طبقات کی بہتری کے لیے فضلہ کا انصرام

وِہٹمَین کالج سے فارغ التحصیل گوری میراشی کا مقصدطبقات کو بااختیار بنا کرایسے پائیدار شہر بسانا ہے جن میں برادریاں اپنے آس پاس کے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر زندگی بسر کرسکیں۔

ٹریور ایل جوکِمس

December 2022

طبقات کی بہتری کے لیے فضلہ کا انصرام

گوری میراشی(دائیں) نے شراکت داری میں ایکو ستّوا انوائرونمینٹل سولو شنس کی بنیاد رکھی۔ ان کی یہ کمپنی ٹھوس فضلہ کو چھانٹنے، سبزہ کی حفاظت اور ان کی توسیع اور آبی اجسام کی بحالی میں مدد کرنے کا کام کرتی ہے۔ تصویر بشکریہ گوری میراشی۔

خواتین  کی قیادت میں فضلہ کے انتظام ،اجسامِ آب  کی بحالی اور سبز خطے کا انتظام   سنبھالنے والی ایکو ستّواانوائرونمینٹل سولوشنس نامی کمپنی کی شریک بانی اور سی ای او گوری میراشی اپنے ڈیوس پروگرام کے تجربے کے متعلق بتاتے ہوئے  کہتی ہیں’’میرے خیال میں سب سے اہم چیز جو میں نے ڈیوس پروگرام کے تحت فنون عامّہ کی تعلیم  حاصل کرنے کے دوران سیکھی وہ یہ ہے کہ میں مختلف  خیالات ، بلکہ بعض اوقات متضاد خیالات پر ،بیک وقت کام کرسکتی ہوں۔‘‘

میراشی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کثیر اہداف پر کس طرح کار بندہوا جاتا ہے۔

ڈیوس یونائٹیڈ کالج اسکالرس پروگرام کے تحت میراشی نے بھارت میں مہندرا یونائیٹیڈ ورلڈ کالج(یوڈبلیو سی)سے پری یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں کُل ۱۸ یو ڈبلیو سی ہیں، جن میں سے ایک   بھارت میں بھی ہے۔ یہاں سے پری یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے بعد میراشی نے ریاست واشنگٹن میں واقع وِہٹمَین کالج سے فنون عامّہ میں انڈر گریجویٹ تعلیم مکمل کی۔

ڈیوس یونائیٹیڈورلڈ کالج اسکالرس پروگرام ایک بین اقوامی اسکالر شپ پروگرام ہے جس کی کفالت نجی طور پر کی جاتی ہے۔ اس پروگرام کے تحت جو طلبہ ۱۸  میں سے کسی بھی ایک اسکول سے تعلیم مکمل کرتے ہیں انہیں منتخب امریکی کالجوں اورجامعات میں داخلہ مل جاتا ہے۔ جیسے ہی طلبہ کسی شریک امریکی ادارہ میں داخلہ لیتے ہیں توانہیں انڈرگریجویٹ تعلیم کےلیے ادارہ جاتی عطیات سے مالی امداد بھی مل جاتی ہے جس میں احتیاج پر مبنی وظائف بھی شامل ہیں۔

ڈیوس پروگرام کے دوران میراشی نے جو تعلیم پائی ، یاجس قسم کے متنوع ماحول میں انہوں نے وقت گزارا ،اس نے ان کے دل و دماغ پر گہرےاثرات مرتب کیے۔ وہ بتاتی ہیں ’’میرے اندر مشکل سے مشکل مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ میں مختلف النوع نقطہ ہائے نظر کی قدر کرنا جانتی ہوں جس کے سبب فیصلہ کرتے وقت یا کام کرتے وقت کافی آسانی ہوتی ہے کیوں کہ میرے سامنے ایک ہی مسئلہ کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔‘‘

ایکوستّوا کا آغاز

میراشی نے نتاشا زرین کے ساتھ مل کر مہاراشٹرکے شہر اورنگ آباد میں ایکو ستّوا انوائرونمینٹل سولوشنس کی ۲۰۱۶ءمیں بنیاد ڈالی۔  یہ کمپنی بنیادی طور پر تین کام انجام دیتی ہے: ٹھوس فضلہ کو چھانٹ کر اس کا انتظام ، ہریالی کا نہ صرف تحفظ  بلکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ اور آبی اجسام کی بحالی۔ میراشی بتاتی ہیں ’’ ہم آبی اجسام کو اس لیے بحال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مخصوص کام جیسے پانی کا بھراؤ،سیلاب پر قابو پانا، درجہ حرارت کو قابومیں رکھنا اور حیاتیاتی تنوع کو سہارا دینا، کو  بہتر طریقے پر انجام دے سکیں۔ ہم مقامی خود مختار حکومتوں کی  ٹھوس فضلہ کے موثرانصرام، ہریالی کا انصرام اورآبی اجسام کا انصرام جیسی خدمات میں مدد کرتے ہیں جس میں پہلے سے موجود ذرائع کا بہتر طریقہ پر استعمال شامل ہے۔‘‘

کمپنی ٹھوس فضلہ اٹھانے کے لیے گاڑی، عملہ اور پراسیسنگ اکائی فراہم کرتی ہے۔ ان تمام مراحل میں خواتین کےلیے  روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ساتھ ہی قدرت کے ساتھ ایک خوب صورت باہمی رشتہ بھی قائم  ہوتا ہے۔

میراشی بتاتی ہیں ’’بھارت میں صاف بھارت مشن  کی بدولت ٹھوس فضلہ کے انتظام  کے لیے آلہ جات اور بنیادی ڈھانچے میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی۔ مگرموثر نظام نہ ہونے کے سبب اکثر اس  سرمایہ کاری  کا یا تو کم استعمال ہوا یا بالکل استعمال نہیں ہو سکا۔ ‘‘

وہ ساحلی شہر علی باغ، جہاں انہوں نے مداخلت کی تھی، کی مثال پیش کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ مقامی حکومت نے بایو گیس پلانٹ لگایا تھا جس میں یومیہ ۳ٹن فضلہ کا انصرام کرنے کی صلاحیت تھی۔ مگر روزانہ۳ ٹن فضلہ اکٹھا کرنے کے لیے کوئی انتظام نہیں تھا ،نتیجتاً اس پلانٹ کوبند کرنا پڑا۔

انہیں مخصوص مسائل کو ایکو ستّوا حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔  میراشی وضاحت کرتی ہیں’’ہمارا طریقہ کار  یہ ہے کہ ہم غیررسمی کوڑا اٹھانے والوں کو، جن کی پورے بھارت میں بھرمار ہے ،باقاعدہ رسمی فضلہ انصرام عمل کا حصہ بناتے ہیں۔‘‘ ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اس جگہ جہاں کہ فضلہ جمع ہوتا ہے وہیں پرسوکھے فضلہ کو الگ کر لیتے ہیں اور پھر وہیں سے ہی زیادہ سے زیادہ فضلہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعد ازاں بلدیہ کے لوگ اسے دوبارہ کارآمد بنانے کے مراکز تک پہنچا دیتے ہیں۔

میراشی کو امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس عمل کو اختیار کریں گے جس سے  نہ صرف مقامی باشندگان بلکہ شہر کے منتظمین کو بھی اس سہولت کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ ہرکوڑا اٹھانے والی گاڑی میں ۲ٹن وزن اٹھانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کوڑے میں بیکار اور پھٹے پرانےکپڑے، گتے، کاغذ، شیشہ، مخلوط پلاسٹک اور چپلیں شامل ہوتی ہیں۔ میراشی بتاتی ہیں’’اس مرکز میں نہ صرف فضلہ کا انصرام ہوتا ہے بلکہ فضلہ میں تخفیف کرنے کے لیے بیداری مہم بھی چلائی جاتی ہے۔‘‘

دشواریاں

میراشی اور ایکو ستّوا کو مختلف سطحوں پر مختلف النوع مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میراشی اور ان کی ٹیم کوبعض عملی مسائل جیسے تنگ سڑکیں جن میں کوڑے والی گاڑیاں نہیں جا سکتیں، کے لیے انوکھے حل تلاش کرنے پڑے ہیں۔ میراشی کہتی ہیں ’’ہم نے گاڑی کھڑی کرنے کے بنیادی اصول سیکھے کیونکہ ایک تو تنگ سڑکیں اور پھر اوپر سے سڑک کے دونوں جانب موٹر سائیکل کھڑی رہتی تھیں، اس سے کوڑے کی گاڑی کا نکلنا ناممکن ہو گیا تھا۔‘‘

متعلقہ افراد کو یہ سمجھانا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔  یہ مسئلہ خاص طور پر ایکو ستّوا کی سبزاورنگ آباد مہم کے دوران تو اور بھی پیچیدہ ہوگیا تھا کیوں کہ اس میں نہ صرف پودے لگانے پر بلکہ ہریالی قائم رکھنے کی کوششوں پر بھی توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

میراشی کہتی ہیں ’’ دولت آباد کی پہاڑیوں میں خصوصاً بڑی دقت پیش آئی کیوں کہ سبزہ کی چار برس تک اچھی طرح سے دیکھ بھال کرنی پڑی ، تب  جاکرکہیں یہ خودکو برقرار رکھنے کے لائق ہوا۔ متعلقین یہ کویہ باور کرنے میں بھی کافی دشواری ہوئی کہ کھیت کھلیان بھی ہریالی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ  ہریالی کی تعریف میں صرف جنگلات کا ہی شمار ہوتا ہے۔‘‘

صنفی مسائل بھی کافی زیادہ پیش آئے مگر کمپنی نے ان کا حل الگ انداز میں کیاگیا ۔میراشی بتاتی ہیں ’’صنف منفی اور مثبت دونوں ہی طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ افسر شاہی ہمیں چھوڑکرمرد ہم کاروں سے بات کرتی ہے گو کہ ان کے پاس ہم سے کم تجربہ ہوتا ہے۔مردوں سے گھلنے ملنے میں ہمیں اکثر تردد ہوتا ہے اور مرد ماتحتین کو اپنی خواتین افسران سے ہدایت لینے میں ہتک عزت محسوس ہوتی ہے۔ ہم رابطہ سازی کی  سرگرمیوں میں بھی پھنسے رہتے ہیں جن میں طلبہ، کاروباری انکیوبیشن پروگرام اور خواتین خود امدادی گروپ شامل ہوتے ہیں۔ یہی مواقع ہوتے ہیں جہاں ہم کچھ الگ کر سکتے ہیں۔‘‘

اثر انداز ہونا

ایکو ستّوا کووجودمیں آئے ابھی محض سات برس ہی ہوئے ہیں مگر اس قلیل سے عرصے میں ہی اس نے روزگار کے ۲۵۰۰مواقع پیدا کر دیے جن میں سے اکثر ٹھوس فضلہ کے انصرام کے شعبے میں ہیں۔ گو کہ ایکوستّوا کا کلیدی مقصد برادریوں کو صاف پانی مہیا کرانا ہے مگر ایکوستّوا برادریوں کے افراد کو با اختیاربھی بناتی ہے تا کہ وہ اپنے آس پاس موجود قدرتی وسائل کی ذمہ داری بھی اٹھاسکیں۔ اس کے لیے ایکو ستّوا انہیں صفائی مہمات میں شامل کرتی ہے۔ اسی طرح کا ایک یاد گار منصوبہ صاف کھام تحریک تھی۔ اس کے تحت کھام ندی اور اس کی ذیلی ندیوں کو بحال کرنے اور صاف کرنےکا کام ۲۵ جنوری ۲۰۲۲ء یعنی یوم جمہوریہ سے ٹھیک ایک روز قبل شروع کیا گیا۔ پوری کی پوری برادری بشمول انتظامی عملہ اور بلدیہ کے ملازمین نے اس منصوبہ کا پہلے ہی روز خیر مقدم کیا ،جب کھدائی کرنے والی گاڑیوں کی ایک طویل قطار ندی کی سطح سے کچرا نکالنے کے لیے موجود تھی۔ اب ہفتہ میں ایک بار پابندی سے صفائی کا کام ہوتا ہے۔

ایکو ستّوا کی مستقبل کی منصوبہ بندی کیا  ہے؟ میراشی دوسرے شہروں میں کام پھیلانے کی خواہشمند ہیں جس کے لیے وہ دیگر تنظیموں کے ساتھ شراکت کریں گی۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر وہ ایکو ستّوا کے’’تجربہ، ڈیٹا اور مہارت کو ماحولیاتی شعبہ کے وسیع تر میدان میں اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے استعمال کرنے کی خواہش مند ہیں۔‘‘

ٹریور لارینس جوکِمس نیویارک یونیورسٹی میں تحریر، ادب اورمعاصر ثقافت کے استاد ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے