اپنے حجم کے باوجود ایک چھوٹے لبرل آرٹس کالج کا تجربہ طلبہ کے لیے اکثر وبیشتر دائمی ہو سکتا ہے۔
July 2019
ریڈ کالج، جہاں سے ۴۰ مضامین میں میجر کیا جا سکتا ہے اور دیگر پروگراموں میں بیچلر آف آرٹس ڈگریاں لی جا سکتی ہیں۔ تصویر از ڈاکٹربرٹونی، بشکریہ فلکر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈر گریجویٹ تعلیم پر زور دینے اور لبرل آرٹس کے تئیں عہد بستگی سے حوصلہ افزا چھوٹے لبرل آرٹس کالج امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی نظام میں پروان چڑھے ایک منفرد ادارہ جاتی نمونے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس نمونے کی برآمدگی اب عالمی سطح پر بھی کی جاتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ وہ ایسی کون سی ہنر مندیاں ہیں جن سے یہ کالج اپنے طلبہ کو نوازتے ہیں جنہیں طلبہ اپنے ساتھ دنیابھر میں لے جاتے ہیں ۔ ان ہنرمندیوں کے غیر مادّی ہونے کی وجہ سے ان کی نشاندہی کرنا مشکل ہو سکتا ہے مگر زیادہ تر طلبہ کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں میں کالج تعلیم کے دوران جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ اسے چھوٹے لبرل آرٹس کالجوں میں اپنی انڈر گریجویٹ تعلیم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
اخلاقی طور پر لبرل آرٹس کا، زیادہ تر سابق طلبہ کے لئے ، شایدیہی اہم ترین روشن پہلو ہے۔مثال کے طور پر ایپل اِنک کے شریک بانی اسٹیو جابس کو لیں۔ انہوں نے صرف ایک سمسٹر کے لیے اوریگان میں واقع ریڈ کالج میںتعلیم حاصل کی لیکن اپنے کرئیر کے اخیر تک وہ اپنے مشن کی رہنمائی کرنے میں اس کے فوائد کی مسلسل ستائش کرتے رہے۔ انہوں نے لبرل آرٹس اور ہیومینیٹیز(وہ شاخِ علمی جس میں انسانی تہذیب و تمدن کی پڑھائی ہوتی ہے۔اس میں قدیم و جدید زبانیں، ادب، فلسفہ، مذہب، بصری اور پرفارمنگ آرٹس وغیرہ مضامین بھی شامل ہوتے ہیں) کے ساتھ تکنیک کے امتزاج کی بھرپور حمایت کی ۔ اور پہلےمیکنٹوش کمپیوٹر کی خوبصورت چھپائی کی تحریک کا کریڈٹ ریڈ کالج کی خطاطی کی کلاس کو دیا۔
میں نے جابس کے قریب قریب ۴ دہائیوں بعد سنہ ۲۰۱۴ ءمیں اس کالج سے گریجویشن کیا ۔ میرے لیے اب تک کا اہم ترین نتیجہ میری پیشہ ورانہ اور علمی زندگی میں یہ رہا ہے کہ میں نے متعدد امکانات کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات اور میدان ِ عمل میں علم کی ستائش اور اس کے تئیں حقیقی جستجو میرے اندر پیدا ہوئی ہے۔ ۱۹۸۰ ءبیچ کی میرا کامدار جنہوں نے صحافت اور پالیسی سازی میں ایک ممتاز کریئر بنایا ہے اسی جذبے کا اظہار کرتی ہیں ۔ وہ مزید کہتی ہیں ” جب میں نے فرانسیسی زبان میں ریڈ کالج سے گریجویشن کیا تو میں نے سوچا کہ پی ایچ ڈی اور تعلیمی میدان کریئر کے اعتبار سے میرا اگلا فطری قدم ہوگا ۔ مگر تب سے میری سوچ تبدیل ہوئی اور میں نے مختلف سمتوں اور جہات میں کام کرنا شروع کیا ۔ میں نے انڈیا کے بارے میں لکھنا اور تحقیق کرنا شروع کیا ۔ لبرل آرٹس کی تعلیم کی وجہ سے جو میری بنیاد مضبوط ہوئی ، یہ اسی کا صلہ ہے کہ میں مختلف صورت حال میں خود کو برقرار رکھ سکی۔‘‘
یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے تعلیمی اہداف کی پیروی کی ، چھوٹے لبرل آرٹس کالج میں بھی پڑھنے کا ان کا تجربہ شاندار رہا۔ ۲۰۱۵ ءمیں علم الحیات میں میجر کرنے والے جیسون سوئنڈر مین اب سان فرانسسکو کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں میڈیسین میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ گرچہ لبرل آرٹس کو اکثر و بیشتر ہیومینٹیز تک ہی محدود مانا جاتا ہے مگر جیسون کے لیے وہ سائنس کی تعلیم تھی جو قابل ذکر رہی۔ وہ کہتے ہیں ”ایک گریجویٹ کی حیثیت سے لیب اور کلاس روم میں سائنسی تحقیق کی ملکیت حاصل کرنا حیرت انگیز تھا ۔ اور دیگر تعلیمی نظاموں میں سائنس کے شعبے میں اس قسم کی تاکید کا پایا جانا مشکل ہے۔‘‘
ان کالجوں کا ایک دیگر امتیازی پہلو کمیونٹی کا احساس ہے اور کمیونٹی کی تعمیر کے تئیں عہد بستگی ہے۔ میرا ساوارا ۱۹۶۰ ءکی دہائی میں انڈیا سے ریڈ کالج گئیں ۔ وہاں سے تعلیم حاصل کرکے واپس آنے کے بعد وہ تحریک نسواں کی لیڈر بن گئیں ۔ وہاں گزارے گئے اپنے وقت کو یادگار بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ویتنام کی جنگ کی مخالفت میں مظاہروں میں شامل ہوئیں جس سے انہیں تحریک کے انعقاد اور سرگرمی کا پہلا تجربہ ہوا۔وہاں کالج کیمپس مقامی ، قومی ، عالمی اور یہاں تک کہ کالج کے لیے خصوصی طور پر کاموں کے تئیں عہد بستگی کو فروغ دیتے ہیں۔ اس سے طلبہ کو اپنے طبقے کی جانب سے کام کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ طلبہ کے لیے کام کرنے والے اداروں کے چھوٹے ہونے کو اکثر و بیشتر ایک محدود عامل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے مگر سومودھو جے سنگھے کے نزدیک یہ واقعی وہی یاد ہے جو ان کا سرمایہ ہے۔
نیویارک میں واقع سارہ لارینس کالج کی ۲۰۱۳ بیچ کی طالبہ جے سنگھے کہتی ہیں ” کالج آپ کو سکھاتا ہے کہ آپ خواہ کہیں بھی جائیں ، اپنی کمیونٹی کی تلاش اور اس کی تعمیر اہمیت کی حامل شئے ہے۔ یہ تعلیم وہاں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے جہاں کیمپس بڑا ہو اور گمنامی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔‘‘
امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی منظرنامہ میں چھوٹے لبرل آرٹس کالج صرف ایک فی صد انڈر گریجویٹ طلبہ آبادی کے لیے ہو سکتے ہیں مگر اس ایک فی صد آبادی کے لیے یہاں کا تعلیمی تجربہ زندگی بھر کے لیے ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَرچِت گُہا نئی دہلی میں واقع امریکہ ۔ ہند تعلیمی فاؤنڈیشن میں ایجوکیشن یو ایس اے صلاح کار ہیں۔
تبصرہ