دور اندیش چانسلر

چانسلر پردیپ کھوسلا کی قیادت میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کا سان ڈیاگو کیمپس( یو سی سان ڈیاگو )ایک تعلیمی اور تحقیقی مرکز کے طور پر ابھرا ہے اور اس نے یونیورسٹی اور معاشرے کی شراکت داری کو مضبوطی فراہم کی ہے۔

اسٹیو فاکس

January 2023

دور اندیش چانسلر

(تصویر بشکریہ ایرک جیپسین، یوسی سان ڈیاگو)

جب پردیپ کھوسلا نے اگست ۲۰۱۲ءمیں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا  کے سان ڈیاگو کیمپس(یو سی سان ڈیاگو) کے چانسلرکی ذمہ داری سنبھالی تو انہیں اس بات پر یقین تھا کہ یونیورسٹی کا قیام عظمت کے لیے ہوا ہے۔ لہذا ،انہوں نے ایک پرعزم لائحہ عمل پر کام شروع کیا جسے حقیقت کی شکل بھی  آخر کار دے دی گئی۔  وہ کہتے ہیں  ’’میں نے ایک سنگ نا تراشیدہ دیکھا۔ ہم طریقہ کار کے ایک مکمل نظام کے مطابق کام کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد اس کیمپس کو وہ حیثیت عطا کرنا ہے جہاں عوامی تعلیم کے اس کے کردار اور اپنے معاشرے میں ایک عوامی ادارے کے طور پر اسے از سر نو متعارف کروایا جا سکے۔‘‘

منصوبہ بند طور پر کام  کرنے والا شخص

کھوسلا اور یوسی سان ڈیاگو نے شروع سے ہی ’’تعلیم کے ذریعہ علم پھیلا کر، تخلیقی کاموں اور عوامی خدمت میں مشغول ہو کر کیلیفورنیا اور ایک متنوع عالمی معاشرے کو تبدیل کرنے کے‘‘مشن کو اپناتے ہوئے اپنا مقصد اعلیٰ رکھا ۔ ان کا یہ مشن کامیاب ہو گیا۔ کھوسلا اب ایک ایسے کیمپس کی قیادت کر رہے ہیں جس میں ۴۳ہزار سے زیادہ طلبہ (جب وہ یہاں آئے تھے توطلبہ کی تعداد قریب قریب۲۵ ہزار تھی) ہیں، سات انڈر گریجویٹ کالج اور ۱۲ علمی، گریجویٹ اور پیشہ ورانہ اسکول ہیں۔ یوسی سان ڈیاگو میں معروف اسکریپس انسٹی ٹیوشن آف اوشینوگرافی اور یو سی سان ڈیاگو ہیلتھ کیئر سسٹم بھی موجود ہے جو ایک اعلیٰ درجے کا اسپتال اور تعلیمی ادارہ ہے۔ مالی سال ۲۰۲۲ء میں ۶ اعشاریہ ۹ بلین ڈالر کی سالانہ آمدنی کے ساتھ یونیورسٹی ایک تعلیمی اور تحقیقی مرکز ہے  جس نے مالی سال ۲۰۲۲ء میں اسپانسرڈ ریسرچ(مطالبے کی وجہ سے شروع کی گئی تحقیقی جس کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا جاتا ہو) میں ایک اعشاریہ ۶۴ بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کو ترغیب دی ۔

کھوسلا کہتے ہیں ’’ہم نے یو سی سان ڈیاگو کوعمدگی کے بہت سارے انفرادی گودام کی جگہ ایک جامع کیمپس میں تبدیل کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں ’’ ہم لوگ رقم اکٹھا کرنے، کمیوں کو دور کرنے اورکیمپس کو پورے معاشرے کے لیے ایک عوامی ادارے کے طور پر از سر نو متعارف کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کیمپس کو تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے علاوہ فنون لطیفہ اور ثقافت کی منزل بننے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف اپنے معاشرے کے لیے نہیں بلکہ پورے کیلیفورنیا اور پوری دنیا کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘

اب زندگی کی  ۶۵ بہاریں دیکھ  چکے کھوسلا شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے بھی ہیں۔ آئی آئی ٹی  کھڑگپور سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے کریئر کا بیشتر حصہ ریاست پنسلوانیا کے شہر  پٹسبرگ میں واقع کارنیگی میلن یونیورسٹی میں گزارا جہاں

انہوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹر آف سائنس اور الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی  کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے کارنیگی میلن میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اورپھر کالج آف انجینئرنگ کے ڈین اور یونیورسٹی کے پروفیسر بنے۔

اگرچہ اب وہ روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور سائبر سکوریٹی میں تحقیقی دلچسپی رکھنے کے علاوہ بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق اور ماہر تعلیم ہیں لیکن کھوسلا کو ۱۹۸۱ء میں امریکہ پہنچنے کے بعد امریکی اعلی ٰتعلیمی نظام میں ہم آہنگ ہونا پڑا تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’’میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھائی کرنے کا عادی نہیں تھا۔ میں بھارت میں ان ’طلبہ‘میں سے ایک تھا جو بس امتحان سے پہلے پڑھائی کرتےہیں۔ جب میں امریکہ آیا تو معلوم ہوا کہ یہاں روزانہ ہوم ورک ملتا ہے اور ہر دوہفتے میں ایک ٹیسٹ ہوا کرتا ہے۔ اب میں نے ہر روز مطالعہ کرنا شروع کیا اور پھر مجھے لگا کہ میرے لیے اس کا حتمی نتیجہ مواد کی گہری تفہیم تھی۔‘‘

بھارت سے تعلق

یو سی سان ڈیاگو کے بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ ۲۰۲۲ء کے موسم خزاں تک یونیورسٹی میں بھارت سے تعلق رکھنے والے ۱۳۶۷ طلبہ زیر تعلیم تھے جو ایک سال پہلے کے مقابلےقریب قریب ۳۰ فی صد زیادہ  تعداد ہے ۔ یوسی سان ڈیاگو میں بھارت کے ۲۶۵ بین الاقوامی اسکالرس بھی پڑھائی کرتے ہیں۔

یو سی سان ڈیاگونے ، ٹاٹا ٹرسٹز  اور بینگالورو میں واقع انسٹی ٹیوٹ فار اسٹیم سیل بایولوجی اینڈ ریجنریٹو میڈیسن کے مابین تعاون یعنی ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ فار جینیٹکس اینڈ سوسائٹی سمیت پورے بھارت میں مختلف شراکت داروں کے ساتھ باہمی طور پر مفید تحقیقی تعاون کیےہیں۔  یونیورسٹی نے حال ہی میں ٹوینٹی فرسٹ سینچری انڈیا سینٹر کا آغاز کیا ہے جو بھارت میں پائیدار ترقی سے متعلق تحقیق، تعلیم اور عوامی شمولیت اور امریکہ ۔ بھارت تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے  عالمی معیار کے مرکز کے طور پر کام کرے گا۔

پرجوش مہمات کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کھوسلا سرمایہ یکجاکرنے میں بے حد کامیاب رہے ہیں۔  اپنی مدت کار میں انہوں نے ۳ بلین ڈالرسے زیادہ رقم اکٹھا کرنے اور عطیہ دہندگان کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے میں بے حد کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’سرمایہ یکجا کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جس میں طول و عرض میں کئی بار کئی افراد سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک اس کا معاملہ ہے، لوگ  صرف دوباتوں پر توجہ دیتے ہیں۔ ایک عظیم خیالات اوردوسرے وہ جن پر انہیں اعتماد ہے۔  میرے خیال میں یہ واقعی اہم ہے اور ایک رہنما کی حیثیت سے مجھے افراد  کے ساتھ اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کی محنت کی کمائی ضائع نہیں ہونے والی ہے بلکہ اسے نتیجہ خیز اور مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

اگرکھوسلا کو یہ سب کرنے کا موقع  دوبارہ ملتا ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لیےپھر امریکہ جانا چاہیں گے۔ ان کا کہنا ہے ’’ گذشتہ چند برسوں کے تمام نشیب و فراز کے باوجود امریکہ اب بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے پسندیدہ مقام ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں’’امریکہ جیسا کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔  اعلیٰ تعلیم میں امریکہ کی سرمایہ کاری کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ امریکہ جانتا ہے کہ دولت کیسے پیدا کی جاتی ہے  اوراپنے شہریوں اور تارکین وطن کے لیے یکساں مواقع کس طور پر  پیدا کیے جاتے ہیں۔‘‘

کھوسلا امریکہ اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات کے انتھک اور پرجوش حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں  ’’میرے خیال میں ہم بھارتی صنعت اور تعلیمی اداروں اور امریکی صنعت اور امریکی تعلیمی اداروں کے درمیان تعلقات کو جتنا مضبوط بنا سکیں، اسی قدر یہ دونوں ممالک اور دنیا کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں ’’میں دونوں ممالک کو قریب لانے، ثقافتی خلا اور تکنیکی خلا کو پُر کرنے کے لیے یہاں ہوں۔ میں اسے کئی برسوں سے انجام دے رہا ہوں اورآگے بھی  ایسا کرتا رہوں گا۔ میں اپنے تمام بھارتی دوستوں سے، جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، کہتا ہوں کہ کھلے دل کے ساتھ آئیں،  میں آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں۔آپ جو بھی ہیں، میں اس کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے