دنیا کو ایک لڑی میں پروتی موسیقی

امریکی محکمہ خارجہ کی کفالت کی بدولت مختلف ملکوں کے دوروں کے ذریعہ موسیقاروں کے طائفے کی قیادت کرتے ہوئے اری رولینڈ موسیقی کا استعمال بین الاقوامی سطح پر افہام و تفہیم کے لیے کررہے ہیں۔

مائیکل گیلنٹ

January 2019

دنیا کو ایک لڑی میں پروتی موسیقی

دی اری رولینڈ جاز کوارٹیٹ ۲۰۱۸ء میں ممبئی میں منعقد این سی پی اے انٹرنیشنل جاز فیسٹیول میں اپنے فن کا کمال دکھاتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ امریکی قونصل خانہ، ممبئی)

اری رولینڈ جب کوئی سُر اٹھاتے ہیں تو عام طور سے وہ سُروں کی خوش آہنگ ترتیب ہوتی ہے اور ڈزی گیلیسپی ، چارلی پارکر جونیر، لوئی آرم اسٹرانگ اور امیریکن جاز کے دیگر معروف فنکاروں سے متاثر انتہائی خوبصورت دھنیں ہوتی ہیں۔ایک حالیہ دورے میں رولینڈ نے اپنی فن شناسی کا استعمال صرف امریکی موسیقی کی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے ہی نہیں کیا بلکہ بھارت کی موسیقی کی روایتوں کے فروغ کے لیے بھی کیا ۔

رولینڈ نے اپنے ہفتوں طویل دورے میں کولکاتہ، ممبئی اور حیدر آباد تک منفرد اور بہتر موسیقی پہنچانے کے لیے ۲۰۱۷ ءکے اواخر میں سیکسو فون بجانے والے زائد ناصر ، گٹار نواز پاسکو الے گراسو اور طبلہ نواز کیتھ بالا کے ساتھ مل کر ایک جماعت بنائی ۔ مختلف اقسام کے نہایت مسرور ناظرین کے لیے اپنا پروگرام پیش کرنے کی خاطر جاز کے یہ چاروں فنکار کافی مصروف رہے ۔ وہ راتوں میں زبردست محفل موسیقی کا اہتمام کرتے، دن میں طلبہ کے لیے تعلیمی ورکشاپ میں شرکت کرتے اور درمیانی وقفے میں ریڈیو اور ٹی وی نشریات میں بھی حصہ لیتے۔

رولینڈ اس طرح کے شائقین سے پُر بین الاقوامی پروگراموں میں شرکت کرنے کے مواقع سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس کا اہتمام امریکی محکمہ خارجہ کرتا ہے ۔ اس کا انعقاد ثقافتی تبادلے اور بین الاقوامی دوستی کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار ۲۰۰۷ء میں امریکی  محکمہ خارجہ کے پروگرام دی رِدم روڈ میں حصہ لیا تھا اور شام اور قبرص جیسے ملکوں میں ۴ ماہ تک ہر برس اپنے پروگرام پیش کیے تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ انہوں نے اب تک بین الاقوامی سطح پر موسیقی کی سفارت کاری کے قریب قریب  ۱۳۵ پروگراموں میں شرکت کی ہے۔ ان کاارادہ اسے مزید توسیع دینے کا ہے۔

نیو یارک سٹی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے رولینڈ کہتے ہیں ’’ امریکی محکمہ خارجہ کی ایما پر بھارت جیسے ملک کا دورہ کرنا دم بخود کر دینے والا تجربہ ہے۔ کھربوں برس میں آپ کواس قسم کے مختلف لوگوں یعنی عام ناظرین اور ہر عمر کے طلبہ گروپوں سے لے کر یتیم خانوں اور اسپتالوں کے بچوں اور امریکی اور بین الاقوامی سفارتی اداروں کے ارکان کے علاوہ دیگر لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور موسیقی کے اشتراک کا موقع ملتا ہے۔کسی دیہی شہر کے چوراہے پرپروگرام منعقد کرنا اور اور ایسے لوگوں کے لیے موسیقی پیش کرنا جنہوں نے کبھی جازنہ سنا ہو ،خواہ وہ بھارت میں ہو یا ترکمانستان میں، ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔‘‘

رولینڈ کے ۲۰۱۷ ءکے بھارت دورے کی ایک منفرد خاصیت مغربی بنگال کے باؤل(ایسے موسیقاروں سے اشتراک کرنا جو روایتی عوامی موسیقی کی ایک صنف کی مشق کرتے ہیں جو رولینڈ کے مطابق کافی دلفریب ہے) سے اشتراک کرنا تھا ۔وہ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ” ان لوگوں کے ساتھ پروگرام پیش کرکے ایسا لگ رہا تھا گویا ہم موسیقار کے طور پر یہ دکھانے کی کوشش نہیں کر رہے تھے کہ ہم لوگ کتنے اچھے ہیں بلکہ اس کا اہتمام فنکاروں ، ناظرین اور امید افزا طور پر پوری دنیا کو خدا اور اس کی تمام تجلّیات کے ایک جشن کے تحت لانے کے لیے کیا جا رہا ہو۔ میں ایک مادّہ پرست انسان ہوں لیکن میں اس خیال کو اپنے ذہن میں جگہ دیتا ہوں اور اس کی ستائش بھی کرتا ہوں ۔ نیویارک میٹس کولکاتہ نام کی یہ محفل ِ موسیقی ہند۔امریکی ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کی کولکاتہ قونصل خانہ کی جانب سے کی گئی پہل کا ایک حصہ تھی۔‘‘

رولیند باؤل موسیقی (جس کا انہوں نے تجربہ کیا تھا)اور گوسپیل سے بلیوز تک امریکی طرزوں کے درمیان راست یکسانیت دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ” اب تک کے سب سے بڑے بلیوز موسیقاروں میں سے ایک مَڈی واٹرس کہا کرتے تھے کہ جب آپ گاتے ہیں تو کبھی کبھی یہ لہر آپ کو اوپر لے جاتی ہے اور آپ اس میں گم ہوجاتے ہیں۔ ہم لوگ گرچہ باﺅل ٹیموں کے ساتھ مختلف دھنیں اور طرز بجا رہے تھے لیکن یہ احساس وہا ں بھی باقی تھا۔‘‘

باﺅل ٹیموں کے ساتھ کہیں بھی پروگرام منعقد کرتے ہوئے رولینڈ نے اپنے آبائی وطن کے جاز کو پیش کرنے کی کوشش تو کی ہی ، ساتھ ہی اس علاقے کی موسیقی کو بھی پیش کرنے کی کوشش کی جہاں کا انہوں نے دورہ کیا ۔ وہ کہتے ہیں ”ہم لوگ ہمیشہ سے مقامی موسیقی سیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں کہیں بھی ہم پروگرام پیش کرتے ہیں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے نغموں کا کم از کم ایک تہائی حصہ نغمگی سے پُر ہو تاکہ ناظرین کا ہر طبقہ (چھوٹے بچوں سے لے کر دادی اور نانی تک)اسے جانے اور پہچانے۔ہم اس بات کی نقل کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ مقامی موسیقارانہیں کیسے ادا کرتے ہیں بلکہ ہم ایمانداری کے ساتھ ان کے مترنم نغموں کو پیش کرنے اور پھر اس کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح ہم نے حیرت انگیز موسیقی کی بہت ساری طرزوں کو سیکھا۔‘‘

رولینڈ کے دوروں میں ثقافتی تبادلے صرف پارکوں میں مخصوص چبوتروں پر پروگرام پیش کرنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ روز مرّہ کی زندگی میں بھی شامل ہیں۔ ۲۰۱۷ ءکے دورے کا حصہ رہ چکے ناصر کہتے ہیں ”مجھے بنگال میں ایک گاﺅں کا دورہ یاد ہے۔ وہ دورہ ناقابل یقین تھا۔ایک جگہ ہم لوگ جنگل میں ایک تنگ اور کچی سڑک پر تھے۔ ہم نے لڑکیوں کے ایک اسکول میں اپنا پروگرام بھی پیش کیا۔ وہ لوگ کافی پرجوش تھے۔ پھرہم نے وہاں بھر پیٹ کھانا کھایا اور پھر ان لڑکیوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلا۔ وہ دن واقعی ہم لوگوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔‘‘

بھارت کے ایک دورے میں اس سے پہلے رولینڈ کے ساتھ رہ چکے سیکسو فون بجانے والے کِرس بائرس نے راجستھان کے موسیقار گروپ بارمیر بوائز (جنہیں وہ اپنی موسیقی کے لیے حقیقی طور پر متاثر کن اور پُر جوش قرار دیتے ہیں )کے ساتھ تعاو ن میں اضافے کے لیے اشتراک کو بس ایک آغاز قرار دیا۔بائرس کولکاتہ میں میوزیم اور مقبرے، نئی دہلی میں لال قلعہ اور آگرہ میں تاج محل کے دوروں کے اپنے حیران کن تجربات کو یاد کرتے ہیں۔انہوں نے مقامی لائیو ریڈیوپروگرام میں شرکت سے بھی لطف اٹھایا جس کے دوران موسیقی کے اس طائفے کو تمام بھارت سے پیغامات موصول ہوئے۔

بھارت  میں اپنے تمام دوروں کے ذریعے رولینڈنے مقامی موسیقاروں کے ساتھ اپنے اشتراک کو صرف ثقافتی اور ذاتی سطح پر ہی بہت زیادہ فائدہ مند نہیں پایا بلکہ موسیقی کی سطح پر بھی اس سے ان کو فائدہ ملا۔ وہ بتاتے ہیں ”بھارت کے ایک دورے میں جس گروپ کے ساتھ میں تھا، اس نے کرناٹک موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ اس نے ہمیں بہت سارے راگ سکھائے۔ان راگوں کے ساتھ پروگرام پیش کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا لیکن جب اس کا وقت آیا تو میری کارکردگی بہت شاندار رہی اور مجھے دیگر موسیقاروں اور ناظرین سے ملنے والا رد عمل بہت اچھا رہا ۔‘‘

رولینڈ بتاتے ہیں کہ جب وہ اس پیشے میں بالکل نئے تھے اس وقت بھی وہ موسیقی کی اس خصوصی طرز کو پورے جذبے اور احساس کے ساتھ ادا کر سکتے تھے۔ اور یہ اس کے ضوابط اور رویات کے دائرے ہی میں رہتا تھا۔ وہ کہتے ہیں ”یہ کافی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جسے صرف موسیقی ہی انجام دے سکتی ہے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے