انسانی حقوق کی صورت حال

انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق ملکوں کی سالانہ رپورٹ میں عالم گیر شہرت کےحامل افراد، شہری، سیاسی اور کامگاروں کے حقوق کا ذکر ہوتا ہے۔

ہلیری ہوپیک

December 2021

انسانی حقوق کی صورت حال
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن ’’کنٹری رپورٹس آن  ہیومن رائٹس پریکسٹسز ۲۰۲۰‘‘ کے اجرا کے موقع پر مارچ ۲۰۲۱ء میں وزارت خارجہ میں خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر از منڈیل نگان/پول©اے پی امیجیز

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن نے ’ ہیومن رائٹس پریکٹس کنٹری رپورٹ برائے ۲۰۲۰‘ کا تعارف پیش کرتے ہوئے اپنے تعارفی کلمات میں انسانی حقوق کی امریکی پالیسی میں رپورٹ کے کلیدی کردار کی اہمیت کو واضح کیا’’ ہر سال حقوق انسانی  کے احوال سے متعلق دستاویز تیار کرتے ہوئے  امریکی وزارت ِ خارجہ امریکی کانگریس ،سول سوسائٹی ، درس و تدریس سے وابستہ افراد ، کارکنوں اور عام انسانوں کو معروضی اور جامع معلومات فراہم کرتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کا حقوق انسانی کے فروغ اور انسانی حقوق  کی پامالی اور خلاف ورزیوں کے احتساب میں اپنا کردار ہے ۔‘‘

انسانی حقوق کے طریقوں کی سالانہ رپورٹ در اصل دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حالات کے بارے میں  امریکی حکومت کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں خلاصہ ہوتا ہے کہ  ممالک کہاں تک  انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں مذکور انفردای، شہری، سیاسی،اور کامگاروں کے حقوق کی تعمیل کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کو ۱۹۴۸ءمیں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے اپنایا تھا۔

کنٹری رپورٹ  پیش کرنے کی راہ ۱۹۶۱ء کے فارین اسسٹنس ایکٹ (ایف اے اے) میں  ترمیمات سے ہموار ہوئی جس پر صد ر جان ایف کینیڈی نے دستخط کیے تھے۔پہلی کنٹری رپورٹ ۱۹۷۸ء میں جاری کی گئی جس میں سنہ ۱۹۷۷ء کے لیے ۱۰۵ ملکوں کی صورت حال کا جائزہ شامل تھا۔ ۱۹۷۴ء میں قانون سازی کے ذریعہ امریکی کانگریس نے انسانی حقوق کو امریکی خارجہ پالیسی میں ایک ترجیحی عنصر کے طور پر شامل کیا تاکہ دنیا میں ان حکومتوں کی سلامتی امداد روکی جا سکیں جو’’ عالمی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کا مسلسل ارتکاب کرتی ہیں ۔‘‘   اگلے برس ایف اے اے میں ہوئی ترمیم وزیر خارجہ کو پابند کرتی ہے کہ وہ امریکی سلامتی امداد حاصل کرنے والے ملکوں کی انسانی حقوق کے حالات سے متعلق ایک مکمل رپورٹ ہر سال  امریکی کانگریس کے سامنے پیش کریں ۔ مذکورہ قانون میں ۱۹۷۹ء میں کی گئی ترمیم کے ذریعہ اس کا اطلاق اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک  تک کر دیا گیا۔ یعنی اب وزیر خارجہ قانون کی رو سے پابند ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی انسانی حقوق سے متعلق صورت حال کی سالانہ رپورٹ امریکی کانگریس کے سامنے پیش کریں۔

یہ کنٹری رپورٹ درحقیقت بنیادی ماخذ ہیں جن کی بنا پر کانگریس قومی ترجیحات اور عالمی حقائق طے کرتی ہےجن کا امریکی خارجی پالیسی، غیر ملکی امداد، باہمی اور کثیر فریقی معاہدوں اور معاشی پابندیوں سے براہ راست تعلق ہے۔ کانگریسی تحقیقی خدمات(سی آر ایس) کے مطابق شروعاتی کنٹری رپورٹ’’ پر تنقید کی گئی کہ وہ متعصب ہیں اور ان میں حقائق کا فقدان ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان رپورٹوں کی وسعت ، معیار اور صداقت میں بہتری ہوئی ہےاور اب یہ مستند شمار کی جاتی ہیں۔ ‘‘

ہر سال اس رپورٹ کو ترتیب دینے اور شائع کرنے کی پوری ذمہ داری امریکی وزارت خارجہ کے بیورو برائے جمہوریت اور کامگارکی ہے جس میں اس بیورو کے عالم گیر سطح پرفروغِ جموریت، انسانی حقوق کی حفاظت، مذہبی آزادی اور کامگاروں کے حقوق کے فروغ کا مشن کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ بہر کیف کانگریس انسانی حقوق کی اقسام میں مسلسل اضافہ کرتی رہی ہے اوران کو مضبوطی فراہم کرتی رہی ہے تاکہ دنیا میں انسانی حقوق کو درپیش مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہو سکے۔

کنٹری رپورٹوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ تو ممالک کا موازنہ ایک دوسرے سے کرتی ہیں اورنہ ہی انسانی حقوق کی پامالی کی شدت کی بنا پر ممالک کی درجہ بندی کرتی ہیں۔ کنٹری رپورٹ کے لیے مواد مختلف معتمد ذرائع سے جمع کیا جاتا ہے جن میں غیر ملکوں میں واقع امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے، غیر ملکوں کے سرکاری افسران، غیرسرکاری تنظیمیں، بین حکومتی تنظیمیں، عالمی تنظیمیں، قانون داں، ماہر قانون، صحافی، درس و تدریس سے وابستہ افراد، کامگاروں کے حقوق کے لیے لڑ نےوالے افراد اور  مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے شکار افراد شامل ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان رپورٹوں میں کافی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب ان میں ہر ملک کے انسانی حقوق  کے طریقہ کار کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ پہلی کنٹری رپورٹ میں کُل ۴۴۴صفحات تھے جبکہ ۲۰۲۰ءکنٹری رپورٹ ۲۰۷ ممالک کا ذکر ہے اور ہر ملک کی رپورٹ۵۰۔۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔

شروعاتی دور کی رپورٹوں میں محض چار حصے ہوا کرتے تھے۔ اصل اقسام میں جو حصے ہوتے تھے ان میں وہ بھی شامل تھے جن میں مندرجہ ذیل کا خیال رکھا جاتا تھا:

انسان کی ایمانداری،آزاد پیدا ہونا، قانون کے سامنے برابری،  اس وقت تک بے گناہ ماننا جب تک ملزم کو قانونی طور پر مجرم قرار نہ دے دیا گیا ہو۔اور ساتھ ہی منصفانہ طور پر مقدمہ کی سماعت کا حق حاصل ہو۔

ایک حصہ اشد ضروریات پرحکومتی پالیسیوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں شہریوں کے لیے غذا، مکان،صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم شامل ہوتی ہے۔

شہری اور سیاسی آزادی کے حصہ میں اظہار رائے کی آزادی، اجتماع اور نقل و حمل کی آزادی  اور سیاسی عمل شامل ہوتے ہیں۔

اور آخری حصہ میں ہر ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سلسلے میں حکومتوں کے رویوں کا خلاصہ بیان ہو تا ہے۔

چونکہ پیدا شدہ حالات اور ماحول کے مد نظر امریکی کانگریس نے ترمیمات کی ہیں، لہٰذا رپورٹ کے دائرہ کار میں کافی وسعت ہوئی ہے۔ امریکہ کی جدید کنٹری رپورٹوں میں اضافی حصے ہوتے ہیں جن میں حکومتی سطح پربدعنوانی اور شفافیت، امتیازی سلوک اورسماجی بدسلوکی، اور کامگاروں کے حقوق شامل ہیں۔

موجودہ اقسام میں کامگاروں کے حقوق کی سماجی پامالی اور جنسی میلان، صنفی شناخت یا معذوری کی بنا پرانسانی حقوق کی پامالی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کانگریس کومطلوب ان رپورٹوں میں ہر ملک کی سالانہ رپورٹوں کا حوالہ ہوتا جن سے بین الاقوامی حریت مذہب، اور انسانوں کی غیرقانونی تجارت کے حوالے ہوتے ہیں۔

ان رپورٹوں کی جڑیں امریکہ کے غیر ملکی امداد کے قوانین میں پیوست ہیں مگر اس کے باوجود آج کی کنٹری رپورٹیں امریکی پالیسی کو کانگریس کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ناکہ امداد محدود کرنے کے آلہ کار کے طور پر۔

حالانکہ ان رپورٹوں کا امریکی پالیسی میں کیا خاص کردار ہو اس پر ابھی بھی بحث و مباحثہ جاری ہے۔ کانگریس ان مباحثوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور اکثرانتظامیہ پر دباؤ ڈالتی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی وضع کرتے وقت انسانی حقوق پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔

مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں۔

ہلیری ہوپیک کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے