا ہے ۔ اسپتال میں قیام کے دوران آکرتی اور ان کی والدہ کا سابقہ مختلف النوع کینسر مریضوں سے پڑا ،خاص کر ان خواتین سے جو یا تو سینے کے کینسر کا علاج کر وا رہی تھیں یا پھر اس سے بچنے کی صورت میں اپنی زندگی کا از سرنو آغاز کر رہی تھیں ۔آکرتی بتاتی ہیں ’’ یہاں ہمیں براہ راست معلوم ہو اکہ پستان  کاٹے جانے کے بعد مریضوں کے لیے درست مصنوعی اعضاتلاش کرنا کس قدر مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ ‘‘

اکثر مصنوعی اعضا سلیکان یا پھر فوم کے ہوتے ہیں ۔ یہ مہنگے ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں ۔ ان میں اکثر جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں جن سے  زود حسی(الرجی) پیدا ہو جاتی ہے ۔ آکرتی  کی والدہ کویتا کو بھارتی کپڑوں میں خاصی گہری دلچسپی ہے ۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ سوتی کپڑے سے سستے مصنوعی اعضا تیار کیے جائیں ۔ ۲۰۱۹ء میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سئنسیز سے اپنی ماسٹر ڈگری پروگرام کے لیے انہوں نے کثیر الجہات شرکا کا مطالعہ کیا جس کا موضوع سینے کے کینسر سے بچ جانے والی خواتین کے تجربات کا مطالعہ تھا۔ انہیں اپنی تحقیق سےپتہ چلا کہ بھارت میں نہ صرف کم آمدنی والے افراد کو بلکہ اوسط آمدنی کے افراد کو بھی پستان کے سستے مصنوعی اعضا کی اشد ضرورت ہے ۔ انہیں تجربات اور معلومات کی بنیاد پر ہی کانفیم قائم کی گئی ۔

کانفیم کے مصنوعات کی سخت ترین آزمائش کے لیے آکرتی نئی دہلی میں واقع آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ماہر کینسر ڈاکٹر ملیں جنہوں نے مریضوں کوایک پائلٹ پروگرام میں شرکت کرنے کی ہمت افزائی کی ۔ اس میں ۲۲۰۰ مریضوں نے شرکت کی ۔ کانفیم کے ذریعہ تیار کردہ مصنوعی اعضا امیزون، فلپ کارٹ اورزیرجامہ پورٹلوں پر دستیاب ہیں ۔ ان میں مریض کی ضرورت کے حساب سے ردوبدل کیا جاسکتا ہے ۔آکرتی بتاتی ہیں ’’حالاں کہ عام طور پر پستان کے مصنوعی اعضا کی قیمت بازار میں ۸۰۰۰ روپے سے شروع ہوتی ہے اور پھر یہ اور مہنگے ہوتے جاتے ہیں ۔ ہماری مصنوعات ۱۵۰۰ سے شروع ہوتی ہیں ۔بعض مخیر حضرات دل کھول کر ہمیں عطیہ دیتے ہیں جن کی بدولت ہم ایسے مریضوں کو مصنوعی اعضا مفت دے پاتے ہیں جو انہیں خریدنے کی قوت نہیں رکھتے۔ ‘‘

ان مصنوعی اعضاء کو تیار کرنے کے لیے کانفیم نے ہریانہ کی دیہی خواتین کی خدمات لی ہیں ۔ اس طرح ان خواتین کو مالی آزادی بھی حاصل ہوئی اوران کے گھر کی زائد آمدنی کا بھی انتظام ہوگیا ہے ۔

آکرتی بتاتی ہیں ’’ کانفیم کا خیال اس وقت آیا جب میرے والد کی کینسر کی تشخیص ہوئی۔اکثر لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں ایک باقاعدہ ملازمت اختیار کر لوں ۔ یوں سمجھیں کہ کانفیم کے تصور کی زیادہ پذیرائی نہیں ہوئی ۔ مگر میرا خیال ہے کہ کاروباریوں ، خاص کر خواتین کو اپنے منصوبوں کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے ۔ کیوں کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی اور جنہوں نے نہیں کی ، ان میں فرق ابتدا ہی سے واضح ہو جاتا ہے۔ ‘‘

ایک منافع بخش سماجی کاروباری تنظیم کے طور پر کانفیم کا رجسٹریشن ۲۰۲۰ء میں ہوا۔ تنظیم نے حال ہی میں نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں واقع نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب سے تربیت حاصل کی۔  آکرتی بتاتی ہیں ’’ اس پروگرام سے ہمیں مسئلہ کو مزید بہتر طور پر سمجھنے ، مختلف النوع شرکا کو ایک ساتھ جمع کرنے اور اپنی تجارت کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔ ہمارے اتالیق نہایت عمدہ تھے ۔ ان سے مجھے اپنے کاروبار کو باقاعدہ طور پر شروع کرنے میں کافی مدد ملی ۔ مجھے اس سے ہنر سیکھنے کو ملے اور میرے اندر اعتماد پیدا ہواجو میں آئندہ مستقبل میں کام میں لا سکتی ہوں۔‘‘

آکرتی کا ارادہ کانفیم کی توسیع کا ہے۔یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہوگا جہاں ایک ہی چھت کے نیچے معلومات ، تعلیم اور بااختیار بنانے کے عمل ایک ساتھ انجام پائیں گے جن سے کینسر سے متاثر مریضوں اور ان کے گھر والوں کی زندگی  کے معیاروں کو بہتر بنایا جا سکے گا۔وہ کہتی ہیں ’’ہمیں ہم عصروں کی مضبوط تعلیم اور نیٹ ورک کی ضرورت ہے ۔اور  ہم اسی جانب گامزن ہیں۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے