تنوع کی نمائندگی

فلبرائٹ-نہرو اسکالر منجولا بھارتی کا کام شناخت میں الجھی ہوئی جذبات کی پیچیدگی اور مساوی مواقع کے حصول کی جانب سفر کو سمیٹے ہوئے ہے۔

نتاشا ملاس

December 2021

تنوع کی نمائندگی

منجولا بھارتی ریاست نیو جرسی کی ریاستی یونیورسٹی رٹگرس میں دلت نسائیت اور نسوانیت پر ایک سیمینار میں شرکت کرتی ہوئی۔ تصویر بشکریہ منجولا بھارتی۔

منجولا بھارتی  ممبئی میں واقع  ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز  کے  اسکول آف ہیبی ٹیٹ اسٹڈیز (ایس او ایچ ایس) کے سینٹر فار اربن پالیسی اینڈ گورننس میں پروفیسر ہیں۔۱۹۔۲۰۱۸ میں وہ نیو جرسی کی رٹگرس یونیورسٹی میں فلبرائٹ ۔ نہرو اسکالر تھیں جہاں  انہوں نے اپنے مطالعہ میں پایا کہ کس طرح امریکہ اور بھارت دونوں میں مقامی طرز حکمرانی میں چنی گئی خواتین نمائندگان اقتدار کے ڈھانچے میں شامل ہوتی ہیں۔   بھارتی صنف، ذات پات  اور نسل کے حاشیے پر چلے جانے  کی سیاست میں دلچسپی رکھتی  ہیں۔وہ ایک دستاویزی فلمساز بھی ہیں ۔ کیرل کی پہلی خاتون سے مرد خواجہ سرا بنے شخص کے بارے میں ان کی دستاویزی فلم ’ایکس ایکس وہائی‘ متعدد عالمی فلمی میلوں میں دکھائی گئی ہے۔ پیش ہیں ان سے انٹرویو کے اقتباسات۔

آپ کی موجودہ تدریسی اور تحقیقی دلچسپیاں کیا ہیں؟

میری تحقیق کے شعبوں میں جمہوری لا مرکزیت  اور مقامی حکمرانی شامل ہے جہاں میں کثیر جہتی نظریاتی تناظر اور تصوراتی ڈھانچے  پر توجہ مرکوز کرتی  ہوں جس میں  سماجی گروہوں کی کمزوریاں  اور سیاسی پسماندگی شامل  ہے۔ میں  ذرائع ابلاغ کی تنقیدی گفتگو کے تجزیے میں بھی مشغول  ہوں اور ثالثی کی حکمرانی ، اس کے متنازع خطوں ، بدلتے ہوئے حدود اور متعدد طریقوں کو تلاش کرنے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں جن میں ’ میڈیا اسکیپس‘ کسی بھی پیش رفت کے اقدامات یا زمینی سطح پر تحریکوں ، عوامی شعبے میں  بڑی یا سب سے چھوٹی  سطح پر بحث کو غیر فعال یا فعال کرنے کے لیے مطلع ، فارم اور ایجنڈا طے کرتے ہیں۔ میں ’ اسکول آف ہیبیٹیٹ اسٹڈیز ‘ میں معیاری تحقیقی طریق کار ، ریاست ، قانون اور حکمرانی ، سماجی و ثقافتی تناظر کے ساتھ ساتھ شہری مقامی حکمرانی کو وجود میں لانے اور شہری پالیسی اور حکمرانی جیسے موضوعات کی تدریس کرتی ہوں۔

کیا آپ ہمیں امریکہ اوربھارت  میں منتخب خواتین رہنماؤں کے  بارے میں اپنی تحقیق اور اقتدار  کے ڈھانچے کے ساتھ ان کی مصروفیت کے بارے میں بتا سکتی  ہیں؟ اگر خواتین کو پسماندگی پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کرنے کے طریقوں کی بات  کی جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان آپ کے خیال میں مماثلتیں اور اختلافات کیا ہیں؟

بھارت  اور امریکہ دونوں میں سیاست ’ ذات‘ اور ’ نسل‘ کو مرکز کے طور پر پیش کرتی ہے جس کے ارد گرد سیاسی قوتیں ….. اتحاد اور ذیلی اتحاد ، صف بندی اور انسداد صف بندی …..منظم ہیں ۔ بھارت میں درج فہرست ذات کی خواتین اور امریکہ میں رنگ برنگی خواتین کے درمیان خاموشی کے دائرے اور ثقافت کو توڑنے کے لیے مقامی حکمرانی  کی جمہوریت سازی کے باوجودگہرائی سے جڑے ہوئے سماجی طبقہ بندی کے ڈھانچے جمہوریت کے عمل کو کمزور کرنے کے لیے پائے جاتے ہیں، جس کے سبب  نتائج تصور کردہ اہداف کے ساتھ مختلف ہوتے ہیں۔

خواتین کی سیاسی اثرانگیزی  پر گہری توجہ ….. خواتین سے متعلق  ایشوز  کو سیاسی نوعیت  کا بنانے کے لیے آواز کے استعمال کرنے کی صلاحیت،  فیصلہ سازوں پر مطالبات کو  دبانے کے لیے انتخابی فائدہ اٹھانا، عوامی شعبے کی طرف سے ان کی ضروریات کے لیے مزید ردعمل پیدا کرنے کے لیےاور خواتین کے مساوی حقوق کے لیے آئینی وعدوں کا بہتر نفاذ ….. یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دونوں ممالک میں واضح طور پر نظر نہیں آتا۔

پدرانہ صنفی نظریہ حکمرانی کا نظام  کھلاڑیوں کی ذہنیت میں گہرائی سے سمایا ہوا ہے  اور ظاہر ہوتا ہے۔  مثال کے طور پر، خواتین کے پروجیکٹوں  کو ترجیح دینے، خواتین کے پروجیکٹوں  کو بعد میں عام پروجیکٹوں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کرنے اور  صنفی طور پر  بے حس ہونے کی وجہ سے  خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ممالک میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ  خواتین کے کنبوں اور ان کی متعلقہ سیاسی جماعتوں میں مساوی طاقت کے بغیر بلدیاتی اداروں میں واحد  طاقت اور نمائندگی اکثر  اقتدار کا استعمال کرنے میں  خواتین کےلیے نقصان کا سبب بنتی  ہے کیونکہ انہیں دوہری ماتحتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صنفی درجہ بندی کے ساتھ ساتھ متعلقہ سیاسی جماعت کے اندر درجہ بندی۔

بھارت میں کیرل کی پہلی خاتون سے مرد  خواجہ سرابنے شخص  کے بارے میں آپ کی  دستاویزی فلم’ ایکس ایکس وہائی‘ کو  بین الاقوامی سطح پر پذیرائی  ملی  ہے۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ آپ کو یہ فلم بنانے  کی تحریک کیسے ملی ؟ بھارت اور امریکہ کی عام آبادی نے اسے کیسے قبول کیا؟

کیا کوئی انسان پیدائشی طور پر مخنث ہوتا ہے، صنفی ہوتا ہے یا اس کی پسند آزادی سے ہوتی ہے؟  ایک خاتون سے جنس تبدیل کرکے مرد مخنث  بنا انسان مردوں اور خواتین کے معاشرے میں اپنی شناخت کو کتنی اچھی طرح سے قائم کر سکتا ہے؟

خاتون سے مرد مخنث بنے انسان کی جنسیت کا تعین کس طور پر کیا  جائے ، ایسے میں جب کہ وہ  کسی عورت کے ساتھ جسمانی طور پر سرگرم عمل ہو؟

جب کوئی عورت سے مرد مخنث بنے تو خاتون ہم جنس پرست کا لیبل لگانے کا کیا مطلب ہے؟ سری نندو پر میری فلم ’ایکس  ایکس وہائی‘ کیرل کی ایک خاتون سے مرد مخنث انسان کے قالب میں ڈھلنا ، ایسے کئی پریشان کن مسائل کو پیش کرتی ہے جو سماجی حالات اور متعینہ شناختوں کے تصورات پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔

پچیس سالہ سری نندو  کیرل کے ایسے پہلے انسان تھے جو مخنث والی اپنی شناخت کے ساتھ عوام کے سامنے آئے۔  یہ معاملہ ۲۰۰۴ء کا تھا۔ اسی سال  خواتین کے معرو ف جریدہ ’ سَیوی‘  کی ’ کور اسٹوری‘ کے طور پر ان کی زندگی کو نمایاں کیا گیا ۔اس کے علاوہ ایک سرکردہ اشاعتی ادارے نے  ان کی سوانح عمری شائع کی ۔ سری نندو مصیبت  اور نجات، تباہی اور  ازخود تباہی، محبت اور نفرت اور درد اور خوشی کے ایک پیچیدہ جال میں پھنس گئے تھے جب کہ اندرون میں  جمع ہونے والا صدمہ اور زندہ رہنے کا ان کا عزم تھا۔فلم نے ۲۰۱۰ء میں کشش انٹرنیشنل فلم فیسٹیول ،اسی برس ہوئے ساتھی رینبو فلم فیسٹیول  اور اسی سال منعقد ہوئے  ایس اوایم ایس نیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین دستاویزی فلم ایوارڈ جیتا تھا۔فلم ۱۶ عالمی فلمی میلوں میں دکھائی گئی تھی۔

میری فلبرائٹ۔نہرو  فیلوشپ  کے دوران یہ فلم امریکہ کی ۱۲ یونیورسٹیوں میں دکھائی گئی تھی ۔ کیلیفورنیا میں یہ فلم مختلف گروپوں کے سامنے پانچ بار دکھائی گئی جن میں طلبہ کی مخنث برادری بھی شامل تھی۔ تجربات جذباتی اور تعلیمی دونوں لحاظ سے زبردست تھے۔

سان فرانسسکو میں فلم کی نمائش کے اختتام پر ایک خاتون روتی ہوئی کھڑی ہوئی اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا کہ وہ پردہ سیمیں  پر اپنی بیٹی کا دکھ اور تکلیف دیکھ رہی ہیں۔ ایریزونا میں فلم دکھائے جانے کے بعدایک آدمی نے درخواست کی کہ کیا وہ  میرے ہاتھوں کو چوم سکتا ہے  ،یہ دکھانے کےلیے کہ اس کا بیٹا  کس  صدمے سے گزرا ہے۔

آپ ریاست نیو جرسی کی رٹگرس یونیورسٹی میں فلبرائٹ ۔ نہرو اسکالر تھیں۔ آپ کے لیے وہ تجربہ کیسا تھا اور یا اس نے بھارت میں آپ کے اپنے کام سے مطلع کرنے میں مدد کی؟

نیو جرسی کی رٹگرس یونیورسٹی میں فلبرائٹ۔ نہرو ریسرچ اسکالر شپ ایک دلچسپ سفر تھا جس نے میری تعلیمی اور ذاتی زندگی کے معمولات کو توڑ دیا۔ میں نے نئے لوگوں سے ملاقات کی اور خود کو نئے سرے سے دریافت کیا۔ میں نے وہاں کے انتہائی ذہین دماغوں کے ساتھ  روابط قائم کیے اور  میری شناسائی پروفیسر میری ہاکس ورتھ اور نومی کلین جیسے سرکردہ پروفیسروں اور پیشہ ور افراد سے ہوئی۔

میں نے لیکچرز دیےاور اپنی دستاویزی فلم  ’ایکس ایکس وہائی‘  کو  امریکہ کی ۱۲ یونیورسٹیوں میں دکھایا جن میں کیلیفورنیا ، ایریزونا ، نیو میکسیکو ، فلوریڈا ، شمالی کیرولینا ، جنوبی کیرولینا اور نیو یارک  یونیورسٹیاں شامل ہیں۔

میں نے رٹگرس یونیورسٹی میں بھارت میں دلت اور آدیواسی ریسرچ سے متعلق ایک ’ورکنگ گروپ‘ تشکیل دیا   جس میں اساتذہ ، محققین ، طلبہ اور کارکنان شامل تھے ۔ بھارت میں دلت اور آدیواسی خواتین کی زندگی کے تجربات پر دو روزہ ’ اسپرنگ پینل پروگرام ‘ کا انعقاد بھی کیا گیا  جس میں لوگوں نے  اچھی خاصی  تعداد میں شرکت کی اور اس کی  ستائش کی۔ میں نے ایک چوٹی کانفرنس کے ایک حصے کے طور پر دو پیپر پیش کیے: پہلا پیپر ذات پات صنف کے کاؤنٹر پبلک کے طور پر ، دلت خواتین اور بھارت میں مقامی حکمرانی اور دوسرا ہونے اور نہ ہونے کی سیاست پر ، بھارت میں قبائلی ترقی۔ میں نے خواتین اور صنفی مطالعات کے شعبہ اور افریقی، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیائی زبانوں اور ادب کے شعبہ میں ماسٹرز کے طلبہ کے لیے کلاس میں لکچر بھی پیش کیے۔

بھارت  واپس آکر ’انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ آن ویمن‘  میں غیر رسمی علمی مباحثوں  سے متاثر ہو کر میں نے ’ایس او ایچ ایس‘ کے پوسٹ گریجویٹ اور ریسرچ اسکالروں کے درمیان درس و تدریس کا ایک حلقہ شروع کیا۔ رٹگرس اور ’ ایس او ایچ ایس‘ کی طلبہ برادری نے اسے فلسفیانہ ادراک اور نظریاتی گفتگو کے لیے ایک اہم علمی جگہ کے طور پر سراہا۔

فلبرائٹ کے تجربات نے میری فن تدریس، نصاب اور تحقیق پر نظر ثانی کرنے میں میری مدد کی۔ بین الاقوامی مباحثوں اور گفتگو  میں مشغول ہونے کے لیے تعلیمی جگہوں کا دوبارہ تصور کرنے کے قابل بنایا اور مجھے طلبہ سے تعامل کی نوعیت کے دوبارہ بیان کرنے کے لیے مطلع کیا اور ان طریقوں کی دوبارہ وضاحت کرنے میں سہولت فراہم کی جن کے ساتھ میں اپنی ذاتی اور علمی جگہوں کے مکالمے میں مشغول ہوں۔

آپ کے مستقبل کے کچھ علمی اور فنی منصوبے کیا ہیں؟

کیرل میں  لامرکزیت پر مبنی منصوبہ بندی کے ۲۵ سال کی یادگاری تقریب کے ایک حصے کے طور پر کیرل کے وزیر اعلیٰ پنرائی وجین نے ۱۷ اگست ۲۰۲۱ء کو منعقدہ ایک تقریب میں میری کتاب’ برک بائی برک ۔ ڈیموکریٹائزنگ لوکل گورننس: انسائٹس فرام دی پیپلس پلان ‘ کا اجرا کیا ۔ کتاب دو اہم تجزیہ کرتی ہے: ویمن کمپوننٹ پلان (ڈبلیو سی پی ) اور قبائلی ذیلی منصوبہ (ٹی ایس پی ) جو انتہائی پسماندہ طبقات، خواتین اور درج فہرست قبائل کو بااختیار بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

میں اپنی اگلی علمی جلدیں بھی منظر عام پر لانے کے آخری مرحلے میں ہوں ۔  ایک تو کڈمبشری مداخلتوں پر جس کا موضوع ہے    ’’نو وَن از ہیئر: جینڈر، لوکل گورننس اینڈ پالیٹکس آف سبجیکٹیوٹی ‘‘  اور دوسرا،  بھارت میں قبائلی تحفظات اور سیاست کی تفہیم  پر ایک تدوین  شدہ جلد، جس کا  مضمون’’ٹرائبل اسکیپس  ان انڈیا: شفٹنگ باؤنڈریز اینڈ کنٹیسٹڈ ٹیرینز‘‘ ہے۔ میں نے مثبت رویہ برقرار رکھنے پراگلی دستاویزی فلم کی عکس بندی کر لی ہے ۔ فلم کا ’ پوسٹ پروڈکشن ورک‘ جلد ہی شروع کرنے کا ارادہ ہے۔

نتاشا ملاس نیویارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے