ثقافتی مراسم کے تانے بانے بُننا

فلبرائٹ وظیفہ یافتہ کنچن وَلی رچرڈسن نے اپنے تجربے کا استعمال بنارس میں ریور ساری سیریز کی خاکہ کشی کرنے میں کیا ہے جسے وہ دریائے گنگا کو خراجِ عقیدت تصور کرتی ہیں۔

نتاشا ملاس

January 2019

ثقافتی مراسم کے تانے بانے بُننا

ریور ساری کا ہر حصہ دریائے گنگا کے مختلف حصوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں اس کی لہریں، اس کے گھاٹ اور اس کا افسانوی فراز تمام چیزیں شامل ہیں۔(تصویر بشکریہ کنچن ولی رچرڈسن)

کنچن وَلی رچرڈسن بین مضامین بصری فنکار ہیں۔ ان کی پیدائش بھارت اور امریکہ کی مشترکہ وراثت والے ایک خاندان میں مساچیوسٹس میں ہوئی ۔ شروع ہی سے انہیں تخلیقی کاموں کا شوق تھا۔ انہوں نے نیو یارک میں دی کُوپر یونین فار دی ایڈوانسمینٹ آف آرٹ اینڈ سائنس سے بیچلر آف فائن آرٹس کی ڈگری لی ۔ وہ فی الحال مساچیوسٹس میں ہاروڈ گریجویٹ اسکول آف ڈیزائن سے ماسٹر ڈگری کے لیے تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ۱۵۔۲۰۱۴ء میں انہوں نے فلبرائٹ نہرو تحقیقی گرانٹ کے تحت دریائے گنگا کی آلودگی کا مطالعہ کرنے کے لیے بنارس کا دورہ کیا۔ بنارس میں دورانِ قیام انہیں ہاتھ سے بُنی گئی چار طرح کی ریشمی ساریوں اور ریور ساری کی خاکہ کشی کی ترغیب ملی جو اصل میں دریائے گنگا کی مدح سرائی ہے۔ رچرڈسن مختلف خیالات ،طرز ،لوازمات(بشمول خاکہ کشی،پارچہ بافی)کو بروئے کار لاتی ہیں ۔ اور حال میں انہوں نے پودوں ،گرد و غبار ،پتھر ، موسموں اور وقت کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

 اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیمی پس منظر کے بارے میں بتائیں۔

میں امریکی ریاست مسا چیوسٹس کے ہُک والی ہیئت کے جزیرہ نما کیپ کَوڈ میں پلی بڑھی۔میں نے یہیں والڈَورف اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں میرا سابقہ فنون لطیفہ پر مبنی ایک قسم کی متبادل تعلیم سے پڑا۔بچپن میں ہمیشہ چکنی مٹی کے چھوٹے جانوروں، مزاحیہ کتابوں اور درختوں کی ٹہنیوں اور پتیوں سے بے ہنگم چیزیں بناکر خوش ہوا کرتی تھی۔جب ۱۸ برس کی ہوئی تو خصوصی طور پر فنون ِ لطیفہ سے متعلق کسی اسکول میں داخلہ لینے کا فیصلہ کرنا میرے لیے کافی سخت فیصلہ ثابت ہوا۔یہ بات درست ہے کہ فنون لطیفہ کے تئیں میری دلچسپی فطری تھی مگر میں دیگر چیزوں میں بھی دلچسپی رکھتی تھی، لہٰذا فنونِ لطیفہ میں کُل وقتی کورس کرنے سے میں گھبرا رہی تھی۔ آخر کار میں نے نیو یارک سٹی میں واقع دی کُو پر یونین فار دی ایڈ وانسمینٹ آف آرٹ اینڈ سائنس میں داخلہ لے لیا۔یہ ادارہ فنونِ لطیفہ، فنِ تعمیر اور انجینئر نگ کے لیے ایک بہترین ادارہ ہے ۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنے کے بعد اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں تھا۔

 بین مضامینی بصری فنکار کے طور پر آپ اپنے کام میں کس قسم کا طرز اور مواد استعمال کرتی ہیں؟

میرے پروجیکٹ میں مختلف اقسام کی چیزیں جیسے مجسمے، ویڈیو ، تحریر اور ٹیکسٹائل ڈیزائن کا استعمال ہوا ہے مگرمیرے خیال و فکر کا بنیادی طریقہ خاکہ کشی ہی رہا ہے۔لیکن اس موسمِ خزاں میں میری عادت میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ فی الحال میں ہارورڈ گریجویٹ اسکول آف ڈیزائن سے لینڈ اسکیپ آرکی ٹیکچر میں ماسٹر ڈگری کورس کر رہی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں کسی بھی چیز کی تیاری کے لیے بالکل نئے  آلہ کاراور طریقے سیکھ رہی ہوں۔ گرچہ میری حالیہ دلچسپیاں ماضی کے میرے کاموں کی راست توسیع ہیں مگر میرے اندر ان کے لیے اشتیاق اب حد سے زیادہ تجاوز کر گیا ہے۔

میں زمین کی تزئین کاری سے متعلق فنِ تعمیر میں دلچسپی لینے لگی کیوں کہ میں نے ماحولیات اور مقامی طور پر ان مسائل پر اس کا راست اثردیکھا ہے جنہیں میں مجسمہ سازی اور اسے نصب کیے جانے کے عمل کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ لیکن ظاہری طور پر وہ مادّے جن کا میں اپنے کام میں استعمال کرتی ہوں (اور اس سے کام کرنے کے لیے غور و فکر کرتی ہوں )،ان کی ایک الگ ہی دنیا ہے۔ زندہ پودے، مٹی میں پائے جانے والے چھوٹے جاندار، گرد وغبار، پتھر، کنکریٹ جیسے مادّوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے اور انسانی سلوک ، موسم اور وقت جیسی اشیاءبھی اس میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ اب میں اس کام کی تربیت لے رہی ہوں کہ قدرتی نظام اور شہری نظام کے ہمیشہ تشکیل پانے والے اور تبدیل ہونے والے عمل کے ساتھ اس کی خاکہ کشی کیسے کی جائے۔

فلبرائٹ فیلو شپ کے تحت بنارس میں آپ کے قیام کا تجربہ کیسا رہا؟

یہ واقعی ایک زبردست اور بہترین تجربہ تھا۔وہاں وقت گزارنے والا ہر شخص اس تجربے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس شہر کی روحانی، افسانوی اور تاریخی وراثت ناقابل بیان ہے۔بنارس میں اپنے قیام اور دریائے گنگا میں آلودگی جیسے پیچیدہ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنا میرے لیے ایک عاجزانہ تجربہ رہا۔ میں نے پایا کہ فلبرائٹ کے تحت میرے کام کا زیادہ تر حصہ اس صورت حال کو دیکھنے اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے امریکی طرز کو بھلا دینا تھا۔ مجھے علم نہیں کہ مجھے اس میں کامیابی ملی یا نہیں لیکن میں نے بصری اور جذباتی بے آہنگی سے نمٹنے میں فنون لطیفہ کواستعمال کرنے کی کوشش کی ہے جسے اس تجربے نے میرے اندر جگایا۔

Kanchan Wali-Richardson (right) designed a series of handloom silk saris while in Varanasi under a Fulbright-Nehru research grant. (Photograph courtesy Kanchan Wali-Richardson) 

کنچن ولی رچرڈسن(دائیں) نے فُلبرائٹ۔ نہرو ریسرچ گرانٹ کے تحت بنارس میں رہنے کے دوران ریشمی ساریوں کی ایک سیریز ڈیزائن کی۔ (تصویر بشکریہ کنچن ولی رچرڈسن)

وہاں رہنے کے میرے تجربے کا تعلق میری خاندانی تاریخ سے بھی رہاہے۔ میرے نانا اور نانی کی ملاقات بنارس ہندو یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ہوئی تھی۔بعد میں دونوں نے شادی کر لی۔میری امی کی پیدائش بی ایچ یو کیمپس میں اس زمانے میں ہوئی جب نانا اور نانی وہیں مقیم تھے۔ انڈیا اور امریکہ کی ایک مشترکہ نسل میں پلے بڑھے ایک شخص کے طور پر میرے لیے بنارس میں ایک عرصے تک رہنا وقت گزاری کا ایک اہم ذریعہ تھا کیوں کہ میں یہاں اپنے خاندان کی تاریخ کے اس حصے کو اپنے اندر گہرائی سے جذب کر سکتی تھی اور اسے اپنی زندگی کی کہانی کا حصہ بنا سکتی تھی۔

بھارت میں آپ کے دورے اور دریائے گنگا سے متعلق تحقیق کے نتیجے میں آپ نے ریور ساری نام کی ایک سیریز ڈیزائن کی ہے۔ہمیں اس سیریز سے متعلق مزید تفصیلات فراہم کریں۔

دریائے گنگا کی آلودگی سے پیدا ہونے والے صحت اور ماحولیات سے متعلق بحران سے نمٹنے کی خاطر میں نے فنونِ لطیفہ سے رجوع کیا اور اپنے احساسات کو کوئی شکل دینے میں مہینوں گزار ے مگر مجھے لگا کہ مجھے اس میں کامیابی نہیں مل پا رہی ہے۔ ڈھانچہ جاتی چیلنج اورمعاشرتی مشکلات کی پیچیدگیاں اسے مفلوج کر رہی تھیں۔ لہٰذا میں نے دریائے گنگا اور اس سے متعلق تمام اشیاءکی مدح سرائی اور خاص طور پر بنارس کی شناخت کی ثنا خوانی کا ایک دوسرا طریقہ تلاش کر لیا۔ریور ساری ،بنارس میں میرے تجربے کی دل فریبی کو ایک خراج عقیدت ہے۔ ساریوں کے نقش کا ہر عنصر دریائے گنگا کی افسانویت کے میرے ذاتی تجربے اوربنارس کی روز مرہ کی زندگی میں سرایت کر چکی اس افسانویت کے طریقے سے متاثر تھا۔

ساریوں کا طول وعرض  دریاؤں کی موجِ رواں کے طرز پر تیار کیا جاتا ہے جس میں آنکھوں کی متبادل علامتیں ہوتی ہیں جو کثرتِ خیال کا اظہار کرتی ہیں۔بعض لوگ اسے زندہ دیوی اور آسمانی چیز مانتے ہیں جب کہ دیگر اسے زراعت ، صنعت اور ترقی کی بنیاد خیال کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے نقل و حمل کا ذریعہ یہاں تک کہ اسے بھارت کی توانائی کی بڑھتی مانگ سے نمٹنے کا نسخہ خیال کرتے ہیں۔ پھر ساریوں کے کناروں پر گھاٹ کی تصویریں بنائی جاتی ہیں جیسے آبشاروں کے سیڑھی نما راستے جو دیوی گنگا کے تئیں لوگوں کے رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں، وہ گنگا جسے موجودہ زندگی کے بعد کی زندگی میں داخل ہونے والے مقدس زینوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ساریوں کے پلّودیوی گنگا کی دیومالائی سواری مَکَر(سمندری مخلوق) کے ساتھ شدت سے بہتی موجوں کو پیش کرتے ہیں۔ میرے لیے یہ شبیہ دریائے گنگا کی طاقت اوراس بڑی مصیبت کے بارے میں ہے جو آپ کو اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کے دوران پریشان کر سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ تیز رفتار ترقی، آلودگی، خراب پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں سے ہونے والی جسمانی پریشانی اور ساتھ ہی جس چیز میں یہ شامل ہو اس کو مقدس خیال کرنے والی گہری عقیدت، نفرت و کراہیت کو ختم کیے جانے کا چیلنج اور کل معافی کے تصور کے خلاف کیا کیا جا سکتا ہے ؟ میرے خیال میں یہ ایک خوبصورت سوال ہے، ایک ایسا سوال جو آپ کو کافی شدت سے اور سنجیدگی سے غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اور آخر میں ساریوں کے نقش میں تقسیم کرنے والی پٹیوں میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے والی آنکھیں ہوتی ہیں جو گویا شہر کی تمام تنگ گلیوں کے بے شمار  گوشہ دیوار سے جھانکتی ہندو دیوتاﺅںکی مکمل طور پر سرایت کرنے والی آنکھوں سے باتیں کرتی ہیں۔ میرے لیے یہ آنکھیں ان سنتوں، گروؤں اور شاعروں کی طویل تاریخ سے بھی بات کرتی ہیں جو معرفت اور بصیرت کی تلاش میں بنارس تک کھنچے چلے آتے ہیں۔

آپ کے موجودہ منصوبے کیا ہیں؟

یہاں سے کامیابی کے ساتھ پڑھائی مکمل کرنا۔ اور اس کے بعد بھارت واپس جانے کا راستہ تلاش کرنا تاکہ ان تعلقات کو اُستوار کرنے کا طریقہ پا سکوں جنہیں میں نے وہاں دوران قیام قائم کیا تھا۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے