ماحول دوست منصوبہ بندی

’ پاور پروجیکٹ ‘کے توسط سے خواتین ماحول دوست طریقے پر مستقبل کی کمان سنبھال رہی ہیں۔

جیسون چیانگ

July 2022

ماحول دوست منصوبہ بندی

خواتین کاریگروں جنہوں نے ’پاور پروجیکٹ‘ کے تحت تربیت حاصل کی ہے وہ کیلا، بانس اور غیر عمارتی لکڑی کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر اور ان سے ماحول دوست مصنوعات بنا کر کاربن کے ماحول میں اخراج کو کم کر رہی ہیں ۔ تصویر بشکریہ یو ایس ایڈ انڈیا۔

تمل ناڈو کی پورن پیچی ٹوکری بُنائی کا کام کرتی ہیں ۔ وہ دو بچوں کی ماں ہیں ۔ کووِڈ ۔ ۱۹وبائی مرض کے دوران انہیں’ پروڈیوسر اوونڈ ویمن انٹرپرائزیز ‘(پاور ) پروجیکٹ سے حاصل کردہ تربیت کے ذریعے اپنی دستکاری کو نکھارنے اور ایک ہنر مند کاریگر بننے کا موقع ملا۔ پورن پیچی کو اپنی آئندہ نسل کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے خیال نے ترغیب دی ہے ۔ وہ بتاتی ہیں ’’مجھے ایک دن میں دو ٹکڑے بنا کر تحریک ملتی ہے کیونکہ میں جتنا زیادہ بناتی ہوں، اتنا ہی زیادہ کما سکتی ہوں۔اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے کنبے کی قرض سے نجات اوراپنے بچوں کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے میں مدد کر سکتی ہوں۔‘‘

امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (یو ایس ایڈ ) اور بینگالورو کے انڈسٹری فاؤنڈیشن نے ۲۰۱۹ء میں ’ پاور پروجیکٹ‘ شروع کیا۔ پروجیکٹ کی خاکہ کشی بھارت کے دیہی علاقوں میں مقیم خواتین کو معاشی مواقع دستیاب کروانے کے خیال سے کی گئی۔ ۳ برس بعد پروجیکٹ اب معاشی خود انحصاری سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ شرکااب نہ صرف اپنے لیے محفوظ مستقبل کی تعمیر کی خاطر بلکہ وافر مقدار میں دستیاب مقامی قدرتی ریشوں کو ماحول دوست مصنوعات میں تبدیل کر کے کاربن کےماحول میں اخراج کو کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے بھی ہنر مند ہو رہے ہیں۔

پاور پرو جیکٹ قبائلی اور دیہی علاقوں کی خواتین کو قدرتی ریشوں جیسے کیلے، بانس اور غیر عمارتی لکڑی کی جنگلاتی پیداوارسے مصنوعات بنانے کی تربیت دیتا ہے۔ یہ تربیت ان کو اپنا کام شروع کرنے کی خاطر چھوٹی موٹی پیداواری اکائی بنانے میں مدد دیتی ہے۔ یہ انہیں قومی اور عالمی منڈیوں سے جڑنے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے تحفظ میں ان کے کردار اور مصنوعات کی تیاری کے لیے خام مال کے حصول اور اس سے سامان بنانے کے اخلاقی طریقوں کو سمجھنے کابھی اہل بناتی ہے۔

خواتین کو بااختیار بنانا

یو ایس ایڈ انڈیا کی جنرل ڈیولپمنٹ آفس میں جنگلات کے ماہر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ورگھیش پَول کہتے ہیں ’’ تربیت کا ایک کلیدی پہلو صنفی طور پر بااختیار بنانا ہے ۔ اس سے دیہی طبقات میں دور رس نتائج کی حامل تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں آئندہ نسلوں کو بدل کر رکھ دینے کے امکانات مضمر ہیں ۔ اس سے پیداوار کے شعبے میں پیش قدمی کرنے والی خواتین تخلیقی طور پر پیداواری اداروں کو چلانے کے لیے درکار ہنرمندیاں سیکھتی ہیں ۔ اس سے انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔تخلیقی طور پر اپنی پیداوار ی اکائیوں کو چلانے کے لیے درکار ہنرمندیوں میں خواتین پروڈیوسروں کی تربیت کرکے خواتین کو اس لائق بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔‘‘

اڈیشہ میں عمارتی لکڑی کے بغیر جنگلاتی پیداوار کے ساتھ کام کرنے والی قبائلی خواتین کو تربیت دینے والی میخالا کہتی ہیں کہ پاور پروجیکٹ سے سب سے بڑا فائدہ انہیں صنفی مساوات کے تصور کو جاننے اور سمجھنے میں ملا ۔ وہ بتاتی ہیں ’’ میں اب سمجھ گئی ہوں کہ روزگار اوراقتصادی آزادی ایک مساوی حق ہے۔ بیٹیاں بھی کام کرنے اور کمانے کی خواہش کر سکتی ہیں ۔ انہیں بھی بیٹوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں۔‘‘

تمل ناڈو سے تعلق رکھنے والی ٹرینر دھن لکشمی کیلے سے متعلق’ ویلیو چین ‘(کسی چیز کی پیداوار ، اس کی بازار کاری اور فروخت کے بعد مہیا کرائی جانے والی خدمات وغیرہ)میں کام کرتی ہیں۔ پاور پروجیکٹ کے تحت صنفی طور پر بااختیار بنانے کی تربیت کے ذریعے انہوں نے صنفی کردار ، مواقع اور علاقائی کام کے ماحول کے بارے میں سیکھا۔ دھن لکشمی اب ایک خاص مقصد کی سمت میں کام کر رہی ہیں تاکہ ان کی بیٹیاں مالی طور پر خود کفیل ہوں ۔ وہ کہتی ہیں’’میری بیٹیوں کو اپنی پڑھائی اچھی طرح سے کرنی چاہیے اور مالی طور پر خود کفیل بننا چاہیے تاکہ وہ اپنی دیکھ بھال کر سکیں اور اچھی زندگی بسر کر سکیں۔‘‘

جامع طریقہ کار

پاور پروجیکٹ کے تحت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کے ماتحت کام کرنے والی پیداواری اکائیاں خود کفیل بن سکیں۔ اس کے تحت پیداواری اکائیوں کی تربیت ، اس کے اہلکاروں کی تکنیکی اور دیگر تدریس، مصنوعات کی خاکہ کشی ، جدت کی حوصلہ افزائی ، بازاروں تک رسائی ، کام شروع کرنے کے لائق سرمایہ اور حصے داری جیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر، تمل ناڈو میں پاور پروجیکٹ کے تعاون سے چلنے والی تنظیم’ گرین کرافٹ ‘ کی مصنوعات ( کیلے کی چھال سے ٹوکریاں بنانا) آئیکیا اور کاراوَین جیسے عالمی گاہک خریدتے ہیں۔ اب تک ۲ ملین ڈالر کے بقدر مالیات کی مصنوعات بین الاقوامی خوردہ فروشوں کو بیچی جا چکی ہیں۔

مزید برآں، گرین کرافٹ کے اراکین(جو اس کے مالک بھی ہیں ) کو مستقل بنیادوں پر باقاعدگی کے ساتھ محنت کشوں کے معیار کے مطابق سہولیات ملتی ہیں جن سے وہ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس ہنرمندی کے فروغ اور عملی زندگی میں ترقی کے لیے سماجی تحفظ ،پنشن فوائد، صحت بیمہ، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر مواقع بھی دستیاب ہیں۔

گرین کرافٹ کے متعدد اراکین اپنی زندگی میں پہلی بار پیسے کما رہے ہیں۔پاور پروجیکٹ ان کی مدد کے لیے انہیں ڈیجیٹل بینکنگ، غذائیت اور صحت جیسے اہم شعبوں میں زندگی کی ہنرمندی کی تربیت فراہم کرتا ہے۔

پاورپروجیکٹ نے اب تک کرناٹک، تمل ناڈواور اڈیشہ میں خواتین کی ملکیت والی ۲۸ اجتماعی صنعتیں قائم کی ہیں ۔ اس نے دیہی اور قبائلی علاقوں میں ۶۸۰۰ سے زائد خواتین کو کامیابی کے ساتھ پروڈیوسر اور صنعت کار بننے میں مدد فراہم کی ہے۔

جیسون چیانگ ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں جو لاس اینجلس کے سلور لیک میں مقیم ہیں ۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے