ڈیجیٹل آلات کے ذریعہ صحت کو فروغ دینا

یو ایس اے آئی ڈی(یو ایس ایڈ) کی مالی امداد سے چلنے والا پروجیکٹ سمواد، ویڈیوز اور دیگر ڈیجیٹل آلات کے ذریعے خواتین کو صحت اور غذائیت سے متعلق بہترین طریقوں کی جانکاری دیتا ہے۔

پارومیتا پین

March 2020

ڈیجیٹل آلات کے ذریعہ صحت کو فروغ دینا

صحت کارکنان کو ویڈیو دکھانے کے لیے پروجیکٹر استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی هے۔ تصویر بہ شکریہ ڈیجیٹل گرین

صحت عامہ کے پروگراموں کی کامیابی کے لیے مؤثر اور بروقت مراسلات کی حیثیت ایک کلیدی ضرورت کی ہے۔ یہ صحت سے متعلق امور کے بارے میں سامعین کو آگاہ کرنے، متاثر کرنے اور انہیں ترغیب دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس نقطہئ نظرپر مبنی پروجیکٹ سمواد کے تحت ہندمیں دیہی طبقات میں خاندانی منصوبہ بندی، زچگی،بچوں کی صحت اور تغذیہ سے متعلق معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے پیغام رسانی اور بات چیت کی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ)کی مالی امداد والاایک پروجیکٹ، جسے ڈیجیٹل گرین نے ملک کی ۶ ریاستوں میں نافذ کیا ہے، اپنے پیغامات کی ترسیل کے لیے ویڈیوزکا استعمال کرتا ہے۔ڈیجیٹل گرین ایک عالمی ترقیاتی تنظیم ہے جس کا صدر دفتر نئی دہلی، کیلیفورنیا، نیز ایتھوپیا کی راجدھانی اور وہاں کے سب سے بڑے شہر ادیس ابابا میں بھی ہے۔

پروجیکٹ سموادکے ویڈیوزکمیونٹی ارکان کی مدد سے صحت اور تغذیہ کے عمدہ طریقوں کے ساتھ ساتھ طبقات کے ذریعہ اور اس کے لیے مقامی طور پر تیار کیے گئے متعلقہ مواد بھی دکھاتے ہیں۔ تربیت یافتہ صحت کارکنان بیٹری سے چلنے والے پروجیکٹروں کے ذریعہ ۱۵۔۲۰ افراد پر مشتمل دیہی گروپوں کو یہ ویڈیوز دکھاتے ہیں۔

پروجیکٹ سمواد خواتین اور مرد دونوں (بالخصوص تولیدی عمر کے افراد) کو ہدف بنانے کے لیے دستیاب سرکاری اور نجی رسائی کے ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ یہ قومی صحت مشن، قومی تغذیہ مشن، وزارت برائے خواتین و بہبود اطفال اور قومی دیہی ذریعہئ معاش مشن کے ریاستی سطح کے ہم منصبوں کے ساتھ شراکت داری کرتاہے۔ پروجیکٹ سمواد نے ریڈیو اورانٹرایکٹو وائس رسپانس سسٹم (آئی وی آر ایس)پیغامات کے ساتھ ویڈیو پر مبنی نقطہئ نظر کی تکمیل کے لیے سینٹر فار یوتھ اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ اور گرام وانیجیسی دیگر تنظیموں کے ساتھ بھی تعاون کیا ہے۔مثال کے طور پرسمواد موبائل وانی ڈراموں، شہادت ناموں اور نشریاتی موادکا ایک امتزاج پیش کرتا ہے جس میں رویوں کو بدلنے اور فوری کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔اس کے علاوہ یہ ایک دو طرفہ مواصلاتی پلیٹ فارم کے طور پر بھی کام کرتا ہے جس میں سننے والے اپنے خیالات اور پیغامات شیئر کر سکتے ہیں۔

سنہ ۲۰۱۵ ء میں شروع ہوئے پروجیکٹ سموادکی رسائی ۶ ریاستوں (بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ، چھتیس گڑھ، اتراکھنڈ اور آسام)میں براہ راست طور پر ۶ لاکھ دیہی خواتین تک اور بالواسطہ طور پر ایک اعشاریہ۹ ملین کنبوں اور کمیونٹی اراکین تک ہے۔ ڈیجیٹل گرین میں سمواد کی پروجیکٹ ڈائریکٹر ریتیکا پانڈے کہتی ہیں ”یو ایس ایڈ اور ریاستی سرکاری محکموں کے ساتھ شراکت داری نے ان لوگوں کی تعداد کو دوگنا کرنے میں ہماری مدد کی ہے جن تک رسائی کا منصوبہ ہم نے ابتدائی طور پر بنایا تھا۔“

پروجیکٹ سمواد کے تحت کمیونٹی سطح کے صحت کارکن جیسے کہ تسلیم شدہ سماجی صحت اراکین(آشا)اور سہولت کاروں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ رویوں میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی کے لیے مقامی زبانوں میں ویڈیو تیار کریں۔پانڈے باخبر کرتی ہیں ”آشا اراکین برادریوں کے ساتھ قریب سے جڑے ہوئے ہیں اور صحت اور تغذیہ سے متعلق مختلف عادات کے ساتھ ساتھ ان رکاوٹوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں جو ان کے رویہ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔وہ سامعین کو مدعو کرنے اور انہیں فلمیں دیکھنے کی تحریک دینے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ یہ تعاون بھی انتہائی اہم ہے۔“

پانڈے اپنی بات جاری رکھتی ہوئی کہتی ہیں ”ڈیجیٹل گرین کے زراعت سے متعلق ویڈیوز میں تکنیک کا مظاہرہ کام آتاہے کیوں کہ بہتر فصلوں کی پیداوار اور صحت مند فصل ایسے ٹھوس نتائج ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر صحت اور غذائیت سے متعلق رویے زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔مفروضوں اور طے شدہ نظریات ایسی چیزیں ہیں جن سے نمٹا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، معاشرے کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور کنبے کے اراکین، جیسے ساس اور شوہر بھی بہت اہم ہیں۔ہم ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر کام کرتے ہیں۔“

پروجیکٹ سمواداپنے منصوبوں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے والی خواتین کو پروجیکٹر استعمال کرنے اور ویڈیوز کی ترسیل کرنے کی بھی تربیت دیتا ہے۔پانڈے بتاتی ہیں ”عام طور پر ویڈیوز ۱۰ سے ۱۲ منٹ طویل ہوتے ہیں۔ انہیں نمائش کے بیچ بیچ میں روک کر تبادلہئ خیال بھی کیا جاتا ہے۔“

ایسے کسی پروگرام میں شرکت کرنے والے افراد کی حاضری کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تاکہ اس کا اندازہ لگایا جا سکے کہ کتنے لوگوں نے انہیں دیکھا ہے۔وہ ویڈیوز جو مخصوص رویوں سے متعلق بہترین طریقوں کو پیش کرتے ہیں، ان کو آنگن واڑیوں میں موجودہ کمیونٹی گروپوں یا دیہی بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز، جوڑوں کے مشاورتی اجلاس، سیلف ہیلپ گروپوں،ماؤں کے گروپوں اور ساتھ ہی گاؤں کی صحت صفائی اور تغذیہ کے دن(وی ایچ ایس این ڈی) میں فروغ دیا جاتا ہے جو صحت اور غذائیت سے متعلق خدشات کو دور کرتے ہیں۔

طبقات ویڈیو ز میں شامل عنوانات کے تئیں کھلا رویہ رکھتے ہیں۔ پانڈے بتاتی ہیں ”چوں کہ برادری کا تحریر کے لکھے جانے سے لے کر ویڈیو بننے کے بعد اس میں اسپیشل افیکٹ کے استعمال تک کے عمل میں گہرا دخل ہوتا ہے اس لیے مرد حضرات بھی اس پر اعتراض نہیں کرتے کہ ان کے کنبے کے افراد ان ویڈیوز کو دیکھیں۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے لیے یہ ایک سماجی پروگرام بھی ہے، جہاں وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ وقت گزار سکتی ہیں“۔

ان ویڈیوز کو دیکھنے والوں کا رد عمل عام طور پر بہت ہی مثبت ہوتا ہے۔پانڈے کہتی ہیں ”خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ایک ویڈیو میں ایک شخص دکھایا گیا جو اپنی حاملہ بیوی کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتا ہے۔ اسے دیکھ کر بہت سی خواتین نے درخواست کی کہ اس ویڈیو کو ان کے خاوند کو بھی دکھایا جائے کیوں کہ ان کے خیال میں حمل کی حالت میں انہیں بھی ویسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہئے جیسا کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔

نصف سے زائد تمام ناظرین نے کم ازکم ایک صحت مند طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ حالاں کہ ایسے طریقوں کا اوسط فی کس۳ سے ۴ کا ہے۔ پروجیکٹ سموادکے حکومتی شراکت داروں نے بھی اس منصوبے کے آغاز کے بعد سے ہی وی ایچ ایس این ڈی اورٹیکہ کاری کے پروگراموں میں بڑھتی ہوئی حاضری کا مشاہدہ کیا ہے۔

ڈیجیٹل گرین کی ویب سائٹ پر اس کی پہل سے فائدہ اٹھانے والی چھتیس گڑھ کی ایک خاتون نے اپنا تاثر ان الفاظ میں بیان کیا ”میں آئرن کی گولیاں لینے میں جھجھک محسوس کرتی تھی۔ اصل میں مجھے ڈر تھا کہ اس کا غیر متوقع ضمنی اثر مجھے اس قابل نہیں رہنے دے گا کہ میں گھریلو ذمہ داریاں نبھا سکوں۔ ایک ویڈیو کی تشہیر کے دوران ٹرینر نے دیکھا کہ میرے پاؤں میں سوجن ہے۔ اس نے پوچھا کہ کیا میں فولاد والی گولیاں لے رہی ہوں۔ انہوں نے ہمیں ان گولیوں کے استعمال کی اہمیت اوران کے ضمنی اثرات سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں ایک ویڈیو دکھائی۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد میں متفق ہوگئی اور میں نے گولیاں لینی شروع کر دیں۔ میں نے اپنے گاؤں کی دوسری حاملہ خواتین کو بھی اپنی مثال بتاکر سمجھایا اور انہیں آمادہ کیا۔“

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے