ہوا سے پینےکا پانی بنانا

یو ایس ایڈ اور ’میتری ایکواٹیک‘ کی جانب سے شروع کیا گیا ہوا سے پانی پیدا کرنے کا کوشک صاف پانی کے حصول کو ایک ایسا وسیلہ بناتا ہے جسے دوسروں کے ساتھ ساجھا کیا جا سکے۔

نتاشا ملاس

February 2023

ہوا سے پینےکا پانی بنانا

میتری ایکواٹیک کا ہوا سے پانی بنانے والا کوشک جسے آندھر پردیش کے ایک ریلوے اسٹیشن پر نصب کیا گیا ہے۔(تصویر بشکریہ میتری ایکواٹیک)

پینے کے صاف پانی تک رسائی صحت عامہ کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ اس سے متعدی بیماریوں کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پیداواری صلاحیت بھی بہتر کی جا سکتی ہے اور کمیونٹی کی معاشی نمو میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ لوگوں کو پانی حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں صرف نہیں کرنے پڑیں گے۔ تاہم ، یہ بنیادی ضرورت بھی اب بہت سے لوگوں کے لیے پانی کےحصول کی خاطر انتہائی دباؤ، آبی آلودگی اور پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی تک رسائی کی کمی کی وجہ سے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ)  محفوظ پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت خدمات تک رسائی بڑھا کر صحت مند شہری طبقات کی تشکیل  اور معاشی مواقع کی بہتری کے لیے بھارت میں ملک گیر پیمانے پر شراکت داروں کے ساتھ کام کرتی ہے۔

یو ایس ایڈ نے آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم میں ہوا سے پانی بنانے والےکوشک کے آغاز کے لیے حیدرآباد کی کمپنی میتری ایکوا ٹیک  ساتھ شراکت  داری کی ہے ۔ ہوا سے پانی بنانے کے لیے ایک منفرد آلے کا استعمال کیا جاتا ہے جو ہوا سے نمی حاصل کرکے اسے گاڑھا کرتا ہے اور پھر اسے پینے کے لائق صاف پانی میں بدل ڈالتا ہے ۔ یہ آلہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے زیرزمین موجود پانی یا  سطح زمین پر دستیاب آبی وسائل پر منحصر نہیں ہے۔

چھوٹی چیز، بڑا اثر
میتری ایکواٹیک کے سی ای او نوین ماتھر وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہوا سے پانی پیدا کرنے والی مشین میگھ دوت پانی بنانے کے لیے فضائی نمی کو حاصل کرکے قدرتی بارش کے طریقہ کار کی نقل کرتی ہے۔ ایک بار پانی بن جانے کے بعد اسے صفائی کے سخت اور متعدد مرحلے سے گزارا جا تا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یہ سو فی صد خالص ہو۔ پانی کی صفائی کے بعد واٹر جنریٹر کا استعمال کرکے پانی میں معدنیات شامل کی جاتی ہیں اور پھر پانی کو تقسیم کیا جاتا ہے۔

ماتھر کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ اور تیز شہری ترقی نے طلب اور فراہمی میں فرق پیدا کردیا ہے جس سے صاف پانی بہت قیمتی بن گیا ہے۔آبی وسائل کی بے لگام آلودگی نے پانی کے وسائل کی روایتی تلاش سے قطع نظر اسے دوسرے ذرائع سے بھی حاصل کرنے کو لازمی بنا دیا ہے۔

وشاکھاپٹنم میں واٹر جنریٹر  (پانی اور صحت کےلیے پائیدار انٹرپرائزز) سیوا پروجیکٹ کے تحت نصب کیا گیا تھا۔ یہ سیف واٹر نیٹ ورک اور یو ایس ایڈ کی طرف سے وشاکھاپٹنم کے بلدیاتی ادارے اور میتری ایکوا ٹیک کے ساتھ سرکاری ۔نجی شراکت داری کے تحت کی جانے والی ایک پہل ہے۔

مکانات اور شہری امور کی وزارت کے جل جیون مشن  (شہری) کے تحت سیوا کا مقصد کم آمدنی والے شہری  طبقات کے لیے پینے کے صاف پانی تک رسائی میں اضافہ کرنے میں شہری انتظامیہ کی مدد کرنا ہے۔یوایس ایڈ۔انڈیا میں پانی اور صفائی پروجیکٹ بندوبست کے ماہر آر کے سری نواسن کہتے ہیں کہ سیوا کی حکمت عملی روایتی سوچ سے بالا تر ہے جو پانی کی صنعتوں کی تنصیب ، کام کاج اور رکھ رکھاؤ پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ سیوا کی حکمت عملی اجتماعی کارروائی کے ذریعہ اس شعبے کو متحرک کرنے کے لئے ’نظام کی تبدیلی‘ کے نقطہ نظر کو اپنانے پر زور دیتی ہے۔

زیادہ رسائی
سری نواسن کا کہنا ہے کہ صاف پانی کی دستیابی میں اضافے کے ساتھ ساتھ  ہوا سےپانی بنانے کا منصوبہ بھی شمولیت اور مساوی رسائی کو فروغ دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ زیادہ تر گھرانے آبی فراہمی کے بلدیاتی نظام سے جڑے ہوئے نہیں ہیں ،

خاص طور پر شہری غریب جو پانی کے ٹینکروں اور نجی طور پر پانی دستیاب کروانے والوں پر انحصار کرتے ہیں۔ غریب طبقات پانی کی صفائی کے مہنگے طریقے اختیار نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے وہ آلودہ زمینی پانی استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘

میتری ایکوا ٹیک  کا پانی بنانے والا جنریٹر روزانہ پینے کے صاف پانی کی ایک بڑی مقدار پیداکرسکتا ہے ۔اس کا گہرائی سے جائزہ لیے جانے کے بعد ہی  عوامی مقامات پر اس کی تنصیب عمل میں آئی ہے۔ ماتھر کہتے ہیں ’’ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ طبقہ،عقیدہ اور سماجی حیثیت سےمبرا ہوکر صاف اور محفوظ پانی تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ہمارا پروجیکٹ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے ۔ اور اب زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘ کمپنی کوشک پر مقامی طبقات کے افراد کو ملازمت بھی دیتی ہے۔

سری نواسن بتاتے ہیں کہ  ابتدائی طور پر کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعد’’  اس سہولت کی  دیگر بھارتی شہروں میں توسیع بھی کی جائے گی ۔ اس کام کے لیے خاص طور سے ساحلی شہروں کو نشان زد کیا گیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے شہروں میں فضا میں نمی کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

نتاشا مِلاس نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار  ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے