خوراک کا بندوبست

خوراک کی بربادی کو کم کرنے سے وسائل اور ماحولیات کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے۔

کینڈس یاکونو

May 2021

خوراک کا بندوبست

خوراک کی بربادی کو کم کرنے سے وسائل اور ماحولیات کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے۔

 

کئی بار ایسا ہوتا  ہے کہ جو چیز ہم نہیں کھاتے ہیں وہ کبھی کبھی اس کھانے کے مقابلے میں  زیادہ  نقصان دہ ہوسکتی ہے جسے ہم کھاتے ہیں،  اگرچہ مختلف انداز میں۔

خوراک کی بربادی —وہ غذا جو تیار تو کی جاتی لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اسے کھایا نہیں جاتا ہے، اس سے غذائی تحفظ اور ماحولیات پر اثر پڑتا ہے اوراگر اسے وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو اس سے ہم سب متاثر ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) نے رواں سال کے مارچ مہینے میں  اپنی فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ ۲۰۲۱کو شائع کیا  جس سے پتہ چلا ہے کہ ماحولیات مخالف گیسوں کے اخراج کے ۱۰ فی صد تک کا حصہ  ضائع شدہ خوراک سے وابستہ ہے۔ گرین ہاؤس گیس عالمی حدت  میں ایک بڑی معاون چیز ہے۔

اس رپورٹ کے پیش لفظ میں یو این ای پی کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر اِنگر اینڈرسن کہتے ہیں’’ اگر خوراک کی کمی اور اسے ضائع کرنے  والے ملک کے طور پر کسی ملک کی نشاندہی کی جاسکتی تو وہ ملک  گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا تیسرا سب سے بڑا ذریعہ قرار پاتا۔‘‘

رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں قریب قریب ۹۳۱ ملین ٹن غذائی فضلہ پیدا ہوا جس میں سے ۶۰ فی صد سے زیادہ انفرادی گھرانوں سے آیا تھا۔ ۲۶ فی صد غذآئی خدمات مہیا کرانے والوں سے آیا اور دیگر ۱۳ فی صد خوردہ ذرائع سے آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق،ہر سال پیدا کی جانے والی کل خوراک کا ۱۷فی صد ضائع ہو جاتا ہے۔

 یونیورسٹی آف میری لینڈ کے محکمہ  برائے ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی میں خوارک کی بربادی کی محقق اور اسسٹنٹ ریسرچ پروفیسر دیباسمتا پاترا کا کہنا ہے’’نتائج ہمارے مطالعے کے نتائج کے مطابق ہیں۔‘‘  پاترا جو کہ حیدرآباد یونیورسٹی سے عمرانیات میں پی ایچ ڈی کر چکی  ہیں، انہوں نے ۲۰۲۰ءمیں ایک مطالعہ کی مشترکہ طور پر تصنیف کی جس میں بتایا گیا کہ غذائی اشیا پر لیبل لگانے کی تاریخ جیسے’’اس تاریخ سے پہلے استعمال کریں‘‘ اندراج  کی وجہ سے گذشتہ  دہائی کے دوران خوراک  کی بربادی میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔

خوراک کئی طرح سے برباد ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر کٹی ہوئی سبزیوں  اور اناج سے جو کھیت میں یا گوداموں میں سڑ جاتے ہیں  اور دکانوں میں بغیر فروخت ہوئے مال سے لے کر ان کھانوں تک جسے لوگ ختم نہیں کر پاتے اور فریج میں پڑے رہنے سے خراب ہو جاتے ہیں۔ پاترا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے متعدد طریقوں کی تفصیل بیان کرنا چیلنج بھرا کام  ہوسکتا ہے۔ وہ تعلیم کی کمی ، خوراک کے تحفظ سے متعلق علم کی کمی اور لیبل لگانے  کے ضوابط کی کمی سمیت  مختلف وجوہات کا حوالہ دیتی ہیں۔ اس تاریخ سے پہلے فروخت کریں  یا تازہ فروخت کریں جیسی چیزیں صارفین کے لیے گمراہ کن ہوسکتی ہیں ، جو کھانے کو اس کے خراب ہونے  سے پہلے ہی پھینک دیتے ہیں۔ پاترا کا کہنا ہے’’جب ماحولیاتی اثرات ، فضائی آلودگی اور زیر زمین پانی کی  آلودگی کے ضمن میں ضائع شدہ کھانا لینڈفلس ( کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی جگہ) میں پہنچتا ہے  تو بہت سارے خدشات موجود ہیں۔ ‘‘

جب ضائع شدہ  کھانا ڈلاؤ تک پہنچتاہے تو نامیاتی مادوں کے تحلیل ہونے سے وہاں  گیس پیدا ہوتی ہے جو قریب ۵۰فی صد میتھین ، ۵۰ فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور تھوڑی مقدار میں غیر میتھین نامیاتی مرکبات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی تخمینہ رپورٹ سے متعلق  ایک بین حکومتی  پینل کے مطابق ، میتھین ایک طاقتور ماحولیات مخالف گیس ہے جس کی وجہ سے گرمی سو سالہ مدت تک فضا میں موجود رہتی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے مقابلے ۲۸سے۳۶درجہ زیادہ نقصاندہ ہے۔

ممکنہ طور پر کھانے کی بربادی میں کمی بہت سے ممالک یا کمپنیوں کی آج تک کی کوششوں کا محور نہیں رہی ہوگی ، لیکن اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کو اس  صورت حال میں تبدیلی کی امید ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگرچہ اعداد و شمار کم ہیں لیکن اقتصادی محاذ پر  اونچی آمدنی سے لے کر کم آمدنی والے گروپوں تک  میں کھانے پینے کی بربادی  کی مقدار یکساں ہے۔ لوگوں اور کمپنیوں میں  ایک گروپ کے مقابلے دوسرے گروپ میں ضائع ہونے کا امکان ہے۔ تاہم ، سپلائی چین کے وہ نکات جہاں کھانا ضائع ہوتا ہے وہ مختلف ہیں۔ اونچی آمدنی والے گھرانوں میں کھانے کی بربادی  گھریلو سطح پر ہوتی ہے ، جبکہ کم اور متوسط آمدنی والے گھرانوں میں  کھپت  کی سطح پر  یا ثانوی سطح پر زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ، دیہی علاقوں میں کھانا ذخیرہ کرنے کی جگہ پر ضائع ہوسکتا ہے  جہاں مناسب  بنیادی ڈھانچہ  یا فوڈ پروسیسنگ نہیں ہے۔ پاترا کا کہنا ہے کہ کھیت سےکھپت  تک کھانے کے ضائع ہونے کی وجوہات کا پتہ لگانا بہت مشکل ہےاور ایسا کرنا بہت زیادہ مہنگا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

پاترا کھانے کی بربادی  پر کام کرنے کی طرف راغب ہوئیں کیوں کہ اس سے دنیا میں بکھمری، غذائی تحفظ ، صاف ماحول، مستحکم ذراعت اور کئی دیگر مسئلوں کا حل نکل سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب صارف کے طور پر کھانا برباد کرتے ہیں تو صرف غذائی اجناس ہی برباد نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ منسلک نقل و حمل، پروسیسنگ ، پیکجنگ اور مزدوری پر آنے والے صرفہ کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے  ’’ میں کھانے کی بربادی  کو کم کرنے کاحل فراہم کرنے کی خواہشمند ہوں کیونکہ اس سے ہمارے معاشرے میں بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ہدف کا نمبر  ۱۲اعشاریہ ۳ اس بارے میں واضح ہے: ’’ ۲۰۳۰ء تک خوردہ اور صارفین کی سطحوں پر فی کس عالمی سطح پر خوراک کی بربادی کو نصف کرنا اور فصلوں کی کٹائی کے بعد ہونے والے نقصانات سمیت پیداوار اور سپلائی چینوں کے ساتھ ساتھ خوراک  کے نقصانات کو بھی کم کیا جانا ہے ‘‘۔  ریاستہائے متحدہ امریکہ کا اپنا ہدف  ۲۰۳۰ء تک خوراک کے نقصان اور اس کی بربادی  کو ۵۰فی صد تک کم کرنا ہے۔

پاترا کہتی ہیں  کہ خوراک کی بربادی  کو کم کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں ،  جس میں انفرادی سطح پر کئے جانے والے اقدامات سے لے کر زیادہ منظم طور پر  حکومتی اقدامات تک  شامل ہیں۔ وہ  ہدف پر مبنی تعلیم کی تجویز پیش کرتی ہیں جس  کا مقصد رویوں اور نقطہ نظر میں تبدیلی لانا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا مہمات جیسے ذرائع ، سیل۔ بائی اور بیسٹ۔ بائی  تاریخوں کو کس طرح بیان کیا جائے، اس  کی تربیت  اور خوراک کو بہتر طریقے سے محفوظ رکھنے کے طریق تعلیم سے خوراک کی بربادی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

گھریلو سطح پر پاترا  اس طرح کے اقدامات کی صلاح دیتی ہیں جیسے خریدی گئی تمام غذائی اشیا کھائی جائیں، بچے ہوئے کھانے کی حفاظت کی جائے ، مصنوعات کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی انھیں فریزر میں رکھاجائے اور خوراک تحفظ  کی ڈیڈ لائن کے ساتھ تجویز کردہ  تاریخ کے لیبل کے تئیں تذبذب میں نہ رہا جائے ۔

وہ کہتی ہیں ’’ہماری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ لوگوں کو یہ احساس نہیں تھا کہ ان کا انفرادی طور پر کھانا ضائع کرنے کا معاشرے پر اتنا بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔  مجھے امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جلد ہی اس کا احساس کریں گے اور کھانا ضائع نہیں کریں گے۔‘‘ 

کینڈس یاکونو جنوبی کیلیفورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے