موثر مکالمہ طبّی نگہداشت میں معاون

امریکی فلبرائٹ ۔ نہرو وظیفہ یافتہ اسکالرڈاکٹر گیتا مہتا کو یقین ہے کہ اگر ڈاکٹروں کو رابطے اور با ت چیت کی موثر مہارت سے سرفراز کیا جائے تو اس سے مریضوں کی دیکھ ریکھ میں تو بہتری آئے گی ہی ، اس کا ثمرہ بھی نتیجہ خیز ہوگا۔

رنجیتا بسواس

March 2019

موثر مکالمہ طبّی نگہداشت میں معاون

فلبرائٹ۔ نہرو اسکالر ڈاکٹر گیتا مہتا چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں جہاں وہ میڈیکل ریزیڈنٹس کے لیے پیشہ واریت اور طبّی ترسیل سے متعلق ایک نصاب بنانے پر کام کر رہی ہیں۔ (تصویر بشکریہ ڈاکٹر گیتا مہتا)

گیتا مہتا بہتر نتائج کے حصول کے لیے ذاتی لمس کے تصور کے سرایت کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ فلبرائٹ ۔ نہرو اسکالر ایوارڈ یافتہ مہتا چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں تجربہ کار اساتذہ کے ساتھ خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ وہ ڈاکٹروں کو پیشہ ورانہ خصوصیات اورطبّی روابط کا حامل بنانے کے لیے ایک نصاب کی تیاری پر بھی توجہ دے رہی ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ بات چیت کی مہارت اور قوت برداشت میں اضافہ کرکے زیر تربیت ڈاکٹر وں کو بھارت میں صحت کی دیکھ ریکھ کی سہولت فراہم کرنے میں پیش آنے والے چیلنج سے نمٹنے کی خاطر بہتر طور پر تیار کیا جا سکے گا۔

سنہ ۲۰۱۷ ءتک مہتا سان ڈیاگو میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ڈویژن آف جنرل انٹرنل میڈیسن میں پروفیسر ایمریٹس کی خدمات انجام دے رہی تھیں۔

بنیادی طور پنجاب کی رہنے والی مہتا نے ۱۹۸۰ ءمیں میڈیکل ڈگری لی اور اس کے بعد امریکہ چلی گئیں۔ طبّی مواصلات کے شعبے میں ان کی دلچسپی نے بات چیت کی صلاحیت سے متعلق بہت سارے ورکشاپ کے اہتمام میں ان کی مدد کی۔ پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ کے خیال میں مریضوں کے ساتھ موثر رابطہ بہتر نتائج حاصل کرنے کے عمل میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟

موثر رابطہ قائم کرنے کی صلاحیت میں مریض کے اقدار، ترجیحات اور اسے سمجھنے کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اس سے ڈاکٹروں پر مریض کا اعتماد بڑھتا ہے۔ ڈاکٹر پراعتماد کی کمی مجبور کرتی ہے کہ لوگ مختلف لوگوں سے رائے لیں ۔ اس کی وجہ سے علاج کے لیے ناقص عمل، خراب نتائج اور اگر کچھ برا ہوجائے تو انتقامی کاروائی اور پھر معاملہ مقدمہ بازی تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے ارادے کے تئیں شک و شبہہ اور صحت سے متعلق کم معلومات رکھنے والوں کے ساتھ بات چیت کے دوران(خاص طور سے وسائل کی کمی کی صورت میں ) اعتماد کی بحالی اور بہترطبّی نتائج کے لیے ڈاکٹروں کوبہتر مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔

دیگر طبّی طریقہ کار کی طرح بات چیت کی صلاحیت بھی ایک ہنر ہے جسے سیکھا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بھارت میں کچھ عرصہ پہلے تک طب سے متعلق پڑھائی پر توجہ دینے کے نام پر صر ف طبّی معلومات پر ہی دھیان دیا جاتا تھا اور بات چیت کی صلاحیت سے متعلق تربیت کو مناسب خیال نہیں کیا جاتا تھا ۔ مگر اب تمام ڈاکٹروں پر لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ اس پر دسترس حاصل کریں۔

بھارت میں فیملی ڈاکٹر اسے سمجھا جاتا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے اور جس کی حیثیت کنبے کے دوست کی سی ہو مگر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اس کی جگہ اب مختلف شعبے کے ماہرین لے رہے ہیں جو تبادلہ  خیال کی گنجائش کو محدود کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا خیال کیا ہے؟

درست۔ یہ بڑے نقصان کی بات ہے ۔ اس سے معاملہ نامکمل اور ناقص دیکھ ریکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ ا س خلا کوپُر کرنے کے لیے ہمیں دو طریقوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مریضوں کو چاہیے کہ وہ فیملی ڈاکٹروں کے شکر گزار ہوں اور انہیں مناسب اجرت بھی دیں۔ اس کے علاوہ انہیں معمولی پریشانیوں کے لیے خصوصی دیکھ ریکھ پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر طبّی خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر موثر طور پر اس کام کو انجام نہیں دے سکتے۔ ایک ماہر ڈاکٹر بننے کے لیے

انہیں وسیع تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کنبے کا علاج کررہا ایک ہنر مند ڈاکٹر وقت پر تشخیص اور دیکھ ریکھ کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ خود سے دوا لینے کے خطرے کو بھی کم کرسکتا ہے ۔ جراثیم کش دواؤں کے زیادہ استعمال کے معاملے میں خصوصی طور پر یہ بات درست ہے۔

دواؤں کی اعلیٰ سطحی مزاحمت کے لیے بھی جزوی طور پر یہ ذمہ دار ہے؟

امریکہ میں ڈاکٹر ابتدائی دیکھ ریکھ کی خدمات فراہم کرنے والے کے طور پرتربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ وہاں ہیلتھ انشورینس لینے والے تمام افراد کو ابتدائی دیکھ ریکھ کے لیے ایک ڈاکٹر کے انتخاب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام لوگوں کو ٹیکہ کاری اوردیکھ ریکھ میں رابطے جیسی ضروری حفاظتی دیکھ بھال کی سہولت ملے۔ اس کے علاوہ وہاں موجود ریفرل سسٹم ماہرین سے رجوع کرنے کے غیر ضروری عمل اور مختلف رائے حاصل کرنے میں ہونے والے خرچ میں کمی لانے میں بھی مدد کرتا ہے ۔

پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں اساتذہ کو با اختیار بنانے کے لیے رابطے کی صلاحیت سے متعلق آپ ایک پروگرام تیار کر رہی ہیں جو زیر تربیت ڈاکٹروں کی خاطر ایک پائیدار نصاب تیار کرے گا ۔

امریکہ اوربھارت میں آپ کے کام کرنے کے تجربے اور اپنے ثقافتی احساسات کو آپ اس میں کس طرح استعمال کر رہی ہیں؟

میڈیکل اسکول میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھارت میں میرا کام ایک انٹرن کے طور پر تربیت تک ہی محدود تھا تاہم میں مقامی ثقافتی اقدار کو سمجھتی ہوں ۔ یہاں اپنے کنبے کے توسط سے ڈاکٹروں کے ساتھ بات چیت میں مجھے معلوم ہوا کہ انہیں یہاں بہت سے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے میں یہاں کے ڈاکٹروں کی قدر کرتی ہوں۔

ثقافتی امور سے واقف ڈاکٹروں کے ذریعہ دیکھ ریکھ کافی اہم ہے کیوں کہ بھارت میں صحت خدمات میں کافی تنوع ہے اور یہ صرف نسلی بنیاد پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ اس میں سماجی اور ثقافتی عقیدہ ، بات چیت کا طریقہ اورآزادی کی ترجیحی سطح بھی شامل ہیں۔ صحت کی خدمات فراہم کرنے والوں کو اہم ثقافتی امور کا جائزہ لینے اور مریض کی پسند کے اعتبارسے شخصی دیکھ ریکھ کی صلاحیت کی بھی ضرورت ہے ۔ ہر شخص نسل اور سماجی و اقتصادی حیثیت کی تفریق کے بغیر عزت و احترا م اور محبت و شفقت سے فراہم کی جانے والی دیکھ ریکھ کا خواہاں ہے۔

رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ و ہ افسانوں کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے