کامیابی کی کنجیاں

درست منصوبہ بندی اور تحقیق کے ساتھ امریکی ڈگری حاصل کرنے کا سفر ایک سود مند تجربہ ثابت ہوسکتا ہے۔

پارومیتا پین

April 2022

کامیابی کی کنجیاں

آدتیہ سری نواسن (بائیں) نے ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ٹیمپے کیمپس سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹرس ڈگری لی ہے۔ ان کا اسپیشلائزیشن توانائی اور نظامِ توانائی ہے۔ آدتیہ رام شنکر(دائیں) نے ایتھینس میں واقع یونیورسٹی آف جارجیا سے مصنوعی ذہانت میں ماسٹرس ڈگری لی۔

امریکی یونیورسٹی میں درخواست دینا، تعلیمی خرچ کا نظم کرنا، ویزا کے عمل کے لیے راہ تلاش کرنا اور گھر سے دور نئی زندگی بسانا بہت سے لوگوں کے لیے ایک مشکل عمل ہے۔ لیکن درست منصوبہ بندی اور تحقیق کے ساتھ یہ سفر دلچسپ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سابق طلبہ کے مضبوط نیٹ ورک اور طبقاتی حمایت سے امریکی یونیورسٹی کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے میں طلبہ کو مدد مل سکتی ہے۔

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ٹیمپی کیمپس سے ’ پاور اینڈ انرجی سسٹمس‘ میں الیکڑیکل انجینئرنگ میں ماسٹرس کرنے والے آدتیہ سرینواسن کہتے ہیں ’’اپنی یونیورسٹی چننے کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے میرے لیے ان اداروں کو دیکھنا ضروری تھا جہاں ان مضامین میں اسپیشلائزیشن دستیاب تھا جن کی مجھے تلاش تھی۔ میں نے ان شعبوں پر نظر ڈالی جن پر پروفیسران تحقیق کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے بجلی اور توانائی کے شعبوں میں دستیاب کورس کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے کم فیس کی وجہ سے نجی یونیورسٹیوں پر سرکاری یونیورسٹیوں کو ترجیح دی۔ آدتیہ مزید کہتے ہیں’’میں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ کسی یونیورسٹی کے سابق طلبہ کی گریجویشن کے بعد کارکردگی کیسی رہی ہے۔ آدتیہ سری نواسن فی الحال چنئی میں ایکسینچر کمپنی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ‘‘

ریاست جارجیا کے شہر ایتھنس میں واقع یونیورسٹی آف جارجیا سے مصنوعی ذہانت میں ماسٹر س ڈگری حاصل کرنے والے آدتیہ رام شنکر نے وہاں کے کورس اور تحقیقی سہولیات کے بارے میں سب سے پہلے معلومات حاصل کیں۔ ریاست ورجینیا میں ابھی اوریکل کمپنی میں کام کرنے والے شنکر بتاتے ہیں ’’ اس کے بعد میں نے کریئر کے مواقع، ٹیوشن اور فیس، رہنے سہنے کا خرچ، موسم جیسے متعدد زمروں میں ان سب کی درجہ بندی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ذاتی پسند اور رہائشی کیفیات جیسے معیاری اقدامات پر بھی توجہ دی۔تمام عوامل کے مد نظر میں یہ سمجھنے میں کامیاب رہا کہ مجموعی طور پر بہتر انتخاب کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘

مالی امداد اور طلبہ ویزے
داخلہ سے متعلق درخواستوں کو جمع کرنے کے بعد متوقع طالب علم کا بنیا دی کام تعلیم پر آنے والے خرچ کا نظم کرنا ہوتا ہے۔شنکر اور آدتیہ سرینواسن دونوں اس بات کی پرزور سفارش کرتے ہیں کہ درخواست گزاروں کو ممکنہ طور پر قرض کے حصول جیسے تعلیمی خرچ کی تکمیل کی متبادل صورتوں کے بارے میں پہلے ہی سے غور و خوض شروع کر دینا چاہیے۔ آدتیہ سری نواسن کہتے ہیں ’’تعلیمی قرضوں کا انتظام کسی ایسے طالب علم کے لیے ایک اہم کام ہے جو مالی امداد چاہتا ہے۔میں نے شرح سود کا موازنہ کرنے کے لیے مختلف بینکوں سے رابطہ کیا اور اپنی کاغذی کارروائی مکمل کر لی۔ قرض کی منظوری کا عمل طویل ہوسکتا ہے ،لہذا منصوبہ بندی کرتے وقت اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ‘‘

شنکر نے تعلیمی اداروں سے داخلہ عرضی کی منظوری کے خطوط آنے سے پہلے ہی قرضوں اور وظیفوں کے متبادل پر تحقیق شروع کردی تھی۔ وہ بتاتے ہیں ’’چونکہ فیس کے لیے رقم حاصل کرنے کا میرا بنیادی ذریعہ تعلیمی قرض ہی تھا، لہذا میں نے بہترین پیشکشوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی۔ اس کے ساتھ ہی میں ان یونیورسٹیوں کے اندرہی اسکالرشپ کے متبادل پر بھی غور کر رہا تھا جہاں میں نے درخواست دی تھی۔ اس کے علاوہ میں بیرونی ذرائع پر بھی توجہ مرکوز کر رہا تھا۔ جب یہ عمل جاری تھا اسی وقت داخلہ عرضی کے نتائج آنے شروع ہو گئے تھے۔‘‘

جب شنکر کے منظوری کے خطوط آگئے تو وہ وقت آچکا تھا کہ ویزا کے لیے درخواست دینے کے بارے میں بھی غور و فکر شروع کیا جائے۔ آدتیہ سرینواسن کا کہنا ہے کہ ویزا کا عمل اور کاغذی کارروائی طویل اور مشکل ہوسکتی ہے ’’لیکن اگر ہم انہیں ماڈیول کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیں تو آہستہ آہستہ لیکن باقاعدہ طور پراس عمل کو مکمل کر سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی ملاقات کا وقت پہلے ہی طے کر لیا تھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آخری لمحات میں کوئی پریشانی نہ ہو۔

رقم کی فراہمی اور طلبہ کے ویزا کے عمل کے ساتھ ساتھ آدتیہ سری نواسن نے اپنی درخواستیں جمع کرانے کے بعد اپنے مطالعے کے شعبے میں بنیادی باتوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا ہے ’’میں نے ایک بنیادی دستاویز بنائی جس میں پروفیسروں، موجودہ اور سابق طالب علموں کی تجویز کردہ مختلف کتابوں اور شرطوں کی فہرست بنائی۔ جیسے جیسے میں ان کی تکمیل کرتا گیا میں فہرست میں ان پر نشان لگاتا گیا۔ ماسٹر س پروگرام کے لیے تیزی سے مطابقت پیدا کرنے کی راہ میں یہ ایک اہم قدم ہے۔‘‘

سکھانے والے تجربات
امریکی یونیورسٹی کیمپس میں جب بین الاقوامی طلبہ پہنچتے ہیں تو بہت سے نئے تجربات ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ شنکر کا کہنا ہے ’’سب سے بڑا فرق جو میں نے محسوس کیا، وہ تعلیم کے شعبے میں تھا۔ بھارت میں نظریہ پر زور دینے کے برعکس یہاں یہ بنیادی طور پرعلم کے اطلاق پر مبنی تھا ۔‘‘ آدتیہ سرینواسن اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکی نظام تعلیم مسلسل طلبہ کا تعین قدر کرتا ہے اور اس کا جائزہ لیتا ہے جبکہ بھارتی نظام تعلیم کے تعلق سے ان کا تجربہ تھا کہ یہاں ’’ اختتامی سمسٹرس یا فائنلز میں بہت زیادہ دباؤ رہتا ہے۔‘‘ انہیں پسند آیا کہ انہیں کس طرح باقاعدگی سے ہوم ورک اور پروجیکٹ دیے جاتےرہے جو پروفیسروں کے لیکچرس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ وہ کہتے ہیں’’اس سے ایک مدت کے دوران علم کو مستقل طور پر استوار کرنے میں مدد ملی۔ ایک خاص شعبے کے اندر اسپیشلائزیشن پر بہت زور دیا گیا ۔جب کہ بھارت میں خاص طور پر انڈر گریجویٹ کے دنوں میں ہمیں وسیع تر شعبوں سے روشناس کرا ئے جانے کا چلن تھا۔‘‘

پروفیسروں کے ساتھ دفتری اوقات کا تصور امریکی اعلیٰ تعلیم کی ایک اور نئی جہت ہے۔ طلبہ اس دوران پروفیسروں سے ملاقات کر سکتے ہیں اور اپنے تعلیمی سوالوں کا جواب پا سکتے ہیں۔ آدتیہ سرینواسن کا کہنا ہے ’’آپ کلاس میں سکھائے جانے والے تصورات کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اشتراک کر سکتے ہیں۔ مطالعے کے دوران طلبہ کو اچھا عملی تجربہ اور رہنمائی ملتی ہے۔‘‘

کیمپس کی زندگی
متحرک یونیورسٹی کیمپس عمیق مطالعہ کے اوقات کے بعد آپ کے لیے فرحت بخش وقفہ پیش کر سکتا ہے جیسا کہ سرینواسن محسوس کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں’’کھیلوں کی سہولیات حیرت انگیز تھیں اور ہم شام کا نصف حصہ ٹینس اور کرکٹ جیسے مختلف کھیل کھیلتے ہوئے میدانوں میں گزارتے تھے۔‘‘ وہاں رہنے سہنے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس اینڈ اسکالر سینٹر میں جزوقتی طور پرخدمات انجام دیں جہاں انہوں نے مختلف ممالک سے بہت سارے دوست بنائے۔ وہ بتاتے ہیں ’’میں اب بھی ان میں سے بہت سے لوگوں کے رابطے میں ہوں۔‘‘

شنکر کا کہنا ہے ’’کالج ٹاؤن ہونے کی وجہ سے ایتھنس طلبہ سے بھرا ہوا کرتا تھا اور اس کا ماحول بھی بہت حوصلہ افزا تھا۔‘‘ جب شنکر کو گھر کی یاد آتی تھی تو وہ اپنے علاقے کی قربت محسوس کرنے کے لیے یونیورسٹی میں انڈیا ایسوسی ایشن کا سہارا لیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’ میں خاص طور پر تہواروں کے موسموں میں اپنی بھارتی ثقافت اور روایات سے محروم رہا کرتا تھا، حالانکہ یو جی اے میں انڈین اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن نے ہمیں گھرجیسا احساس دلانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔‘‘

انٹرن شپ اور او پی ٹی
آدتیہ سرینواسن نے جہاں اپنی انٹرن شپ کے لیے کیمپس میں رہنے کا فیصلہ کیا تو وہیں شنکر نے انٹرن شپ اور ملازمت کی تلاش کے لیے یونیورسٹی کریئر سینٹر کا اچھا استعمال کیا۔ شنکر کا کہنا ہے کہ جو طلبہ صنعتی دنیا کی انٹرن شپ کو اپنی پہنچ سے باہر پاتے ہیں ، ان کے لیے کیمپس اس خلا کو پُر کرتا ہے اور تجربے میں اضافے کے لیے کافی مواقع فراہم کرتا ہے۔ شنکر نے ان کمپنیوں کو اور دستیاب مواقع کی فہرست بندی کرنے کے لیے کئی دن پہلے ہی روز گار فراہمی کے لیے منعقد کیے جانے والے میلوں میں شرکت کی تیاری بھی کر لی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ میلے میں وہ کن کمپنیوں کے نمائندوں سے بات کریں گے۔

آدتیہ سرینواسن کہتے ہیں ’’انٹرن شپ کل وقتی ملازمت کے لیے مواقع کی افراط فراہم کرتاہے لیکن تحقیق کا تجربہ آپ کے پروفائل کو وزن دار بناتا ہے۔ ‘‘وہ طلبہ پر اختیاری عملی تربیت (او پی ٹی) اور نصابی عملی تربیت (سی پی ٹی) جیسی اصطلاحات اور ان سے وابستہ قواعد کے بارے میں اچھی طرح پڑھنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’براہ کرم تصدیق شدہ ذرائع جیسے امریکی امیگریشن ویب سائٹ یا یونیورسٹی امیگریشن صفحات کو کھنگھالیں۔‘‘

شنکر پہلے سمسٹر سے ہی یونیورسٹی کریئر سینٹر کے ساتھ کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’تعلیم کے ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ملازمت کی تلاش کے عمل کو سمجھیں اور اسے اپنائیں۔‘‘

بیش قیمتی مہارتیں

امریکی اعلیٰ تعلیم کی اس کے علاوہ اور بہت سی دیگر قابل ذکر خصوصیات نے ہزاروں گریجویٹس کو بامعنی زندگیاں اور کریئر بنانے کا اختیار فراہم کیا ہے۔ شنکر کہتے ہیں ’’اس نے اب تک میرے کریئر کو بہتر طریقے سے رفتار دینے میں نمایاں مدد کی ہے۔ میں نے یونیورسٹی کے پروفیسروں اور شریک طلبہ کے ساتھ کس طرح بات چیت کی اور آج میں ساتھیوں کے ساتھ کس طرح کام کرتا ہوں اس میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ اس سے مجھے ایک فرد کی حیثیت سے زیادہ باخبر فیصلے کرنے، زیادہ ذمہ دار بننے اور وقت کا بہتر انتظام کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ ‘‘

آدتیہ سرینواسن نے گرچہ قریب قریب ایک دہائی قبل ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ٹیمپی کیمپس سے گریجویشن کیا تھا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پروفیسروں کے ذریعہ گوش گزار کیے جانے والے تصورات
اب بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنے روزمرہ کے کام میں استعمال کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں’’امریکی تعلیم نے میری پیشہ ورانہ زندگی کے لیے مزید گہرائی اور ڈھانچہ جاتی فکر و خیال پیدا کیا ہے۔ اس سے مجھے ان گاہکوں کے لیے کسی بھی مسئلے کی جڑ تک پہنچنے میں مدد ملی ہے جن کے لیے میں کارپوریٹ دنیا میں خدمات انجام دیتا ہوں۔ میں امریکی تعلیم اور کارپوریٹ تجربے کا بہت مقروض ہوں کیونکہ ان سے مجھے اپنی موجودہ زندگی میں ایک شناخت ملی ہے۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے