کامیابی کے لیےدرکار ہنرمندیاں

بھارتی طلبہ اندازِ گفتگو، رابطہ سازی اور دیگر ہنر مندیوں کو فروغ دے کر امریکی یونیورسٹیوں میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔

مائیکل گیلنٹ

October 2022

کامیابی کے لیےدرکار ہنرمندیاں

بھارت اور دنیا بھر سے امریکہ جانے والے طلبہ کے لیے اپنی خاطر سپورٹ نیٹ ورک بنانا کامیابی کے لیے ایک کلیدی چیز ہے۔ تصویر بشکریہ یونیورسٹی آف ساؤدرن کیلیفورنیا۔

امریکہ میں تعلیم کا حصول  ایک پرجوش ، چشم کشا  اور گہرا تغیراتی  تجربہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک بڑےاور  خوفناک چیلنج کی طرح بھی محسوس ہو  سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درست طور پر  تیاری(بالخصوص اس وقت  جب کلاس روم کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر  اہم  ہنرمندیوں کو فروغ دینے کی بات آتی ہے)بین الاقوامی طلبہ کی کامیابی کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔

اسی لیے ماہرین آرزومند  طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھارت  سے روانگی سے قبل  رابطہ سازی شروع کردیں اور اپنے تعلیمی ادارے میں کامیاب رشتوں  کی بنیاد رکھیں، مؤثر طریقے سے بات چیت کرنے کے لیے انداز ِ گفتگو کی بنیادی ہنرمندیوں کو بروئے کار لائیں، آموزش کے نئے طریقے اپنانے کے لیے تیار  رہیں اور  کھانا پکانے اور کپڑے دھونے  جیسی زندگی کی  بنیادی ہنرمندیوں  سے خود کو لیس کریں۔

 دیگر  طلبہ سے روابط قائم کریں

دیگر  بین الاقوامی ہم جماعت طلبہ  کے ساتھ معنی خیز رشتے  استوار کرنے سے طلبہ  کو ان کے بیرون ملک تعلیم  کے تجربے کے لیے اور  امریکہ میں پہنچنے کے بعد انہیں کامیابی کے لیے تیارہونے  میں مدد مل سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤدرن کیلیفورنیا کے ویٹربی اسکول آف انجینئرنگ میں طلبہ انگیجمنٹ کی  ایکزیکٹو ڈائریکٹرنورا سینڈوول کا کہنا ہے کہ ان لوگوں  کے ایک نیٹ ورک بنانے سے جو اسی طرح کے سفر پر ہیں، بین الاقوامی طلبہ کو ایک برادری  اور ہم آہنگی مل سکتی ہے اور انہیں یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ جب وہ  امریکہ پہنچیں تو انہیں کیا توقع کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں’’بھارت کے بہت سے طلبہ ہمارے اسکول پہنچنے سے پہلے ایک دوسرے کو جان لیتے ہیں۔ رابطہ سازی  واقعی ایک اہم وسیلہ ہے‘‘۔

سینڈوول نےان رابطوں کے قیام کے لیے اس امریکی یونیورسیٹی کے ساتھ کام کرنے کی سفارش کرتی ہیں جہاں طالب علم  جائے گا  اور دیکھے گا کہ مدد کے لیے کون سے وسائل دستیاب ہیں۔ وہ مثال کے طور پر بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی آف ساؤدرن  کیلیفورنیا کے پاس ایک وقف شدہ سوشل نیٹ ورک ہے جو طلبہ کو دنیا میں کہیں سے بھی جڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔وہ کہتی ہیں ’’ امریکہ میں اپنا نیٹ ورک بنانا سیکھنا ایک اہم ہنر ہے اور یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر ایک کا سپورٹ نیٹ ورک مختلف نظر آنے والا ہے۔ بھارت  سے آنے والے دیگر  طلبہ  کے ساتھ  وابستگی اس سلسلے میں ایک بہتر نقطہ آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

 انگریزی میں بول چال کی مہارت  کو بہتر کریں

حیدرآباد میں کاشیکو کنسلٹنگ سروسز کی قیادت کرنے والے کَرَن منوچا نے یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ جب وہ پہلی بار امریکہ پہنچے تو منوچا نے محسوس کیا کہ  کئی برسوں تک زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزمرہ کی انگریزی گفتگو میں استعمال ہونے والے تاثرات اور لہجہ وہ نہیں تھا  جس کی انہوں نے توقع کی تھی۔وہ کہتے ہیں ’’جس زبان  کے بارے میں میں محسوس کر رہا تھا کہ میں اس میں ماہر ہوں، اس  زبان میں مؤثر طریقے سے بات چیت نہیں کر پانے کے سبب مجھے  قدرے مایوسی ہوئی۔‘‘

منوچا نے اپنی گفتگو کی زبان کی مہارت کو فروغ دینے کے لیے تخلیقی راہ اختیار  کی۔ وہ بتاتے  ہیں ’’ میں اکثروبیشتر  ایئر لائنز یا کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کے ٹول فری نمبروں پر کال کرتا ۔ حالانکہ یہ مذاق لگ  سکتا ہے، تاہم اس سے مجھے بہت مدد ملی۔ بعد ازاںمیں نے سابق طلبہ کے مرکز میں ملازمت اختیار کی جہاں   میرے ذمہ سابق طلبہ کی کال کا جواب دینے کی ذمہ داری بھی تھی۔‘‘

منوچا کی مثال کے مطابق فون کالز کے توسط سے یا  ہیوسٹن یونیورسٹی کی صدر رینوکھٹور کی طرح ٹی وی شوز دیکھ کر یا مکمل طور پر کوئی اور تخلیقی راستہ اختیار کر کے  بات چیت کی انگریزی  کی صلاحیت سازی سے  طلبہ کو کیمپس میں پہلے ہی دن سے کامیابی کے لیے تیار کرنے میں مدد ملے گی۔

کلاس  میں لچک دار رویہ رکھیں

امریکہ جانے والے  بھارتی طلبہ آموزش  کے جس طریقے کے عادی ہیں، امریکہ میں انہیں آموزش کا  اس سے  ایک بالکل مختلف انداز مل سکتا ہے ۔ابتدا میں یہ  پریشان کن   محسوس ہو سکتا ہے، تاہم اسے اپنانے کی پیش قدمی  ایک زبردست فرق پیدا کر سکتی ہے۔

کولکاتہ میں ایجوکیشن یو ایس اے صلاح کار اتہاس  سنگھ کہتے ہیں ’’ امریکی نصاب میں بہت زیادہ لچک  پائی جاتی  ہے۔  طلبہ کی بین مضامینی نقطہ نظر رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ تحقیق پر جتنی زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے اس کا تو کہنا ہی کیا۔

یعنی  یہاں نئے نظام سے مطابقت قائم کرنے اور پھلنے پھولنے کا ایک جداگانہ طریقہ رائج ہے ۔‘‘

ممبئی کے ایک کامیاب ٹیلی ویژن اور فلم اداکار  اوجس راول جنہوں نے اپنا راستہ  تبدیل کرنے اور اپنا تفریحی کریئر شروع کرنے سے قبل  ساؤتھ فلوریڈا یونیورسٹی میں سائنس کی تعلیم حاصل کی، اس بات  سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ امریکہ میں تعلیم  گروپ سانگ   کی طرح ہو سکتی ہے، جس میں  سب کو مل کر گانا ہوتا ہے اور انفرادی طور پر بھی صحیح طریقے سے گانا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت میں بہت زیادہ رٹنا  سکھایا جاتا ہے۔اور صرف معلومات کو حفظ کرنے کے علاوہ آپ کے لیے اپنے بل پر بہت کم کرنا ہوتا ہے۔‘‘

راول کا کہنا ہے کہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت کو فروغ دے کر انہوں نے بڑے انعامات حاصل کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ اگرمیں  امریکہ میں انڈرگریجویٹ تحقیق  نہیں کرتا تو میں نے کبھی بھی ٹیم ورک، جامع تجزیہ اور بین ذاتی  گفتگو  نہیں سیکھی ہوتی ۔ یہ وہ چیزیں ہیں  جو کہ اب میں باقاعدگی سے کرتا ہوں۔‘‘

سنگھ مزید کہتے ہیں ایک بار جب آپ امریکہ کی  اعلیٰ تعلیم کے فلسفے اور طریقوں کے عادی ہو جائیں گے تو ’’ذہنی ترقی اور ارتقاء کافی حد تک زندگی بدلنے والے ثابت ہوں گے۔‘‘

نئے ماحول کے بارے میں جانیں

راول کا کہنا ہے کہ بھارتی طلبہ  جو کبھی امریکہ میں نہیں رہے انہیں مختلف قسم کے نئے ہنر سیکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے طلبہ کھانا پکانے اور اپنے کپڑے دھونے سے ناواقف ہو سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں  ’’کلاس روم کے اندر اور باہر روزمرہ کی زندگی کے لیے آپ کو درکار عملی  ہنرمندی کے فروغ کے لیے وقت نکالنا ضروری ہے اور یہ موقع مجھے امریکہ  میں ملا۔‘‘

سینڈوول اس بات سے اتفاق کرتی  ہیں  کہ نئے کیمپس، کمیونٹی اور ملک میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے طلبہ کو ایک خاص نیا ہنر تیار کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں’’جتنا زیادہ آپ اپنے نئے ماحول کے بارے میں سیکھیں گے، اتنا ہی زیادہ بااختیار ہو کر آپ صحیح راستہ تلاش کر پائیں  گے۔مثال کے طور پر،  ایسے بین الاقوامی طلبہ کے لیے  رہائش  کی صورت حال کو سمجھنا اور رہنے کے لیے جگہ تلاش کرنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے جنہوں نے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اپنی یونیورسٹی کے ساتھ کام کرنا، سوالات پوچھنا اور اپنا نیٹ ورک بنانا بین الاقوامی طلبہ  کے لیے چیزوں کا پتہ لگانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔‘‘

جب آپ رہائش کے لیے جگہ تلاش  کرتے ہیں تو مدد لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ یونیورسٹیاں ہاؤسنگ گائیڈز، طلبہ کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے وقف شدہ مواقع، رئیل اسٹیٹ کے قابل اعتماد پیشہ ور افراد سے رابطے اور بہت کچھ وسائل فراہم کرنے کے قابل ہو ں گے  ۔

 گھوٹالوں کا پتہ لگانا سیکھیں

سینڈوول باخبر کرتی  ہیں ’’بین  الاقوامی طلبہ کو  بدقسمتی سے گھوٹالوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ میں اور میرے ساتھی اپنے طلبہ کو ان سے بچنے کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں۔بین الاقوامی طلبہ کو شاید معلوم نہ ہو کہ امریکی حکومتی ایجنسیاں کبھی بھی بینک اکاؤنٹ کی معلومات طلب کرنے کے لیے کال نہیں کریں گی ۔ اگر کوئی امیگریشن یاایف بی آئی سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کال کرتا ہے اور رقم کا مطالبہ کرتا ہےتو فون کاٹ دیں  اور مدد حاصل کریں۔‘‘

امریکیوں اور زائرین کے لیے یکساں طور پر گھوٹالوں کا پتہ لگانا  بعض اوقات مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن سینڈوول کا خیال ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کی ترقی  کے لیے یہ ایک اہم ہنر ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’  گھوٹالوں کے بارے میں تعلیم فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹی کی کوششوں کے علاوہ اگر بھارتی  طلبہ کو کسی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں کچھ ٹھیک محسوس نہیں ہوتا ہے، تو انہیں اپنی یونیورسٹی کے عوامی تحفظ کے دفتر تک پہنچنے اور مشورہ طلب کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ عوامی  تحفظ  کے عملے کے ارکان مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔‘‘

سرگرمیوں میں حصہ تو لیں مگر نظر ہدف پر رہے

راول کے  نزدیک اسٹوڈنٹ کلبوں اور تنظیموں  کی سرگرمیوں میں حصہ لینا ایک نعمت غیر مترقبہ تھی اوریہ تجربہ  اتنا ہی تعلیمی تھا جتنی کہ خود  رسمی تعلیم۔ وہ کہتے ہیں ’’میں جتنا زیادہ طلبہ برادری سے وابستہ ہوا، اتنا ہی میں نے ایک نئی دنیا دیکھی۔طلبہ کی زندگی کے تجربات نے مجھے ہر قسم کے ذاتی اور پیشہ ورانہ چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کی مہارت اور صلاحیتیں فراہم کیں۔‘‘راول اپنی کامیابی کو بہت زیادہ،   لوگوں سے جڑنے، عوامی طور پر    بولنے ، مشکل پروجیکٹس کو سنبھالنے اور طلبہ تنظیموں کے ساتھ اپنی سرگرمیوں  سے   منسوب کرتے ہیں۔

اگرچہ غیر نصابی مصروفیت انمول مواقع فراہم کر سکتی ہیں ، منوچا ان میں  حد سے زیادہ لگنے کےتئیں خبردار کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں  ’’زیادہ تر امریکی کیمپس میں کسی بھی وقت بکثرت پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ حالانکہ،یہ کافی کارآمد ہوتے  ہیں اور ثقافت میں انضمام میں مدد کرتے ہیں، تاہم، ان میں سے زیادہ تر میں شرکت کرنا بھی وقت طلب ہے  اور چونکہ ان میں سے زیادہ تر تقریباً تمام طلبہ کے لیے کھلے  ہوئے ہیں، اس لیےہنرمندیوں  کو فروغ دینے یا کورس ورک مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے  کے بجائے منحرف  ہونا اور وقت ضائع کرنا آسان ہے۔‘‘

جب  طلبہ  سرگرمیوں میں شمولیت کی بات آتی ہے تو کامیابی کا کوئی ایک فارمولا نہیں ہے۔ ممبئی میں ایجوکیشن یو ایس اے کی صلاح کار  ادیتی لیلے کہتی ہیں ’’کیمپس میں اپنی تعلیمی اور سماجی زندگی کے درمیان توازن تلاش کرنا ضروری ہے۔

جب آپ اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو یہ چیلنج سے بھرا  ہو سکتا ہے کیونکہ آپ کو سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے۔‘‘ لیلے چیزوں  کو سمجھنے  میں مدد کے لیے ایک حکمت عملی تجویز کرتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں’’دن یا ہفتے کے اختتام پر بیٹھ کر خود  سے پوچھیں کہ وہ کون سے کام تھے جنہیں آپ مکمل نہیں کر پا رہے تھے اور اس کی ممکنہ وجوہات کیا تھیں۔ نئی طرز زندگی کو اپنانے کے لیےاپنی عادات و اطوار میں  تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں۔‘‘

 دل و دماغ کھلا رکھیں

منوچا کا کہنا ہے کہ بھارت سے آنے والے طلبہ کوامریکی ثقافت سے ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن تجسس، تلاش اور کھلے پن سے ثقافتی امتیازات  کی گرفت  میں مدد مل سکتی ہے۔

بہت سے بین الاقوامی طلبہ کے لیے نامعلوم کے خوف پر قابو پانا سیکھنا کامیابی کے لیے ایک کلیدی ہنر  ہو سکتا ہے۔ لیلے کہتی ہیں ’’نئی چیزیں سیکھنے کے لیے  آپ کو اپنے گوشہ عافیت سے باہر نکلنا سیکھنا چاہیے۔اس لیے پہلی بار میں کچھ چیلنج سے بھرپور معلوم ہونے پر بھی  پیچھے نہ ہٹیں۔ بلکہ صورت حال کا سامنا کریں‘‘

مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی  میں مقیم ایک قلمکار، موسیقار اورکاروباری پیشہ ور ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے