بچوں کو محتاط انٹرنیٹ صارف بنانا

اس مضمون میں ڈیجیٹل سیفٹی ماہر بروک اسٹوک نے انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی استحصال اور اس کی روک تھام کے بارے میں بات کی ہے۔ اس میں انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ متاثرہ خاندان بچوں کی اس صورت حال میں کیسے مدد کر سکتے ہیں۔

کرتیکا شرما

January 2023

بچوں کو محتاط انٹرنیٹ صارف بنانا

ڈیجیٹل سیفٹی ماہر بروک اسٹوک اور ’تھورن‘ کی ان کی ٹیم بچوں پر مبنی تحقیق اور ٹیکنالوجی پر توجہ کرتی ہے تاکہ والدین کی مدد کرسکے کہ وہ بچوں کو آن لائن استحصال سے محفوظ رکھ سکیں۔

کووِڈ۔ ۱۹ عالمی وبا کے دوران جب اسکولوں نے درس و تدریس اور دفتری کام کاج کو آن لائن منتقل کیا تو والدین کے لیے ایک نیا چیلنج ابھر کر سامنے آیا۔ انہیں گھریلو ترجیحات اور گھر سے کام کرنے میں توازن پیدا کرنے کے علاوہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کی ایک اضافی مگر اہم ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ طویل وقت تک بغیر نگرانی کے آن لائن رسائی نے بچوں(خواہ وہ کمسن تھے یا نزدیکِ بلوغت) کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ آن لائن استحصال کا خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ والدین اپنے بچوں کو آن لائن استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا اقدامات  کر سکتے ہیں؟ استحصال کرنے والے بچوں کا استحصال کیسے کرتے ہیں؟

ڈیجیٹل سیفٹی ماہر بروک اسٹوک اپنی مہارت سے کچھ ایسے ہی سوالات کا حل پیش کرتی ہیں۔ وہ بچوں کو آن لائن استحصال سے تحفظ فراہم کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’تھورن‘ کی نائب صدر ہیں۔ ’تھورن‘، جس کا صدر دفتر امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس انجیلس میں واقع ہے، بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کو روکنے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کرتی ہے۔ اس کی بنیاد اداکارہ ڈیمی مور اور ایشٹن کوچر نے ۲۰۱۲ ءمیں ڈالی تھی۔

’تھورن‘ میں اسٹوک اور ان کی ٹیم تحقیق اور ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں اور ان کے والدین کے لیے انٹرنیٹ کا محفوظ استعمال یقینی بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ حال ہی میں بھارت کے دورے پر تھیں۔ انہوں نے یہاں اپنی مہارت اور مفید مشوروں کا اشتراک کیا۔ پیش خدمت ہیں ان سے انٹرویو کے چند اقتباسات:

اپنے بارے میں بتائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ آپ کے بھارت کے دورہ کا مقصد کیا تھا؟

میرا تعلق امریکہ سے ہے اور میں ایک ڈیجیٹل سیفٹی ماہر ہوں۔ میں گذشتہ ساڑھے آٹھ برس سے غیر منافع بخش تنظیم ’تھورن‘ سے وابستہ ہوں۔ ہمارا مقصد انٹرنیٹ کے تاریک گوشوں کی نشاندہی کرنا اور بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے خطرات کا پتہ لگانا ہے۔ علاوہ ازیں ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے سافٹ ویئربھی تیار کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہم بچوں اور ان کے گھر والوں کے لیے ایسے آن لائن آلات اور وسائل بھی تیار کرتے ہیں جن کی مدد سے وہ آن لائن استحصال کا بہ آسانی مقابلہ کر سکتے ہیں۔

میں سول سوسائٹی کی متعدد تنظیموں سے ملاقات کی غرض سے بھارت آئی تھی۔ اپنے اس دورے کے دوران میں نے اساتذہ اور  طلبہ کے علاوہ اس میدان میں سرگرم عمل دیگر غیر منافع بخش تنظیموں سے ملاقاتیں کیں۔ میں نے انہیں بچوں کو آن لائن جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے متعلق اپنی ٹیم کی تحقیق اور کام سے آگاہ کیا۔بھارت کے  میرے دورے کا مقصد بچوں کی آواز بلند کرنے کے ساتھ اپنے تجربے کا اشراک کرنا بھی تھا۔ میں یہ بتانے آئی تھی کہ انٹرنیٹ کی وسیع دنیا میں بچے جنسی استحصال کا کس طرح شکار ہو جاتے ہیں اور کیسے والدین، اساتذہ اور بزرگ بچوں کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اسٹیسٹا کے مارچ ۲۰۲۲ ءکے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اگلے ۲۰ برسوں میں موبائل فون پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً ۹۶ فی صد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ والدین اور اسکول اپنے آپ کو اس متوقع اضافے کے لیے کس طرح تیار کر سکتے ہیں؟

میرے خیال میں انٹرنیٹ کے استعمال میں تیزی عالمی سطح پر دیکھی جا رہی ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ نوجوانوں کی زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے اور خاص طور پر کووِڈ۔ ۱۹ عالمی وبا کے بعد تو اس کے استعمال میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس پھیلاؤ کی وجہ سے بچوں کو فون، کیمروں اور انٹرنیٹ کے سائے میں کمسنی ہی نہیں بلکہ پیچیدہ مراحل جیسے بلوغت کے مرحلوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چار، پانچ اور چھ سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون ہیں اور نو سال کی عمر کے بچوں سے برہنہ تصویریں مانگی جا رہی ہیں۔

میں اکثر یہ کہتی ہوں کہ ہم بچے کو یونہی تو کار چلانے کو نہیں دیتے جب تک کہ ہم اسے اچھی طرح سے کار چلانا نہیں سکھا دیتے۔ یہی بات موبائل فون کے لیے بھی ہے۔ اساتذہ اور والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو قبل از بلوغت ہی اس سلسلے میں تربیت دیں۔ یہ نہ صرف مختلف آن لائن خطرات بلکہ ان سے محفوظ رہنے کے متعلق بھی ہو۔ مثلاً یہ بتایا جائے کہ آن لائن جس شخص سے ان کی ملاقات ہوتی ہے اور جو وہ اپنے بارے میں بتاتا ہے تو کوئی ضروری نہیں کہ وہ وہی ہو اور اس کی ہر بات سچ پر مبنی ہو۔ مزید یہ کہ بچوں کو اتنی تربیت دیں کہ وہ اپنی حدوں کا تعین کریں اور ان میں منع کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔

والدین اپنے بچوں کو آن لائن جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

ہم اسے ڈیجیٹل تقسیم کہتے ہیں۔ ہم نے نوجوانوں اور بڑوں پر تحقیق کی ہے۔ اس میں ہم نے پایا کہ بچوں کو لگتا ہے کہ ان کے والدین ان کے تجربے کو نہیں سمجھیں گے جبکہ اس کے برعکس ان کے والدین مغلوب ہیں اور نہیں جانتے کہ مدد کیسے کی جائے۔

سات یا آٹھ سال کی عمر میں ہی بچوں میں تجسس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں تو ان میں خطرات مول لینے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی نازک مراحل میں ہم بچوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون سے متعارف کراتے ہیں۔ پھر اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔ لیکن میں والدین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہوں کی ٹیکنالوجی کے علاوہ بھی کچھ انسانی پہلو ہیں جن سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں سے یہ سوال تو کر ہی سکتے ہیں کہ کیا آپ نے کوئی ایسی چیز دیکھی جس سے آپ کو ڈر لگا یا کوئی ایسی چیز جس سے بے چینی ہوئی۔ میں تمام والدین کو تاکید کروں گی کہ وہ اپنے بچوں کی تمام آن لائن گیمز پر چیٹ کے آپشن کو غیر فعال کریں۔ حالانکہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ والدین کے لیے نہایت ہی مشکل کام ہے۔

لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس خلا کو، مشکل یا عجیب و غریب طریقے سے ہی صحیح، پاٹنا ہوگا۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ بچوں کو خطرناک چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنہائی اور شرم، جن کا یہ چیزیں موجب بنتی ہیں، مسئلے کو بڑھا دیتی ہے اور ایسے نقصان دہ حالات میں ڈال سکتی ہے جو ایک بچے کو مایوسی، خود کو نقصان پہنچانے، خودکشی وغیرہ کی طرف لے جا سکتی ہے۔

والدین اپنے بچوں کو آن لائن جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

ہم اسے ڈیجیٹل تقسیم کہتے ہیں۔ ہم نے نوجوانوں اور بڑوں پر تحقیق کی ہے۔ اس میں ہم نے پایا کہ بچوں کو لگتا ہے کہ ان کے والدین ان کے تجربے کو نہیں سمجھیں گے جبکہ اس کے برعکس ان کے والدین مغلوب ہیں اور نہیں جانتے کہ مدد کیسے کی جائے۔

سات یا آٹھ سال کی عمر میں ہی بچوں میں تجسس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں تو ان میں خطرات مول لینے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی نازک مراحل میں ہم بچوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون سے متعارف کراتے ہیں۔ پھر اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔ لیکن میں والدین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہوں کی ٹیکنالوجی کے علاوہ بھی کچھ انسانی پہلو ہیں جن سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں سے یہ سوال تو کر ہی سکتے ہیں کہ کیا آپ نے کوئی ایسی چیز دیکھی جس سے آپ کو ڈر لگا یا کوئی ایسی چیز جس سے بے چینی ہوئی۔ میں تمام والدین کو تاکید کروں گی کہ وہ اپنے بچوں کی تمام آن لائن گیمز پر چیٹ کے آپشن کو غیر فعال کریں۔ حالانکہ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ والدین کے لیے نہایت ہی مشکل کام ہے۔

لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس خلا کو، مشکل یا عجیب و غریب طریقے سے ہی صحیح، پاٹنا ہوگا۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ بچوں کو خطرناک چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تنہائی اور شرم، جن کا یہ چیزیں موجب بنتی ہیں، مسئلے کو بڑھا دیتی ہے اور ایسے نقصان دہ حالات میں ڈال سکتی ہے جو ایک بچے کو مایوسی، خود کو نقصان پہنچانے، خودکشی وغیرہ کی طرف لے جا سکتی ہے۔

بچوں کے آن لائن سفر کے آغاز میں ہی کیا کیا احتیاطی تدابیر کی جانی چاہئیں جن سے بچہ ان خطرات سے محفوظ رہ سکے؟

میرے خیال میں تو ابتدائی اسکولی تعلیم میں ڈیجیٹل سیفٹی ایجوکیشن کو لازمی قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ گھر پر ہی والدین یا پھر اسکول میں اساتذہ اس بارے میں غیر رسمی طور پر بچوں کو بتا سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں امریکہ میں طبی کلاسوں کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے جن میں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ (صحیح اور غلط طریقے سے  چھونے) کے درمیان تمیز کرنا سکھایا جاتا ہے، صحت مند تعلقات کیسے قائم کیے جاتے ہیں اور جسمانی تحفظ کے متعلق تعلیم دی جاتی ہے۔ وہی حرکیات آن لائن بھی موجود ہیں۔ اگر ہم موجودہ نصاب میں کہیں ڈیجیٹل تعلیم کو بھی شامل کر دیں تو یقیناً اس کے کافی دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ میرے خیال میں عمر کے لحاظ سے مناسب طریقے دستیاب ہیں جن کی مدد سے محفوظ رہنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے۔

یہ صرف جنسی استحصال تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ہے جن سے بچے آن لائن ملتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں وہ نہیں ہوتے جیسا کہ وہ خود کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی بڑا آدمی آپ سے دوستی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا کوئی آپ کو دھمکی دیتا ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے آپ بلا جھجھک مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں بچوں کے لیے ملک گیر پیمانے پر تھوڑی بہت ڈیجیٹل سیفٹی تعلیم کی ضرورت ہے کیونکہ والدین بہت مصروف ہیں اور ان کے پاس وقت کی قلت ہے۔ اگر ڈیجیٹل سیفٹی کے متعلق کچھ اسکولی نصاب میں شامل کرلیا جائے تو وہ کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

انٹرنیت نہایت ہی سرعت رفتار سے وسعت پذیر ہے مگر انٹرنیت کے اپنے تاریک گوشے بھی ہیں جن سے والدین اور بچے بالکل نا واقف ہیں۔ اس صورت میں والدین کو کیا کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے جن سے ان کے بچے آن لائن استحصال سے محفوظ رہ سکیں؟

ایک رجحان کا نام آن ’لائن گرومنگ‘ ہے۔ یعنی جب ایک مجرم کسی چھوٹے عمر کے بچے سے مکر و فریب سے آن لائن دوستی کرتا ہے اور پھر اس سے اپنی برہنہ تصاویر ساجھا کرنے پر مجبور کرتا ہے،بہ نفس نفیس ملاقات یا پھر آن لائن برہنہ ہونے کی ضد کرتا ہے اور یہاں تک کہ اسے اسمگل کیے جانے پر بھی آمادہ کرتا ہے۔ یہ ایک محض دوستی سے لے کر عشق و معاشقہ تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آن لائن دوستی گانٹھنے والے بچوں سے گہرا جذباتی رشتہ قائم کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کافی ماہر ہوتے ہیں اور پھر اسے ہی ان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

ایک اور رجحان جو ہم دیکھتے ہیں وہ ’کَیپنگ‘ کہلاتا ہے۔ یعنی  لائیو اسٹریم (انٹرنیٹ پر کسی پروگرام کا براہ راست نشرہونا)کے دوران کوئی خفیہ طور پر آپ کی باتیں ریکارڈ کر لے، اسکرین شاٹ یا پھر آپ کی تصاویر لے لے اور پھر آپ کی اجازت کے بغیر انٹرنیٹ پر ڈال دے یا کسی کو بھیج دے۔ اس قسم کا شخص آن لائن گرومر (آن لائن تربیت دینے والا)یا پھر آپ کا ساتھی بھی ہو سکتا ہے۔

ایک اور چیز جو ہمارے مشاہدہ میں آئی ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں آج کل ایک  رجحان عام ہےجس کو’ سیکسٹورشن‘ کہلاتا ہے۔اس میں آپ کا ساتھی یا معشوق (جس کے پاس آپ کے جنسی اختلاط کی تصویریں ہوں) اور وہ اپنے ناجائز مطالبات کی تکمیل کے لیے ان کوعیاں کرنے کی دھمکی دیتا ہو۔

اس طرح کے معاملات کے متعلق دو خاص باتیں ہیں: اوّل تو یہ کہ یہ ایک انتہائی منظم جرم کی دنیا ہے ۔دوم ،یہ نہایت ہی سرعت رفتار سے پھیل جاتے ہیں۔ ایک بچہ معمول سے خودکشی کی طرف جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے ایک بدسلوکی والی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ والدین جو علامات دیکھ سکتے ہیں وہ ایسی ہی ہوں گی جب کوئی بچہ نجی صدمے سے گزرتا ہے: دستبرداری، خاموشی اور افسردگی۔

لیکن میری والدین سے گذارش ہے کہ اس سے قبل کہ کچھ ناخوش گوار واقعہ پیش آئے وہ اپنے بچوں سے مسلسل یہ دریافت کرتے رہیں کہ ان کی زندگی میں کیا چل رہا ہے اور ان سے صاف صاف گفتگو کریں۔ اس روش کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے آپ کو اپنا ہمدرد تصور کریں گے اور جیسے ہی انہیں کوئی پریشانی ہوگی وہ فوراً آپ سے رجوع کریں گے۔ اس وقت ان کو ایک ہمدرد کی سخت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ تنہا معاملے سے نہیں نمٹ سکتے۔

میں والدین سے اکثر کہتی ہوں کہ بچے ایک خاص عمر کو پہنچ کر موبائل فون اور آن لائن گیم کھیلنے کی ضد کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ مانتے ہی نہیں ہیں۔ لیکن ہر بار آپ کو انہیں یہ پیار سے بتانا ہے کہ ابھی تمہاری عمر موبائل استعمال کرنے کی نہیں ہے۔

میرا ماننا ہے کہ والدین ان لمحات کو اپنے بچوں کے ساتھ ایک اچھے مکالمے کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر بچوں کے اپنے والدین اور ساتھیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات ہوں گے تو وہ آن لائن بھی صحت مند تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ بچوں کو آن لائن استحصال سے محفوظ رکھنے میں یہ نہات ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈیجیٹل تحفظ کے متعلق آپ کے تین اہم مشورے کیا ہیں؟

والدین کے لیے میرا پہلا مشورہ یہی ہے کہ شروع میں ہی توجہ دیں۔ ڈیجیٹل تحفظ کے متعلق گفتگو کو ٹالنا تو بہت آسان ہے مگر اس کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنا ضروری ہے۔ ہاں اگر یہ گفتگو غیر منظم ہے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ شروع کریں۔ اپنے بچوں کا بھروسہ حاصل کریں اور انہیں آن لائن خطرات سے آگاہ کریں۔

میرا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ گو کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں پھر بھی گفتگو کے عمل کو نہ روکیں۔ بچوں کو سننے پر توجہ مبذول کریں۔ گفتگو کو جاری رکھیں کیونکہ یہ اعتماد کی بنیاد بناتا ہے۔

تیسرا اور شاید سب سے اہم مشورہ یہ ہے کہ شرم اور جھجھک کو درکنار کریں۔ بچہ اکثر اسی وقت خود کو بہت مشکل حالات میں پاتا ہے جب وہ بالکل اکیلا محسوس کرتا ہے۔ آن لائن مجرمین کی ایک روش یہ ہوتی ہے کہ وہ بچے کو الگ تھلگ کرتے ہیں تاکہ وہ خاموش رہے۔

امریکہ اور بھارت کے درمیان کس طرح کی مہارتوں اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہو جس سے آن لائن انسانی سوداگری اور بچوں کے جنسی استحصال جیسے پیچیدہ مسائل پر خاطر خواہ حد تک قدغن ممکن ہو پائے؟

یہ ایک عالمی مسئلے اور اسے عالمی سطح پر ہی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’وی پروٹیکٹ گلوبل ایلائنس‘ جیسی تنظیمیں وقتاً فوقتاً اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لیے رہنما خطوط جاری کرتی ہیں۔ یہ ماڈل قومی ردعمل کہلاتا ہے۔ اس میں بچوں کے تحفظ سے لے کر استحصال سے نمٹنے تک کے لیے تمام امور تفصیل سے بیان ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کے بہترین طریقوں کا اشتراک جاری رکھنا واقعی اہم ہے۔

دوسرا اہم قدم علم اور تحقیق کا اشتراک ہے۔ ’وی پروٹیکٹ گلوبل الائنس‘ کے پاس خطرے کی تشخیص کا دو سالہ پروگرام بھی ہے جس کے ذریعے وہ عالمی منظر نامے کا پتہ لگاتے ہیں۔ میں بھارت اپنے ساتھ گذشتہ چار برسوں میں معاملے پر ہونے والی تحقیق کے نتائج ساتھ لائی تھی۔ اس تحقیق کا محور بچے اور ان پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔ میرے اس دورے کا مقصد یہ جاننا بھی تھا کہ بھارت میں اس حوالے سے کیا تحقیق ہوئی ہے۔ بہرحال یہ انسانوں سے جڑا معاملہ ہے اور ان میں جغرافیائی حدود بے معنی ہیں۔

لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ اشتراک کرنے کے لیے بہت سارا علم، پروسیسس اور بہترین طریقے موجود ہیں۔ ہمیں ان کا اشتراک کرتے رہنا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی ترقی کرتی رہے گی اور ہمیں ایک کمیونٹی کے طور پر مل کر سیکھتے رہنا ہے۔

بھارت میں لوگوں کے ساتھ بات چیت کے دوران سب سے عام سوالات کیا تھے؟

میں خوش نصیب ہوں کہ بھارت کے اس دورے کے دوران مجھے کثیر تعداد میں نوجوانوں سے گفگتو کرنے کا مقع ملا۔ یہ میرے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ بعض مشکل سوالات میں سے ایک جو مجھ سے پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ کس طرح والدین، اساتذہ اور نوجوانوں کو اس سنگین مسئلے پر ایک ساتھ لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ صرف ڈیجیٹل تقسیم تک ہی محدود معاملہ نہیں ہے۔ بچوں کو اپنے والدین اور بڑوں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگ آپس میں زیادہ کھلے ماحول میں بات چیت نہیں کرتے ہیں۔ اس طرح کے سوالات کی بھرمار تھی۔

ایک اور سوال جو اکثر پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ آن لائن جنسی استحصال کے شکار بچے رازدارانہ مدد کے لیے کہاں جائیں۔ اگر وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ ان مسائل پر گفتگو کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں تو پھر وہ کہاں سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو سوالات پوچھے جاتے تھے وہ یہ تھے کہ آن لائن جنسی استحصال کے شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے اور انٹرنیٹ سے ان کے متعلق متن کو فوری طور پر کیسے ہٹایا جائے کیونکہ یہ (انٹرنیٹ) وہ جگہ ہے جہاں چیزیں پھیلنے سے نقصان ہوتا ہے۔

ہم نے شرم اور آن لائن جنسی استحصال کے شکار بچوں کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کے بارے میں بہت بات کی۔ مجھ سےکئی بار یہ سوال کیا گیا کہ اس روش کو کیسے بدلا جائے اور اس کا جواب دینا میرے لیے کافی مشکل تھا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ آپس میں گفتگو کریں، نوجوان اپنے ساتھیوں کی مدد کے لیے آگے آئیں اورآن لائن جنسی استحصال کا شکار بچوں کے والدین بھی آپس میں گفتگو کریں تاکہ شکار بچوں کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی روش ختم ہو اور تمام تر ذمہ داری جرم کا ارتکاب کرنے والوں پر ڈالی جائے۔

ہماری تحقیق سے انکشاف ہوا ہے شرم اور بے عزتی ہی سب سے اہم وجہ ہے جن کے سبب آن لائن جنسی استحصال کے شکار بچے مدد نہیں لے رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھئے یہ بچے نہیں بلکہ اصل مجرم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان بچوں کی مرضی کے بغیر ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالیں اور پھر دھمکیاں دیں۔ مگرحیرت کی بات ہے کہ یہ نکتہ گفتگو کے دوران کبھی اٹھتا ہی نہیں۔ ہمیں ان کی حفاظت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے