سماجی کارکن مانویندر سنگھ گوہِل صنف خاص کے متعلق اپنے تجربات اور ایچ آئی وی و ایڈس کے سلسلہ میں اپنے کام کے بارے میں رو شناس کرارہے ہیں۔
February 2023
مانویندر سنگھ گوہِل(دائیں) ہم جنس پرستوں کے حقوق کی پُرجوش وکالت کرنے کے ساتھ ایچ آئ وی ایڈس سے متعلق بیداری اور اس کی روک تھام کی وکالت بھی کرتے ہیں۔
مانویندر سنگھ گوہِل ایک سماجی کارکن ہیں جن کا مطمح نظر صنف خاص کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے۔ وہ صنف خاص کی حقوق کی لڑائی بھی لڑ رہے ہیں۔ساتھ ساتھ وہ ایچ آئی وی ایڈس کے متعلق بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ مانویندر سنگھ بھارت کے پہلے علی الاعلان ہم جنس پرست پرنس ہیں۔وہ اپنے ۵ ایکڑ پر محیط وسیع محل میں صنف خاص کے لیے ایک کمیونٹی سینٹر بھی چلا تے ہیں۔
گوہِل لاس اینجیلس میں واقع ایڈس ہیلتھ کئیر فاؤنڈیشن کے برینڈ ایمبسڈر ہیں۔انہوں نے کئی عالمی تقریبات میں ہم جنس پرستوں کے جلوس میں بھارت کی نمائندگی کی ہے۔ وہ برادری کا ایک خیراتی ادارہ لکش ٹرسٹ بھی چلاتے ہیں۔
۲۰۲۲ءمیں عالمی یوم ایڈس کے موقع پر گوہل نے نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے سہ ماہی اسپَین میگزین سے تفصیلی گفتگو کی۔ پیش خدمت ہیں اس گفتگو کے چند اقتاباسات ۔
جب آپ نے اپنے ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کیا اس وقت سے لے کر اب تک صنف خاص کی جانب عام لوگوں کے رویہ میں کیا کوئی تبدیلی آئی ہے ؟اور کیا اب وہ مرکزی دھارےمیں شامل ہو رہے ہیں؟
ہم اپنے حقوق، جو کہ ہمارے انسانی حقوق کے زمرہ میں آتے ہیں، کے لیے گذشتہ ۲۰ برسوں سے جدوجہدکررہے ہیں۔ آخر کار ۲۰۱۸ءمیں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی اور عدالت عالیہ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے آئینِ ہند کی دفعہ ۳۷۷(جس کے تحت ہم جنس پرستی قانونی طور پر جرم کے دائرے میں آتی تھی)کو ختم کردیا۔ ہم جنس پرستی انگریزوں کے زمانے سے قانوناً جرم تھی۔
لیکن میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ حقوق کی باز یابی صرف عدالت کے کمروں تک محدود نہیں ہوتی۔ ہمیں انسانوں کے دل و دماغ کو بھی فتح کرنا ہوگا۔
ایک کام میں ضرور کررہا ہوں کہ میں ایسے افراد جن کا تعلق صنف خاص سے نہیں ہے ان کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور میرے خیال میں یہ بہترین لائحہ عمل ہے جس سے ہم اپنے مسائل کو مرکزی دھارے میں اٹھا سکتے ہیں۔
عدالت عالیہ کے ۲۰۱۸ء کے تاریخی فیصلے سے صنف خاص کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ؟
عدالت عالیہ کے تارخی فیصلے سے ہماری قانونی بنیاد مضبوط ہوئی ہے۔مگر بہر حال معاشرہ میں بھی ہمیں وسیع المشرب قبولیت درکار ہے کیوں کہ بھارت میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو کہ قانونی طور پر جائز ہیں مگر ان کو معاشرےنے تسلیم نہیں کیا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے لیے خود وکالت کرنی ہوگی، جس میں سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں، سرکاری افسران، میڈیا، ڈاکٹروں،ماہر نفسیات اور والدین سب کو شامل کرنا ہوگا۔ اور میں کافی مثبت تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں کیوں کہ طلبہ ہمارے مسائل میں دلچسپی لے رہے ہیں۔اور مجھے لگتا ہے کہ اگر طلبہ ہمارے حلیف اور وکیل بن جائیں تو ہمارا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
بھارت میں صنف خاص کی وکالت کا آپ کا کیسا تجربہ رہا ہے؟
میں دنیا بھر میں گھوما ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں بھارت صنف خاص کے لیے زیادہ محفوظ ملک ہے۔ بعض ممالک میں تو صنف خاص سے تعلق رکھنے افراد کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا ہے۔ مگر خوش قسمتی سے بھارت میں اس قسم کی وارداتیں نہیں ہوتیں۔
میں نےدنیا کے کئی ممالک میں’ پرائڈ مارچ‘(اظہارِ ذات کی نمائش کی خاطر کیا جانے والا مارچ) میں شرکت کی ہے اور میرے خیال میں بھارت سب سے محفوظ ملک ہے۔ میں نے بھارت کے مختلف شہروں میں۲۰۔۱۵ جلوس میں شرکت کی ہے۔ کہیں بھی کسی نے کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی کسی مارچ کو روکنے کی کوشش کی۔ پولیس سے بھی ہمیں تعاون ملا۔دیگر متعلقین سے بھی ہمیں بھر پور تعاون ملا۔
آپ نے ایڈس کے تدارک کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا آپ اپنی این جی او کے متعلق کچھ اظہار خیال فرمائیں گے؟
میں ۱۹۹۵ء سے ہی ایڈس کے تدارک کےلیے سرگرم عمل ہوں۔ اس زمانہ میں ہم جنس پرستوں اورمخنثوں کی کثیر تعداد میں اموات ہوئیں۔ ان میں میرے اعزا اور اقارب بھی شامل تھے۔ مجھے ہم سفر نامی ٹرسٹ نے تربیت دی۔ ہم سفر بھارت کی پہلی تنظیم ہے جوایم ایس ایم (مردوں سے جسمانی تعلقات قائم کرنے والی مرد آبادی) میں ایڈس کی بیماری کے تدارک کے لیے کام کرتی ہے۔ ہم سفر کی مدد سے ہی میں نے گجرات میں لکش ٹرسٹ کا آغاز کیا۔لہذا یہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔آج بھی ہم جنس پرستوں اور صنف خاص کو ایڈس کا خطرہ سب سے زیادہ لا حق ہوتا ہے۔ اسی لیے ان طبقات میں ایڈس سے متعلق بیداری پیدا کرنا ہمارےلیے اشد ضروری ہے۔ میں ایڈس ہیلتھ فاؤنڈیشن (اے ایچ ایف)کا برینڈ ایمبسڈر ہوں۔اے ایچ ایف ہی کی بدولت مجھے سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اور سرکاری افسران سے ملاقات کا موقع ملا ۔ اب میں نہ صرف ہم جنس پرستوں بلکہ عام لوگوں میں بھی ایڈس کے تدارک کے لیے زیادہ بہتر طور سے وکالت کرسکتا ہوں۔
آپ نے اپنے محل کی ۱۵ ایکڑ اراضی پر صنف خاص کےلیے ایک منفرد کمیونٹی سینٹر قائم کیا ہے۔ برائے مہربانی اس مرکز کے متعلق کچھ بتائیں۔
جب میں نے اپنے ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کیا تو میرے والدین نے مجھےعاق کر دیا، مجھے میری آبائی جائداد سے بے دخل کردیا گیا اور مجھے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔تب مجھے احساس ہوا کہ اگر یہ بارسوخ شخص کے ساتھ ہو سکتا ہے تو پھر عام آدمی کو تو اس طرح کے بہت سارے خطرات لاحق ہیں۔ اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی آبائی اراضی کو صنف خاص کے لیے وقف کر دوں گا۔ واضح رہے کہ یہ اراضی مجھے میرے والد نے تحفتاً دی تھی۔ شروعاتی دور میں میرے والد ہم جنسی پرستوں کے سخت مخالف تھے مگر میں نے آہستہ آہستہ ان کو سمجھایا اورپھر اب ہمارے حامی بن گئے ہیں۔ میری زندگی کے مقاصد میں صنف خاص کو مالی اور سماجی طور پر بااخیتار بنانا شامل ہے تاکہ وہ بھی ایک باوقار زندگی بسر کرسکیں اور اپنی روزی روٹی کما سکیں۔
آپ کے نزدیک صنف خاص کے سیاق میں تین کون سی چیزیں خاص سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں؟ آپ کے نزدیک بھارت صنف خاص کی حقوق کے سلسلہ میں امریکہ سے کیا سیکھ سکتا ہے؟
سب سے اہم تو بھارت میں مخنثوں کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ اس کا آغازاین اے ایل ایس اے معاملہ میں عدالت عالیہ کے ۲۰۱۴ءکے فیصلے سے ہوا اور اس کا اختتام ۲۰۱۹ء میں مخنثوں کے حقوق سے متعلق قانون کے بننے سے ہوا۔ مزید یہ کہ بھارتی حکومت کی وزارتِ سماجی انصاف نے مخنثوں کے لیے پناہ گاہیں بنائی ہیں ۔ حکومتی سطح پراس طرح کے اقدامات دنیا کے دیگر ممالک میں ناپید ہیں۔ لکش ٹرسٹ نے بھی مخنثوں کے واسطے پناہ گاہ بنائی ہیں جن کو’’ گریما گِرہ ‘‘(پُر وقار گھر)کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کا افتتاح اس وقت کے مرکزی وزیر برائے سماجی انصاف اور بااختیاریت جناب تھاور چند گہلوت نے بذات خود کیا۔
ایک بات جو امریکہ میں رائج ہو گئی وہ ہے ہم جنس شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا جانا۔میں امید کرتا ہوں کہ بھارت میں یہ بہت جلد ہو جائے گا۔ اسی سے منسلک گود لینے اور وراثت کے قوانین بھی ہیں۔ تائیوان میں ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی اجازت مل گئی ہے۔ تو میں امید کرتا ہوں کہ بھارت میں بھی ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
آپ کے مطابق صنف خاص برادری کے لیے بھارت میں کیا کیا ترجیحات ہیں؟
بھارت میں اگر ہم دیکھیں تو چاہے وہ مخنثوں کے حقوق کی بات ہو یا پھر سیکشن ۳۷۷کی بات ہو،ان کے نفاذ کی رفتار بہت سست ہے۔
مثال کے طور پر مخنثوں کے حقوق سے متعلق قانون میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ بھارت کے ہر صوبے میں مخنثوں کے لیے ایک بہبودی بورڈ ہونا چاہیے مگر ابھی بھی بہت سارے ایسے صوبے ہیں جن میں اس طرح کا بہبودی بورڈ قائم نہیں ہوا ہے۔
ان سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں مختلف پالسی ساز تنظیموں میں صنف خاص کی نمائندگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قومی تنظیم برائے ایڈس کنٹرول(این اے سی او) میں صنف خاص کے نمائندے موجود ہیں۔اسی طرح وزارت برائے سماجی انصاف اور بااختیاریت میں بھی مخنثوں کے نمائندےموجود ہیں۔ اس سے امید ہے کہ ہمیں انصاف مل سکے گا۔
آپ اپنے اور اپنی تنظیم کے لیے کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
مجھے مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔آج کے طلبہ میں تجسس ہے۔ وہ ہمارے مسائل کو جاننا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور عالمی وباء کے دوران ۱۴ اور ۱۵ سال کے چھوٹے بچوں نے میرا انٹرویو کیا اور یقنیاً اس میں ان کے والدین کی مدد شامل حال رہی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان طلبہ میں ہم جنس پرستوں اور صنف خاص کے متعلق کافی تجسس اور جستجو پائی جاتی ہے۔میں نے صنف خاص کے متعلق اب تک ٹی ای ڈی ۱۹ خطابات کیے ہیں۔اب تک صرف اعلیٰ تعلیمی ادارے ہی مجھے مدعو کرتے تھے مگر اب مجھے اسکولوں سے بھی مدعو کیا جارہا ہے۔ یقیناً یہ کافی اچھا عندیہ ہے۔ مجھے مستقبل روشن نظر آرہا ہے کیوں کہ دراصل طلبہ ہی ہمارا مستقبل ہیں۔جب وہ خود والدین بنیں گے تو اس وقت وہ کافی بیدار ہوں گے اور جب ان کے بچے اپنے ہم جنس پرست ہونے کا اعلان کریں گے تو وہ ان کو وسیع المشربی سے قبول کریں گے۔
تبصرہ