انفیکشن کی تشخیص کا آلہ

نیکسَس انکیو بیٹر سے تربیت یافتہ کمپنی رامجا جینوسینسرنے انفیکشن کا پتہ لگانے کا ایک ایسا آلہ دریافت کیا ہے جس سے محض دو ہی گھنٹوں میں نتائج برآمد ہو جاتے ہیں۔

اکشے کپور

August 2022

انفیکشن کی تشخیص کا آلہ

رامجا سینسر کی شریک بانی پوجا گوسوامی جن کا آلہ انفیکشن اور جرثومہ مخالف مزاحمت کا پتہ  صرف ۹۰منٹ میں لگا سکتا ہے۔تصویر بشکریہ پوجا گوسوامی

انفیکشن کا بر وقت پتہ چلنا اکثر مریضوں کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہوتا ہے، بالخصوص ضعیف قوت مدافعت رکھنے  والے مریضوں کے لیے۔اسی کے مد نظر نئی دہلی میں واقع اسٹارٹ اپ کمپنی رامجا جینو سینسر نے مداخلت کی ہے۔

اس نے کاغذ کا ایک ایسا سینسر بنایا ہے جس سےجرثومے سے ہونے والا انفیکشن اور جراثیم کُش دوا ک مزاحمت  کا محض دو گھنٹوں میں پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ کمپنی ایک ایسی چیز بنانے میں مصروف ہے جو مخصوص نوعیت کی، حسّاس، نقل پذیر اور توانا ہے۔

اس سے   ڈاکٹروں کو ایسے مریضوں کا علاج فوری طور پر شروع کرنے میں مدد ملے گی جنہیں اس کی شدید ضرورت ہے۔

کمپنی  کی شریک بانی پوجا گوسوامی نے حال ہی میں نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر کے نیکسَس انکیو بیٹر اسٹارٹ اپ ہب سے تربیت حاصل کی ۔اکشے کپور نے ان کی کمپنی کی ٹیکنالوجی کوسمجھنے اور مستقبل کے منصوبوں کو جاننے کے لیے انٹرویو کیا۔پیش خدمت ہیں ان انٹرویو سے چند اقتباسات۔

کیا آپ ہمیں اپنے متعلق کچھ بتا سکتی ہیں اور یہ بھی کہ آپ کو یہ کمپنی شروع کرنے کی ترغیب کہاں سے ملی؟

رامجا سینسر محض ایک کمپنی ہی نہیں ،میرےدل کے بہت قریب ہے۔رامجا کے سفر کا آغاز ایک بہت دردناک واقعہ سے  اس وقت ہواجب میرے والد کینسر علاج کے دوران فوت ہوگئے۔ان کا انتقال انفیکشن سے ہوا تھا نہ کہ کینسر کی وجہ سے۔ایسا اس لیے ہوا کیونکہ  ڈاکٹر انفیکشن کی جانچ کے نتائج آنے سے پہلے ہی کینسر کا علاج شروع کر دیتے ہیں۔ انفیکشن کی جانچ کا نتیجہ آنے میں عام طور سے تین سے پانچ دن کا وقت درکار ہوتا ہے۔میری تمنا تھی کہ نتائج جلد آ جائیں مگر اس وقت یہ ممکن نہیں تھا۔

یہ خیال مجھے اکتوبر ۲۰۱۴ء سے ہی پریشان کر رہا تھا۔ میں اس فکر میں تھی کہ جن لوگوں میں اس مرض کی تشخیص ہو گئی ہے ان میں انفیکشن کا پتہ لگانے میں درکار وقت کسی طرح مزید کم کیا جا سکے۔اپنے تحقیق والے پس منظر کی وجہ سے میں آخر کار  ایک تکنیکی حل پیش کر سکی۔ میں کاغذ سے ایک ایسا آلہ تیار کرنے میں کامیاب رہی جس سے محض دو گھنٹے میں ہی نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں ۔ میرا ارادہ اسے مزید وسعت دینے کا تھا ۔ لہٰذا میں نے نئی دہلی میں واقع ایمس میں سائنسداں کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ۲۰۱۸ء میں اپنی کمپنی جینو سینسر پرائیویٹ  لمیٹیڈ کی بنیاد ڈالی۔  اس کام کے لیے ۲۰۱۹ء میں ہمیں بایو ٹیکنالوجی انڈسٹری ریسرچ اسسٹینس کونسل (بی آئی آر اے سی )سے ۵۰ لاکھ روپے کا سرمایہ حاصل ہوا۔ اور سردست ہم آئی آئی ٹی دہلی میں اس خیال کی مزید وسعت کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ ہم نے اس تکنیک سے متعلق پیٹنٹ حاصل کرنے کے لیے تین درخواستیں دی ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں ہمیں فائزر سے املاک دانش کے لیے سرمایہ ملا۔

ایک خاتون سائنسداں کی حیثیت سے طبی تکنیک کاروباری پیشہ وری کے شعبے میں اپنے تجربے کے بارے میں کچھ بتائیں۔

خاتون سائنسداں ہونا قدر ے آسان ہے ،طبی تکنیک کے شعبے میں کاروباری پیشہ ور ہونا مشکل ۔یہ ایک کافی مزیدار سفر ہے اور میں اس سے محظوظ ہونا سیکھ رہی ہوں۔اس میدان میں بہت زیادہ مسابقہ آرائی ہے۔معینہ مدت میں کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا انتہائی دشوار گزار امر ہے۔کام اور ذاتی زندگی میں توازن برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا مگر یہ ایک فن ہے جسے ہم سب کوسیکھنا ضروری ہے۔

کاغذ پر مبنی  تکنیک جرثوموں اور جراثیم کُش دواؤں کی مزاحمت کا پتہ کیسے لگاتی ہے؟

ہم کاغذ پر مبنی ایک اسمارٹ اور اختراعی تکنیک پیش کرتے ہیں جس سے جرثومے اور جراثیم کُش دوا کی مزاحمت کا پتہ بآسانی  لگایا جا سکتا ہے۔ ہم مخصوص قسم کی تفتیش سے مخصوص جرثوموں کے انفیکشن اور ان کی مزاحمت کا پتہ صرف دو گھنٹوں میں لگا سکتے ہیں ۔

یہ تکنیک ضعیف قوت مدافعت اور کینسر کے مریضوں میں علاج کا آغاز کرنے میں کس طرح مددگار ثابت ہوگی؟

تازہ ترین رہنما خطوط کے مطابق جراثیم کُش دوا شروع کرنے  میں ہر گھنٹہ ہونے والی تاخیر مریض کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیتی ہے۔ اس معاملے میں شرح اموات ۲۰ سے ۶۰ فی صد تک ہوتی ہے۔ چوں کہ انفیکشن کا پتہ لگانے کے لیے جو جانچ کی جاتی ہے اس میں کافی وقت صرف ہوتا ہے، اس لیے ڈاکٹر جراثیم کُش دوا کو محدود پیمانے پر شروع کردیتے ہیں ۔ اس طور پر ضعیف قوت مدافعت والے اور کینسر کے مریضوں میں ان دواؤں کے لیے مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے جس سے مریض مر بھی سکتا ہے۔

اس لیے ہماری تکنیک طبی برادری کے لیے فال نیک ثابت ہوگی کیونکہ اس کی بدولت صرف دو گھنٹوں میں ہی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔ اس طور پر ڈاکٹر ضعیف قوت مدافعت  والے اور کینسر کے مریضوں میں بر وقت مخصوص جراثیم کُش ادویات کا استعمال شروع کر سکتے ہیں۔

آپ کی اختراع میں ایسی کیا خاص بات ہے جو اس کوبازار میں دستیاب دیگر سینسر وں سے مختلف بناتی ہے؟

فی الحال بھارتی بازار میں تکنیک  والا کوئی بھی ایسا آلہ دستیاب نہیں ہے جس کی مدد سے انفیکشن کا پتہ لگایا جا سکے۔لہذا ہمارا راست مسابقہ وقت زیادہ لینے والے جانچ کے موجودطریقہ کار مثلاً کلچر، سیکوینسنگ اور پی سی آر(پولی میریز چین ری ایکشن) سے ہے ۔رامجا جینوسینسر تمام ہسپتالوں ، لیباریٹریوں اور دور دراز کے علاقوں کے لیے ایک آسان اورسستاحل پیش کرتا ہے ۔یہ کاغذ پر مبنی ایک نئے قسم کا آلہ ہے جو جرثومے سے ہونے والے انفیکشن اور اس سے ہونے والی مزاحمت کامحض دو گھنٹوں میں  پتہ چلا لیتا ہے۔ ہمارا آلہ تقریباً ۹۹فیصد حسّاس، مخصوص ، نقل پذیر اور آسانی سے استعمال ہونے والا ہے۔یہ تمام رائج طریقوں مثلاً کلچر اورپی سی آر کے مقابلہ میں کافی سستا ہے ۔اس سے انفرااسٹرکچر کی قیمت میں تقریباً ۹۵ فی صد تک تخفیف جبکہ عملہ میں ۸۰ فی صد تک تخفیف ہوسکتی ہے۔

بھارت میں اس تکنیک  کی رسائی کہاں کہاں تک ہے؟ مستقبل میں آپ کے کیامنصوبے ہیں؟

یہ ایک بالکل نئی تکنیک ہے۔بھارت میں اس کو متعارف کرانے کا شرف ہمیں ہی حاصل ہوگا۔ہم اسے اپنے صارفین کی ضروریات کے حساب سے ڈھالیں گے۔ سب سے پہلے ہم معروف اسپتالوں میں اس کا کلینکل تجربہ کریں گے اور ان اسپتالوں کو اس کا عادی بنائیں گے۔  ہم مخصوص امراض کے لیے جرثوموں کا ایک پینل بنانے کا بھی منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ پہلے ہم یو ٹی آئی (پیشاب کی نالی کے انفیکشن)کے بیکٹیریائی یورو پیتھو جین پینل کا بھی جلد آغاز کریں گے۔ یہ حاملہ خواتین ، ضعیف قوت مدافعت رکھنے والوں اور کینسر مریضوں کے علاوہ عمل جراحی میں بھی مفید ثابت ہوگا۔

آپ نے کورونا کی عالمی وبا کے دوران اپنی تکنیک کو حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ، ان میں سے بعض کے بارے میں ہمیں بھی بتائیں؟

ہم اپنے آلےمیں بعض ایسی تبدیلیا ں کر رہے ہیں جن سے کم سے کم نمونہ میں بھی جانچ کی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ،عملہ کے ذریعہ نمونہ پکڑنے اوراس کے سامنے رہنے کے وقت میں بھی تخفیف کرنے پر غور کررہے ہیں۔ہم اپنے آلہ پر وائیرس اور بیکٹیریا مخالف تہہ بھی لگا رہے ہیں تاکہ انفیکشن کے پھیلنے کا  خدشہ کم سے کم ہو۔ ہم نے اپنے دفتر میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں ۔ ان میں ملازمین کے درمیان کم سے کم تفاعل بھی شامل ہے۔ تمام لوگ جسمانی فاصلہ رکھتے ہیں ، ہاتھ میں دستانے پہنتے ہیں اور این ۹۵ ماسک کا استعمال کرتے ہیں۔ ملازمین کسی سطح کو چھونے کے بعد سینی ٹائزر کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔

نئی دہلی کےا میریکن سینٹر میں  واقع نیکسَس انکیوبیٹر اسٹارٹ اپ ہب میں کام کرنے کا آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

نیکسَس ٹیم کے ساتھ کام کرنا انتہائی خوش گوار رہا۔میں نے تجارت اور  بازارکاری کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ امریکی اساتذہ نے کافی مفید درس دیےجن سے مجھے تجارت کے متعلق اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ اساتذہ نے بازارکاری کے تصورات کو بالکل نئے ڈھنگ سے سمجھایا جو بالکل مختلف اور اختراعی تھے۔

پہلے پہل اس مضمون کی اشاعت ستمبر ۲۰۲۰ میں عمل میں آئی۔


تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے