قیادت کے اسباق

گاندھی ۔کنگ فیلوشپ بھارت اور امریکہ کے ۲۰ نوجوان شہری رہنماؤں کو مثالی قیادت کا نمونہ بننے کی خاطر یکجا کرتا ہے۔

چاروی اروڑا

February 2023

قیادت کے اسباق

گاندھی۔کنگ اسکالرلی ایکسچینج انیشی ایٹو میں شرکت کرنے والے نوجوان قائدین۔(تصویر بشکریہ ڈیمیٹریس بارکسڈیل)

مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی وراثتوں  سے کسبِ فیض  کئی طور پر کیا جاسکتا ہے۔ گرچہ  دونوں رہنما ؤں کا تعلق دو مختلف پس منظر سے تھا مگر پھر بھی انصاف اور مساوات کے لیے ۲۰ ویں صدی کی یادگار جدوجہد کو استحکام بخشنے میں ان کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔

امریکہ اور بھارت  کے نوجوان رہنماؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جُل کر شہری حقوق، سماجی انصاف اور شمولیت کو آگے بڑھانے کی ترغیب دینے کے مقصد سے امریکی محکمہ خارجہ نے جون ۲۰۲۲ ءمیں گاندھی ۔کنگ اسکالرلی ایکسچینج انیشی ایٹو نامی تبادلہ پروگرام کا آغاز کیا۔

ایکسچینج پروگرام بھارت اور امریکہ کے ۲۰ ابھرتے ہوئے نوجوان رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم عطا کر تا ہے تاکہ  وہ گاندھی اور کنگ کی تاریخ اور وراثتوں کی جستجو سے قائدانہ صلاحیتوں کی تعمیر کر سکیں۔

پہلا تبادلہ ایک ہفتے کے ورچوئل پروگرام و اورینٹیشن اور پھر الاباما اے اینڈ ایم  یونیورسٹی اور الاباما یونیورسٹی میں دو ہفتے کی اکیڈمک ریزیڈنسی کے ساتھ شروع ہوا۔ شرکا نے گاندھی سے متاثر شہری تحریکوں پر توجہ مرکوز کرنے والے دو ہفتے کے تجرباتی آموزش پروگرام کے لیے جنوری ۲۰۲۲ ءمیں بھارت میں دوبارہ ملاقات کی۔

شرکا نے ان جگہوں، طبقات اور تنظیموں کا دورہ کیا جنہوں نے اپنا تعلیمی نصاب امن، عدم تشدد اور تنازعات کے تصفیے پر مرکوز رکھا ہے۔

گروپ  کے اراکین نے مقررین کے ساتھ وابستگی اختیار کی ، تاریخی مقامات اور عجائب گھروں کا دورہ کیا اور قائدانہ صلاحیتوں کی تربیت اور آرٹ اَیپلی کیشنس میں حصہ لیا ۔ انہوں نے گاندھی کے ذریعہ قائم کردہ گجرات ودیا پیٹھ یونیورسٹی میں طلبہ سے ملاقات کی اور ان سے بات چیت کی۔ اس دورے نے انہیں طلبہ سے براہ راست گاندھیائی اقدار کے بارے میں مزید سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔

ساتھ ہیں تو بہتر ہیں

تمل ناڈو کی  ماہر نفسیات آرتی  راجارام اس تبادلہ پروگرام کو ایک ’’چشم کشا تجربہ‘‘ قرار دیتی  ہیں۔ امن، عدم تشدد اور تنازعات کے تصفیہ کے موضوعات کی دریافت کرتے ہوئے راجارام کہتی ہیں’’تبادلے نے دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان زیادہ مثبت اور تعاون پر مبنی رشتوں کو فروغ دیا ہے جو عظیم تر افہام و تفہیم، تعاون اور باہمی فائدے کا باعث بنتے ہیں۔‘‘

الاباما یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ڈیمیٹریس بارکسڈیل کہتے ہیں ’’اس تبادلے سے میرا سب سے بڑا فائدہ  اس بات کی تفہیم ہے کہ ایک دوسرے سے آٹھ ہزار میل سے بھی زیادہ کے فاصلے پر ہونے کے باوجود ہم بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ہر ثقافتی فرق کے ساتھ میں نے بہت سی ثقافتی مماثلتیں دیکھی ہیں۔ افریقی امریکی ہمارے بھارتی بھائیوں اور بہنوں سے بہت ملتے جلتے ہیں۔‘‘

متنوع نقطہ نظر اور گاندھی ۔ کنگ اقدار کے بارے میں شرکا جو کچھ پہلے سے جانتے تھے اس پر بارکسڈیل نے کہا ’’ساتھ ہیں تو بہتر ہیں‘‘ اس تبادلہ گروپ کا منتر تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’میں نے کبھی سنا تھا کہ اگر آپ تیز گام ہونا  چاہتے ہیں تو اکیلے جائیں، لیکن اگر آپ بہت دور جانا چاہتے ہیں تو ایک ساتھ جائیں۔‘‘

ممبئی میں مقیم رائڈن جوناتھن دسا گاندھی اور کنگ کے قائدانہ انداز سے بہت متاثر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’پیار اور معافی کے متعلق ان کے خیالات نے ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے تعامل کو عملی شکل دی ہے۔ گاندھی اور کنگ  سے سیکھ کر ہم نے نفس کا محاسبہ  کیا اور اپنی ذات سے پرے سوچا۔‘‘

سفارت کاری کی تفہیم

تبادلے کی پہل نے بین الاقوامی تعلقات اور مشغولیت میں غیر معمولی بصیرت پیدا کی ہے۔ بارکسڈیل کہتے ہیں ’’اس تجربے سے پہلے سرحدوں سےپار مشغول ہونے کا خیال مشکل نظر آتا تھالیکن اب میں پہلے کی طرح احساسِ خوف میں نہیں جیتا کیونکہ میں نے اس بین الاقوامی مشغولیت سے بہت کچھ سیکھاہے ۔ تفاعل کی حیثیت کلیدی ہے، کیونکہ بہت سے سوالات اور جوابات جو کسی کے پاس ہو سکتے ہیں ان تجربات کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں جوتفاعل  کی بدولت  ہی حاصل ہوتے ہیں۔‘‘

رائڈن  کے  نزدیک ’’دونوں ممالک کے رہنماؤں کی اس مشغولیت نے باہمی تعاون کی کوششوں، سیکھنے اور ایک دوسرے کی حمایت کرنے کے مواقع کی خوبصورتی اور فوائد کو ظاہر کیا ہے۔ اس طرح نہ صرف دونوں قوموں میں بہتری آئی ہے بلکہ دوسری قوموں کے لیے اجتماعی حمایت کی روشنی کا ذریعہ بھی بنے ہیں۔‘‘

مثبت مستقبل

شرکا کے مطابق اس اقدام نے مستقبل کےکریئر کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھولے ہیں۔ بارکسڈیل کہتے ہیں ’’ایک ڈاکٹریٹ طالب علم کے طور پر میں عالمی برادریوں کے لیے صحت کے مجموعی طریقوں اور وسائل کی وکالت کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔‘‘ جبکہ راجارام کے نزدیک ثقافتی تبادلے نے ان کے نقطہ نظر کو وسیع کرنے اور دوسری ثقافتوں کی تفہیم کا ایک قیمتی موقع فراہم کیا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’سب سے بڑا فائدہ دوسروں سے سیکھنے، تبادلہ خیال  کرنے اور تنوع کے لیے گہری ستائش حاصل کرنے کا موقع تھا۔‘‘



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے