یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن کی مالی اعانت نے بنارس کے تاریخی بالا جی گھاٹ کو ایک دستاویزی شکل دینے اور اسے تحفظ فراہم کرنے میں مدد کی ہے۔
January 2019
بے شمار لوگ بنارس کا دورہ دریائے گنگا کے ساحلوں(جیسے بالا جی گھاٹ) کا نظارہ کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ تصویر بشکریہ اِنٹَیک۔
۱۷۳۵ءسے ہی تمام بھارت سے زائرین نے دریائے گنگا کے کناروں سے نیچے کی طرف پانی کی سطح تک جانے والی پتھر کی وسیع اور شاندارسیڑھیوں کو اورزینوں کی بالائی سطح پرایستادہ آسمان سے باتیں کرنے والے خوبصورت اورشاندار محل کودیکھنے کے لیے بنارس کا سفر کیا ہے۔
خواہ وہاں پوجا پاٹھ کی بات ہو یا رسم و رواج کی ادائیگی کی ، مقدس سمجھے جانے والے دریا میں نہانے یا یا پھرمُردوں کو جلانے کی:بنارس کے معروف بالاجی گھاٹ کوسیّاحوں نے بھارت کے سب سے زیادہ دورہ کیے جانے والے مذہبی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔اس طرح کی مقبولیت بلا شبہ تلخی اور شیرنی کا امتزاج لیے ہوئے ہوتی ہے کیوں کہ صدیوں سے عقیدت مندوں کے دوروں نے جہاں اس گھاٹ کی میراث کو اس کی موجودہ حیثیت دینے میں تعاون کیا ہے،وہیں اس کی ابتری کومہمیز بھی کیا ہے۔
۱۹۹۹ءمیں بہت زیادہ استعمال اور مناسب دیکھ بھال کے نہیں ہونے سے لے کر زلزے اور سیلاب جیسے عوامل کی وجہ سے بالاجی گھاٹ کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔اس کے بعد ایک دہائی تک یہ ڈھانچہ ویسے ہی رہا ،اور کمزور اور برباد ہوتا رہا۔
ستمبر۲۰۰۹ ءمیں ایک بار پھر بالا جی گھاٹ تباہ کن انہدام کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں نوبت خانہ کا فرش برباد ہوگیا۔اصل میں نوبت خانہ مندر کے سرود گاہ کی بنیاد ہے۔
اس کے بعد ایسا لگنے لگا کہ اگر جلد ہی مرمت کی کاروائی نہیں کی گئی تو یہ جگہ گرد و غبار اور ملبے میں تبدیل ہو کر بس یادوں تک محدود رہ جائے گی۔
خوش قسمتی سے ۲۰۰۹ ءمیں ہی ایک غیر منافع بخش تنظیم ،انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچر(اِنٹَیک) نےبھارت کے اس ورثے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کمر کسی اور اس جگہ کو دستاویزی شکل دینی شروع کی۔۲۰۱۲ءمیں یہاں بین الاقوامی سطح کی بحالی کی ایک کوشش شروع ہوئی۔ گھاٹ کو محفوظ رکھنے اور بحال کرنے کی اِنٹَیک کی کوششوں کو امریکی محکمہ خارجہ کے یو ایس ایمبسڈرس فند فار کلچرل پریزرویشن(اے ایف سی پی) سمیت مختلف ذرائع سے حمایت ملی۔ اے ایف سی پی دنیا بھرکے ۱۰۰ سے بھی زیادہ ممالک میں ثقافتی مقامات، ثقافتی اشیاءاور روایتی اور ثقافتی اظہارات کی صنفوں کے تحفظ کی امدادکرتا ہے۔
بالا جی گھاٹ کے معاملے میں اے ایف سی پی کی جانب سے اِنٹَیک کو دی گئی ۵۶ ہزار ڈالر (قریب ۴۰ لاکھ روپے)کی مالی اعانت نے اس عمارت کی تفصیلی معلومات کی فراہمی کو ممکن بنایاجو کسی بھی عمارت کی بحالی کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک لازمی عمل ہے ۔ساخت سے متعلق پہلی خاکہ کشی سے پہلے بھی قابل قدر کام کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ مونیو مینٹس فنڈ (جس نے بالا جی گھاٹ کو ۲۰۱۲ ءمیں ورلڈ مونیو مینٹس واچ لِسٹ میں شامل کیا )کے مطابق اس ڈھانچے کے تباہ ہو چکے حصے سے ۷۰۰ ٹن ملبے کو صاف کیا گیا اوریہ معلوم کیا گیا کہ جب تعمیر نو کا کام ہو تو کون سے حصے اس میں دوبارہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ورلڈ مونیو مینٹس واچ،نیو یارک میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم ورلڈ مونیو مینٹس فنڈ کا ایک پروگرام ہے، جس کی رُو سے خطرے سے دوچار ورثوں کی شناخت کی جاتی ہے اور ان کے تحفظ کے لیے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
اوپر بائیں: بحالی سے پیشتر بالا جی گھاٹ کے بعض حصوں کی ابتر حالت کی تصویر۔ اوپر دائیں: بالاجی گھاٹ کے بحال شدہ ایک حصے کی تصویر۔(تصاویر بشکریہ اِنٹَیک)
اسے دستاویزی شکل دینے کی ابتدائی کوششوں میں ڈھانچے کے ماضی کو مکمل طور پر سمجھنے میں اِنٹَیک کی مدد کے لیے دستاویزاتی تحقیق بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی عمارت کی کھڑکیوں، دروازوں اور تعمیراتی کام میں استعما ل ہونے والے مادّوں کی تصویر کشی کی دستاویز بنانے اور معماری آرائش کا بغور جائزہ بھی لیا گیا۔ اس بصری ریکارڈ میں پیمائش شدہ ڈرائنگس کا سلسلہ بھی شامل تھا جس کا مقصد عمارت کے تناسب، اس کی خصوصیت اور تعمیراتی تفصیلات کا اندراج اور بحالی کے عمل کے ذریعے اِنٹَیک کے ماہرین کی راہنمائی تھا۔
اے ایف سی پی نے عمارت کے لازمی اجزا، اینٹوں اور تعمیر کے مسالوں کے معائنے میں اوراسے دستاویزی شکل دینے میں بھی مدد کی ۔ ماہرین نے لکڑیوں کی جانچ کی تاکہ اس میں نمی کااور اس کی بتدریج خرابی کا علم ہو۔ اس میں استعمال ہونے والی اینٹوں اور چونے کے پتھروں کی جانچ ، اس کی مضبوطی اور اس کے برتاؤ کو دیکھنے کے لیے کی گئی تاکہ یہ تعمیر پانی اور دیگر چیزوں کا مقابلہ کر سکے ۔اس کا مقصد گھاٹ کی عمارت کی بنیادی اشیا ءکے بارے میں سمجھنا تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آنے والی صدیوں کا یہ کس طرح مقابلہ کرسکے گی۔ پھر یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ بحالی کے کام کے لیے نئے مادّوں کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا جسے موجودہ ڈھانچے میں ہی جوڑا جانا تھا ۔
اسے دستاویزی شکل دینے کی کوششیں شگافوں اور خرابیوں کی نگرانی، عمارت کے ساختی نظام،اس کی بنیاد کے تجزیے،مستقبل میں آنے والے سیّاحوں کی حفاظت اور ان کے دوروں کو مستحکم کرنے کے لیے زینے جیسے اندرونی عناصر کی مکمل آزمائش سے شروع ہوئیں۔
اس طرح کے ابتدائی کام اس پروجیکٹ کی حتمی کامیابی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل تھے ۔اِنٹَیک کے آرکی ٹیکچرل ہیریٹیج ڈیویژن کی پروجیکٹ ڈائرکٹر بِندو منچندا کہتی ہیں ”بالا جی گھاٹ کے احیا اور بحالی کی راہ ہموار کرنے میں ایمبسڈرس فنڈ پہلا اہم قدم تھا۔‘‘
منچندا اور اِنٹَیک کے ان کے ساتھیوں نے اس کے بعد کے برسوں میں اس ڈھانچے کو بحال کرنے کی خاطر سخت محنت کی ۔ انہوں نے پھر سے تعمیر شدہ بالا جی گھاٹ کو حتی الوسع اس کی میراث کے شایا ن شان رکھنے کی کوشش تو کی ہی ، اسے سیّاحوں کے لیے مزید خوبصورت اور پُر کشش بنانے کی کوشش بھی کی۔منچندا اپنی کتاب دی سٹی فار ایور: وارانسی بالاجی گھاٹ اِنی شی ایٹو میں لکھتی ہیں کہ بحالی کے بعد اس عمارت کو عجائب گھر اور ثقافتی مرکز کے طور پر استعمال کے لیے تیار کیا گیا ۔وہ اس منصوبہ کو بنارس کا اپنی طرح کا واحد پروجیکٹ قرار دیتی ہیں۔وہ امید کرتی ہیں کہ مقامی باشندوں اور سیاحوں کے لیے تعلیمی اعتبار سے بھی اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
وہ کہتی ہیں ”اس پروجیکٹ کی اہمیت اور بھی زیادہ اس لیے بڑھ جاتی ہے کیوں کہ بنارس میں یہ وہ واحد گھاٹ ہے جس کا احیا غیر مذہبی اور غیر کاروباری مقصد کے تحت صرف عوام کے مفاد کے لیے کیا گیا ۔ اس میں ایک میوزیم ہے۔ افہام و تفہیم کا ایک مرکزہے اور بنارس کے لوگوں اور ان کے اطراف کی زندگی ، ہنر مندی اور ثقافت کو پیش کرنے والی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ایک آڈیٹوریم بھی ہے۔‘‘
منچندا کے لیے یہ پروجیکٹ پیشہ ورانہ اور ذاتی دونوں اعتبار سے کافی اہم تھا۔ وہ اعتراف کرتی ہیں ”میں خود کوخصوصی طورپر خوش قسمت خیال کرتی ہوں کیوں کہ مجھے بنارس شہر میں ا س جادوئی گھاٹ کے وقار کو پھر سے بحال کرنے کا موقع ملا جہاںلاکھوں لوگ موکچھ پراپتی کے لیے آتے ہیں۔‘‘
مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں ۔ وہ نیویارک سٹی میں رہتے ہیں۔
تبصرہ