کامیابی کے در کھولنا

تعلیم کے اعلیٰ معیار، نصاب میں لچیلا پن اور تعلقات سازی کے مواقع کی دستیابی کی خصوصیات کی بنا پر امریکی اعلیٰ تعلیم اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔

اسٹیو فاکس

April 2022

کامیابی کے در کھولنا

تصویر بشکریہ سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی

ہر سال ہزاروں بھارتی طلبہ اعلیٰ معیار ی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی امریکی یونیورسٹی یا کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔ ادارہ برائے بین الااقوامی تعلیم کی سالانہ اوپن ڈورس رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۱۔۲۰۲۰ تعلیمی سال میں در حقیقت امریکہ آنے والے بین الاقوامی طلبہ میں ہر پانچ میں سے ایک طالب علم بھارتی تھا۔
ایک اعلیٰ معیاری تعلیم کئی اجزا پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان اجزا میں لچیلا نصاب اہم کردار ادا کرتا ہے جس کی بدولت طلبہ اپنی ضروریات کے مطابق میجر مضامین اورکلاسیز کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ اعلیٰ تحقیقی سہولیات، مخلص اساتذہ، کوآپ پروگرام (کو آپریٹو ایجوکیشن کلاس میں پڑھائے جانے والے تھیوری پیپر اور ان کے پریکٹیکل کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں کام کا تجربہ بھی شامل ہوتا ہے)جن سے حقیقی دنیا کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، مالی امداد اور اسکالرشپ، تنقیدی فکر پر زوردے سکتے ہیں اور تحقیق کے مواقع حاصل کرسکتے ہیں۔ ذاتی طور پر بین الااقوامی طلبہ کو مخصوص خدمات مثلاً تہذیبی اور ثقافتی امتزاج، رضاکارانہ مواقع، اپنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم مکمل کرنے سے قبل ہی اپنا نیٹ ورک تیار کرنے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی مشکل کام ہے مگر بہر حال ہر سال امریکی جامعات اس کام کو بخوبی انجام دیتے ہیں۔
انتخاب کی کثرت
طلبہ کے امریکہ کا رخ کرنے کی ایک بہت اہم وجہ یہ ہے کہ وہاں بین الاقوامی طلبہ کے واسطے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کثرت ہے۔قومی مرکز برائے تعلیمی اعدادو شمار کی ۲۰۲۰۔ ۲۰۱۹ سالانہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ثانوی درجات سے اوپر کی تعلیم دینے والےاداروں کی تعداد ۳۹۸۲ تھی۔ ادیتی لیلے نے یونیورسٹی آف ارکنساس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے ۔ وہ فی الحال امریکہ۔ہند تعلیمی فاؤنڈیشن کی ممبئی شاخ میں ایجوکیشن یو ایس اے میں مشیر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں ۔ لیلے بتاتی ہیں ’’طلبہ کے پاس انتخاب کرنے کے واسطے کثیر تعداد میں اختیارات موجود ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں’’امریکہ میں چھوٹے، متوسط اور بڑےجامعات ہیں۔ ان میں سے بعض شہروں میں واقع ہیں تو بعض دیہی علاقوں میں۔ ان میں عوامی یونیورسٹیاں بھی ہیں اور نجی یونیورسٹیاں بھی۔کمیونٹی کالج بھی ہیں جن میں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کو ایسوسی ایٹ کی ڈگری ملتی ہے اور پھر آپ چار سالہ تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ آپ ان جامعات کا بھی انتخاب کرسکتے ہیں جو بین الاقوامی طلبہ کو زیادہ مالی امداد فراہم کرتی ہیں۔ ان سب کا انحصار آپ کی اپنی مخصوص ضروریات اور ذاتی ترجیحات پر ہوتا ہے۔‘‘
ارش ٹھاکر نے اپنے اعلیٰ تعلیمی سفر کا آغازفُٹ ہِل کالج سے کیا تھاجو کیلیفورنیا کی سلی کون ویلی کے ایک چھوٹے سے قصبے لاس ایلٹاس ہِل میں واقع ایک کمیونٹی کالج ہے۔ ارش کا ماننا ہے کہ چھوٹی عمر میں شروعات کرنے کا فائدہ ان کو یہ ہوا کہ انہیں امریکی ماحول میں خود کو ڈھالنے میں آسانی ہوئی۔ ٹھاکر نے کمیونٹی کالج سے دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعدسان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ کمیونٹی کالج میں اپنے تجربہ کے متعلق بتاتے ہیں’’فُٹ ہِل کالج میں تعلیم حاصل کرنے سے میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی اور مجھے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا آگیا۔ گوکہ میں ایک کمیونٹی کالج کا طالب علم تھا ،اس کے باوجود میں نے اعلیٰ معیار کی تدریس اور مدد حاصل کی۔ اسی وجہ سے مجھے امریکی ماحول میں خود کو ڈھالنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔مشیروں اور اسٹیم مراکز تک رسائی نے میرے تعلیمی تجربہ کو مزید بہتر بنا یا۔ کلاس میں کم طلبہ ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مجھے اپنے اساتذہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا جو کہ یقینی طور پر مدد گار ثابت ہوا۔‘‘
وَیبھو اروڑہ(جو انڈیانا کے علاقہ ساؤتھ بینڈ میں واقع ناٹرے ڈیم یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں)کے لیے اپنے میدان سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور حضرات سے ملاقاتیں کرنا نہایت ہی کارآمد ثابت ہوا۔ وہ بتاتے ہیں ’’ میرے پاس ایسے ذرائع موجود تھے جن کو بروئے کار لاکر میں ان چیزوں کا حقیقی دنیا میں نفاذ کرسکنے پر قاد ر تھا جو میں نے کلاس روم میں سیکھی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھے مختلف صنعتوں میں کام کرنے والے افراد سے ملاقات کرنے کا موقع بھی ملا۔ میں نے سینئر اور قابل پیشہ ور حضرات سے تبادلہ خیال کیا جس سے مجھے مختلف نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ۔ ساتھ ہی میری راہنمائی کی گئی تاکہ میں صنعت میں مسائل کو حل کر سکوں۔‘‘
اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کی طالبہ اننیا پوٹلا پلی ، جن کا میجر مضمون بزنس ہے، قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ انہیں مختلف ذرائع سے مواقع حاصل ہوئے۔ وہ کہتی ہیں ’’امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے سے آپ میں وسیع المشربی پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی کالج کا بھی ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے۔ کلاس روم کے اندر اور کلاس روم کے باہر آپ کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملتا ہے مثلاً طلبہ تنظیمیں اور انٹرن شپ کے مواقع اور بھی بہت کچھ۔ جب آپ کیمپس میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کے پاس اپنی دلچسپی کی چیزیں کرنے کی آزادی اور لچیلا پن ہوتا ہے۔ آپ کو شاندار برادریاں تشکیل دینے کے مواقع ملتے ہیں۔ اور یہ بہت اچھا تجربہ ہوتا ہے۔‘‘
نرمتا رائے(جو یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا سے الیکٹرکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں) امید کرتی ہیں کہ وہ دیگر خواتین کے لیےمشعل راہ بنیں گی۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے ہمیشہ سے ہی احساس تھا کہ خواتین انجینئرس کی زیادہ ضرورت ہے۔ لہذا میں نے تحقیق میں وقت صرف کرنے کے موقع کا فائدہ اٹھایا اور اپنے نگراں کی نگرانی میں ماسٹر کا تحقیق مقالہ لکھا۔اپنی ماسٹر کی تعلیم مکمل کرنے بعد میں نے ڈھائی برس تک الیکٹرانک امریکہ نامی کمپنی میں بطور انجینئر کام کیا۔ مگر پھر اپنی تحقیقی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کے لیے میں نے یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ میں لڑکیوں کو ترغیب دینا چاہتی ہوں کہ وہ زیادہ سےزیادہ تعداد میں انجینئر بنیں اور دقیانوسی تصورات کو ختم کریں۔‘‘

امدادی نیٹ ورک

لیلےزور دے کر کہتی ہیں کہ امریکی جامعات بین الاقوامی طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا کر یئربنانے میں مدد کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ تعلیم کے دوران اس امر کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ کیمپس میں طلبہ کا وقت آرام سےگزرے اور انہیں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ وہ بتاتی ہیں’’امریکی جامعات اپنے طلبہ کو کامیاب کرنے کے لیے بہت سارے وسائل صرف کرتی ہیں۔ ان کے بہت ہی شاندارمینجمنٹ مراکز ہیں، سابق طلبہ کے نیٹ ورکس ہیں۔ اور اس کے علاوہ جسمانی اور نفسیاتی صحت خدمات کے مراکز بھی ہیں۔ وہ اپنے طلبہ کی جذباتی صحت کا بھی خیال رکھتی ہیں۔‘‘
بین الاقوامی طلبہ کو امریکی جامعات میں رواداری اور وسیع المشربی والا ماحول میسر آتا ہے۔ امریکی جامعات طلبہ اور اساتذہ دونوں میں ہی تنوع کو فروغ دیتی ہیں۔ یہاں دنیا کے دیگر خطوں سے آئے افراد سے ملنے کا موقع بھی ملتا ہے جو بہترین چیز ہے۔

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچور ا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے