امریکہ ہر سال دنیا بھر سے بین الاقوامی طلبہ کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے۔ مگرطلبہ کے لیےبھی لازمی ہے کہ وہ حصول تعلیم کے دوران اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے تقاضوں کا خیال رکھیں۔
April 2022
اوپر اور سب سے اوپر دائیں: فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی (اوپر دائیں)بین الاقوامی طلبہ کے سامنے تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں کے متبادل پیش کرتی ہے جن میں تارکین وطن کے لیے ضوابط پر بحث بھی شامل ہوتی ہے۔ تصاویر بشکریہ فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی۔
امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا بین الاقوامی طلبہ کے لیے ایک مختلف ثقافت کے ساتھ گھلنے ملنے اور سیکھنے کے انمول تجربات حاصل کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔۲۰۲۱ء کی اوپن ڈورس رپورٹ کے مطابق، امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ۲۰۲۱۔۲۰۲۰ تعلیمی سال کے دوران نو لاکھ سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ نے داخلہ لیا، جو ان اداروں میں طلبہ کی مجموعی آبادی کے ۴ اعشاریہ ۶ فی صد کی نمائندگی کرتا ہے۔۱۶۷۵۸۲ طلبہ کے ساتھ بھارتی طلبہ اس تعداد کا تقریباً ۲۰ فی صد تھے۔
امریکہ کے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں حصول تعلیم کے لیے قبول کیے گئے طلبہ کو عام طور پر ایف ون ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ انہیں جے ون یا ایم ون ویزا بھی جاری کیا جاتا ہے مگر ایسا عام طور پر نہیں ہوتا ہے۔ ان ویزوں کا اجرا طلبہ کو کسی یونیورسیٹی، کالج یا پیشہ وارانہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے امریکہ میں قانونی طور پر موجود ہونے کااہل بناتا ہے۔
پاسپورٹ اور ویزا کے ساتھ امریکہ پہنچنےوالے بین الاقوامی طلبہ کو ۱۰ دن کے اندر اپنے تعلیمی ادارے کے بین الاقوامی طلبہ صلاح کاروں یعنی متعینہ اسکول اہلکار (ڈی ایس او ) کو رپورٹ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد سےان کی پڑھائی کے دوران قانونی حیثیت کو برقرار رکھنا کافی آسان ہے۔ تاہم، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری تقاضے پورے کیے جائیں۔
خلاف ورزیوں سے بچنا
نئی دہلی کے امریکی سفارت خانے میں کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (سی بی پی ) اتاشی آفس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے’’ امریکہ میں حصول تعلیم کا پروگرام ایک ایسا موقع ہے جس کا مقصد طالب علم کو ایک بھرپور اور فائدہ مند تجربہ فراہم کرنا ہے۔اس کے علاوہ اس کا مقصد طالب علم کو ایک امریکی یونیورسٹی کی طرف سے جاری شدہ ڈگری بھی فراہم کرنا ہے جو ایک بہتر حصولیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ پروگرام امریکہ میں حصول تعلیم کی سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ ان تمام طلبہ کے لیےآموزش، ثقافتی اور سماجی پیشکشوں کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جو پروگرام کے ارادے اور قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ طلبہ کو پروگرام کے رہنما خطوط اور ضوابط پر عمل کرنے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ محرک کی پروا کیے بغیر پروگرام سے باہر کام کرنے کا خطرہ ایک مستقل ترغیبی عمل بنا رہتا ہے۔ مگرطلبہ کو سختی سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ پروگراموں اور ان کو جاری کیے گئے ویزے کی شرائط پر عمل پیرا رہیں کیونکہ ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر عائد ہونے والے جرمانے مستقبل کے ویزوں اور امریکہ جانےکے مواقع کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘‘
قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے اہم عناصر میں سے ایک تعلیم کے مکمل کورس میں داخلہ لینا اور ڈگری کی تکمیل کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی طالب علم کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار گلوبل انگیجمنٹ کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کرسٹن ہیگن کے مطابق طلبہ اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے میں اس وقت ناکام رہتے ہیں جب وہ اپنے بین الاقوامی طلبہ صلاح کار سے پیشگی اجازت حاصل کیے بغیر تعلیم کے مکمل کورس میں داخلہ نہیں لیتے ہیں۔ طلبہ کا کلاسوں میں داخلہ ہونا ضروری ہے یا حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کلاسوں میں داخلہ نہ لینے کی پیشگی اجازت ہونی چاہیے۔اس سے فرار کی اجازت صرف سالانہ تعطیل کے دوران ہی ہے ۔
سی بی پی اتاشی آفس کا کہنا ہے کہ اس کے خیال میں ’’ ایک بین الاقوامی طالب علم کی زندگی، رہنے کی صورت حال ، امریکی ثقافت، زبان (اگرچہ یہ اب بھی انگریزی ہی ہو سکتی ہے)، خاندان اور گھر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کے ساتھ مشکل ہو سکتی ہے۔‘‘ اگر طلبہ کو اپنی پڑھائی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنے بین الاقوامی طلبہ صلاح کار سے اجازت لے کر کورس کے بوجھ میں کمی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہیگن کہتی ہیں ’’بین الاقوامی طلبہ صلاح کار اس وقت کورس کے بوجھ کو کم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے جب کسی طالب علم کے پاس ایک دستاویزی ثبوت ہو کہ اسے طبی بنیاد پر کورس میں تخفیف درکار ہےیا جب کسی طالب علم کو انگریزی زبان میں تعلیم جاری رکھنے میں ابتدائی طور پر مشکلات درپیش ہوں،یا وہ امریکہ میں تدریسی طریقوں سے ناواقف ہو یا اسے کورس کی سطح اپنی علمی سطح سے زیادہ نظر آرہی ہو۔‘‘
وہ گریڈکو بہت نیچے گرنے سے بچانے کا مشورہ بھی دیتی ہیں، کیونکہ اس سے طالب علم کی قانونی حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ اگر کسی طالب علم کے گریڈ بہت کم ہیں تو اسے پروگرام سے برخاست کیا جا سکتا ہے اور اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس سے قانونی حیثیت کا خسارہ ہوتا ہے۔‘‘
طلبہ کو ایف ون ویزا پر کیمپس میں ہفتے میں ۲۰ گھنٹوں تک اور چھٹیوں اور تعطیلات کے دوران مزید کام کرنے کی اجازت ہے۔ اگر کوئی طالب علم کیمپس میں ۲۰ گھنٹے سے زیادہ کام کرتا ہےیا اپنے بین الاقوامی طلبہ کے صلاح کار کی پیشگی اجازت کے بغیر کیمپس سے باہر کام میں مصروف رہتا ہے تو وہ اپنی قانونی حیثیت کی سنگین خلاف ورزی کرتا ہے۔ سی بی پی اتاشی آفس کے مطابق’’ جرمانوں میں ویزا کی منسوخی اور یہاں تک کہ امریکہ سے رخصتی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ خلاف ورزیوں کی صورت میں ایک ایسا طالب علم جس پر جرمانہ عائد کیا گیا ہو وہ بعد میں دوبارہ امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ تمام صورتوں میں، اور یقینی طور پر اگر طالب علم کو امریکہ میں کام کرنے کے بارے میں کوئی سوال یا شبہ ہے تو طالب علم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ متعینہ اسکول کے اہلکار سے صلاح ومشورہ کرے۔‘‘
اپنے قیام میں توسیع
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایف ون ویزا پر طلبہ ۶۰ دنوں تک اور جے ون اور ایم ون کے طلبہ ۳۰ دنوں تک قانونی طور پر امریکہ میں رہ سکتے ہیں۔ تاہم، کئی دیگرطریقوں سے گریجویشن کے بعد امریکہ میں اپنے قیام کی توسیع کرنا ممکن ہے۔
ایف ون ویزا پر طلبہ گریجویشن کے بعد اختیاری عملی تربیت (او پی ٹی ) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ہیگن کہتی ہیں ’’ جو طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں وہ او پی ٹی کے ذریعے اپنی تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے لیے ۱۲ ماہ تک ملازمت کی اجازت کے لیے امریکہ کی شہریت اور امیگریشن سروسز (یو ایس سی آئی ایس )میں درخواست دے سکتے ہیں۔‘‘
او پی ٹی کے لیے درخواست دیتے وقت طلبہ کو اپنی درخواستیں وقت پر جمع کرانی چاہئیں۔ ہیگن کہتی ہیں ’’ یو ایس سی آئی ایس میں ۶۰ دن کی رعایتی مدت کے اختتام سے قبل درخواست جمع ہو جانی چاہیے ۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’ طلبہ کو بین الاقوامی طلبہ کے صلاح کارکی سفارش کے بغیر او پی ٹی کے لیے درخواست جمع کرنے اور ایسے کام میں مشغول ہونے سے جو طالب علم کے تعلیمی پروگرام سے متعلق نہ ہو، بے روزگاری کے منظور شدہ دنوں سے زیادہ، یو ایس سی آئی ایس کی طرف سے جاری کردہ روزگار کی اجازت سے متعلق دستاویز ( اے اے ڈی) کے مطابق تاریخوں سے پہلے یا بعد میں کام کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘
طلبہ او پی ٹی کے علاوہ یا او پی ٹی کے بعد بھی دوسری ڈگری کے لیے اندراج کر کے یا ملازمت کے لیے درخواست دے کر امریکہ میں اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ سی بی پی اتاشی آفس کی وضاحت کے مطابق ’’کچھ حالات ایک طالب علم کو امریکہ میں اپنے قیام کی توسیع کی اجازت دیتے ہیں اور ان حالات میں عام طور پر دوسرے اسکول میں منتقلی، تعلیمی سطح میں تبدیلی جیسے کہ اعلیٰ ڈگری حاصل کرنا یا ایف ون یا ایم ون اسٹیٹس سے کسی دیگر ویزا درجہ بندی کے اسٹیٹس میں تبدیلی کے لیے درخواست دینا شامل ہے۔ مثال کے طور پر، ایچ۔وَن بی ( عارضی کارکن)، او (سائنس، آرٹ یا کاروبار میں غیر معمولی صلاحیت)، یا پی (ایتھلیٹ)۔ایک طالب علم جو امریکہ میں اپنے قیام کی توسیع کا خواہاں ہے، اس کے لیے پرزور سفارش کی جاتی ہے کہ وہ متعینہ اسکول اہلکار سے صلاح ومشورہ کرے تاکہ تعلیم کے ابتدائی پروگرام کی تکمیل کے بعد امریکہ میں قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے ممکنہ مواقع اور مطلوبہ اقدامات کے بارے میں وہ مزید معلومات حاصل کر سکے۔‘‘
معاون نظام
امریکہ کے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں آپ کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کا کلیدی عنصر آپ کا بین الاقوامی طلبہ صلاح کار کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے۔ ہیگن کہتی ہیں ’’یہ صلاح کار (متعینہ اسکول اہلکار)آئی ۲۰ ویزاجاری کر سکتے ہیں اور فیڈرل اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم (ایس ای وی آئی ایس ) ڈیٹا بیس میں طالب علم کے امیگریشن ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ صلاح کار بین الاقوامی طلبہ کو ان اہم ضوابط کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں جو ان کے ایف ون غیر تارک وطن حیثیت کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور وہ طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان کے ایف ون اسٹیٹس کے فوائد سے کیسے فیضیاب ہوا جائے۔‘‘
بین الاقوامی طلبہ برادری کے اندر دستیاب مواقع کا استعمال بھی انتہائی ضروری مدد فراہم کر سکتا ہے۔ ہیگن کہتی ہیں ’’ہمارا سینٹر فار گلوبل انگیجمنٹ تمام طلبہ کے لیے سال بھر مختلف قسم کے تعلیمی، سماجی اور ثقافتی پروگرام فراہم کرتا ہے۔‘‘
اس طرح کا مددگار نظام پیدا ہونے والی کسی بھی پیچیدگی سے نبردآزما ہونے میں واقعی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ ہیگن وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ ہمارے بین الاقوامی طلبہ صلاح کار اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں کہ بین الاقوامی طلبہ ایف ون اسٹوڈنٹ امیگریشن کے ضوابط کو سمجھیں، لہٰذا طلبہ امریکہ میں رہتے ہوئے قانونی حیثیت کو برقرار رکھیں۔ہم ایک آن لائن امیگریشن ماڈیول پیش کرتے ہیں، ہم اورنٹیشن کے دوران امیگریشن کے ضوابط پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ہم اپنے کیس مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے بھیجے گئے ای میل، نیوز لیٹر اور خودکار انتباہات کے ذریعے طلبہ کے ساتھ باقاعدگی کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔‘‘ اس طرح کی مدد اور مواقع کے ساتھ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا تعلیم اور مہم جوئی کے لیے ایک دلچسپ راستہ ہو سکتا ہے۔
نتاشا ملاس نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ