کاربن کو پھر استعمال کرنا

لانزا ٹیک کی ٹیکنالوجی فضلہ کاربن کو کار آمد مصنوعات میں تبدیل کرتی ہے جس سے ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور توانائی کے تحفظ کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

کینڈس یاکونو

October 2021

کاربن کو پھر استعمال کرنا

۲۰۱۷ء میں انڈین آیل کارپوریشن(آئی او سی) اور لینزا ٹیک نے ایک مفاہمت نامے پر دستخط کیے جس کی رو سے آئی او سی کے پانی پت میں واقع تیل صاف کرنے والے کارخانے میں آف گیس سے بایو ایتھنول بنانے کی سہولت کے شروع کیے جانے کی بات کہی گئی تھی۔ تصویر بشکریہ @ یو ایس سی ایس انڈیا ۔ٹوئیٹر

 

اقوام متحدہ کے بین حکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ۲۰۲۱ء میں جاری ایک رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تباہ کن شدید موسمی اور ماحولیاتی بحرانوں کو روکنے کے لیے  کاربن ڈائی آکسائڈ اور فضائی آلودگی کی سطح میں تبدیلی لانے کی عالمی کوششیں فوری طور پر شروع ہوجانی چاہئیں۔

ایسا کرنے کا ایک طریقہ کاربن کی ری سائیکلنگ ہے۔ لانزا ٹیک میں کاروباری ترقی اور حکومتی تعلقات کے شعبے کی ڈائریکٹر اور فلبرائٹ ۔ نہرو اسکالر شپ یافتہ طالبہ پریتی جین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ’’توانائی کی ضرورت کی تکمیل کے لیے روایتی ایندھن نکالنے اور اس کا استعمال جاری رکھنے کے بجائے کاربن کی ری سائیکلنگ کی اہمیت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کاربن کو صرف ایک جنس کے طور پر استعمال نہ کیا جائے بلکہ ایک قیمتی وسائل کے طور پر دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے۔کیوں کہ دنیا کو ایک گردشتی کاربن معیشت اور ایک بہتر مستقبل کی ضرورت ہے۔‘‘

ایلی نوائے میں واقع لانزا ٹیک کو ،جس کے بھارت اور چین میں بھی دفاتر ہیں،گیس فرمینٹیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کاربن ری سائیکلنگ میںایک رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ جین کا کہنا ہے کہ پبلک ۔پرائیویٹ پارٹنر شپ اور سرکاری ریسرچ گرانٹ کے ایک سلسلے کے ذریعے کمپنی نے تحقیق کی ہے کہ آلودگی کو کار آمد مصنوعات میں تبدیل کرنے کے لیے بیکٹیریا کا استعمال کیسے کیا جائے۔مثال کے طور پر ایتھنول کاربن مونو آکسائیڈ سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل شراب کی بھٹی میں خمیر کے استعمال جیسا ہی ہے۔

جین کہتی ہیں’’لانزا ٹیک کا مقصد توانائی اور مادی ضروریات دونوں کے لیے ایک گردشی اور کم کاربن والی معیشت تیار کرنا ہے۔کمپنی کی ٹیکنالوجی کاربن فضلہ کو کم کاربن والے ایتھنول میں تبدیل کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے جسے گیسولین میں ملایا جا سکتا ہے ۔ اس سے بھارت توانائی کی سلامتی اور گرین ہاؤس گیس کو کم کرنے کے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔‘‘

بھارت میں لانزا ٹیک کےعسکری سرمایہ کار اور بورڈ ممبر،انڈین آئل، ایتھنول پروجیکٹ میں آف ۔ گیس (ایک کیمیاوی عمل  کے نتیجے میں خارج ہوکر  حاصل ہونے والی گیس ) تیار کرنے کے لیے کمپنی کے ساتھ مل کر انڈین آئل  کے پانی پت میں واقع تیل صاف کرنے والے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔ ان کے ذرائع میں لینڈ فل، ٹھوس فضلہ، نامیاتی صنعتی فضلہ اور زرعی فضلہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔  یورپ میں ایک منصوبے کے تحت اسٹیل ملوں کے کاربن کے اخراج کو ایتھنول میں تبدیل کیا جائے گا۔

لانزا ٹیک کی الکحل۔ ٹو۔جیٹ ٹیکنالوجی کا مظاہرہ ۲۰۱۸ءمیں کیا گیا تھا جب اس کی مصنوعات کا استعمال فلوریڈا سے لندن تک ورجن اٹلانٹک بوئنگ ۷۴۷طیارے کوایندھن فراہم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس طرح کی تکنیک کو بھارت میں متعارف کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔

لانزا ٹیک کی مصنوعات کا استعمال کچھ غیر متوقع اور روزمرہ کی جگہوں پر بھی کیا جاتا ہے۔جین کا کہنا ہے کہ یہ یونی لیور، لوریل اور کوٹی جیسی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اپنے ری سائیکل شدہ کاربن سے پیکیجنگ، پرفیوم، لانڈری ڈیٹرجنٹ اور گھرکی صفائی میں کام آنے والی چیزیں تیار کرتی ہے، جس سے ’’صنعت کو صحیح معنوں میں ایکگردشی معیشت اپنانے کی سہولت فراہم ہوتی ہے۔‘‘

لانزا ٹیک جیسی ٹیکنالوجیز کے ساتھ  نئی اور نظر ثانی شدہ پالیسیاں آب و ہوا کے بحران کو تبدیل کرنے کی عالمی کوششوں کی کلید ہوں گی۔ لانزا ٹیک میں پریتی جین کا ہمہ جہت کردارایسی کوششوں کے لیے جانا جاتا ہے اوریہ  سائنس پر مبنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے ان کے شوق کی وجہ سےہی مثالی خیال کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’اس کردار کی دوہری صلاحیت کو دیکھتے ہوئے میں پالیسی وکالتکی قیادت بھی کرتی ہوں جس سے کاربن کی گرفت اوراس کے استعمال کے لیے تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجیز کو تیزی سےپھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔‘‘

امریکہ میں جین کا ذاتی تجربہ اب لانزا ٹیک کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔  وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز انڈین آئل سے کیا۔ وہاں بھارت کے نیشنل کلین ایئر پروگرام  اور نیشنل آٹو فیول پالیسی کمیٹی میں کیے گئے ان کے کام نے فلبرائٹ فیلو کے طور پر ان کے انتخاب میں اہم کردار ادا کیا ۔ جین کو وسط سطح کے پیشہ ور افراد کے لیے فلبرائٹ ۔ نہرو انوائرونمنٹ لیڈرشپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس کے دوران انہوں نے نیواڈا کے ڈیزرٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بھارت کے شہروں میں محیط  فضائی نگرانی اور ماخذ پروگراموں پر کام کیا۔

وہ کہتی ہیں’’لامحدود مواقع، سیکھنے کے ناقابل فراموش تجربات اور زندگی بھر کے لیے دوست بنانے سے قطع نظر فلبرائٹ تجربے نے دنیا کے بارے میں میرے نقطہ نظر اور میرے بعد کے کریئر کے انتخاب کی تشکیل کی جو ہمیشہ توانائی کی منتقلی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے رہے ہیں۔‘‘

کینڈس یاکونوجنوبیکیلیفورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے