راہنما بننے والے تیزاب متاثرین

تیزاب حملوں کے متاثرین کے لیے کام کرنے والی لکشمی اگروال نے ان حملوں کے متعلق بیانیے کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب وہ ایسے افراد کو اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔

کرتیکا شرما

December 2022

راہنما بننے والے تیزاب متاثرین

سماجی کارکن اور تیزاب حملے کی متاثرہ لکشمی اگروال کو ۲۰۱۴ء میں واشنگٹن ڈی سی میں امریکی محکمہ خارجہ کے عالمی باحوصلہ خاتون اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔

’’کوئی کسی پر تیزاب کیوں پھینکتا ہے؟ چہرے کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ حملہ آور یہ سمجھتا ہے کہ چہرہ خراب کرنے سے متاثرہ کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ لیکن جب ہم اپنی وکالت آپ کرتے ہیں تو حملہ آور کو یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ ظاہری بربادی کا سبب بننے والا حملہ ہمارا مقدر نہیں ہو سکتا۔‘‘

یہ الفاظ ۲۰۰۵ ءمیں ایک تیزاب حملے کا نشانہ ہونے والی لکشمی اگروال کے ہیں۔ وہ لکشمی فاؤنڈیشن کی شریک بانی ہیں۔ انہیں امریکی وزارت خارجہ نے ۲۰۱۴ء میں انٹرنیشنل وومَن آف کریج ایوارڈ سے نوازا۔

لکشمی فاؤنڈیشن کی وساطت سے اگروال تیزاب حملوں کے متاثرین اور حملہ آوروں دونوں کو ہی یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ گو کہ کسی پر تیزاب پھینکنا ایک انتہائی سنگین جرم ہے جس کا مقصد متاثرین کا حوصلہ پسپا کرنا ہے لیکن ایسی گھٹیا حرکتیں خوابوں کو مار نہیں سکتیں۔

اگروال کہتی ہیں ’’ہم تیزاب متاثرین کی بازآبادکاری کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں تاکہ وہ خود کفیل ہوسکیں۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور خوابوں کی تکمیل میں ان کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

خوابوں کو اڑان بھرنے کا حوصلہ دینا

تیزاب متاثرین کی ہمت افزا کہانیوں میں سے ایک ۳۱ سالہ نوجوان پرنس ساہو کی ہے۔ تیزاب حملہ سے قبل وہ ایک آزاد پیشہ ماڈل کے طور پر کام کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں ’’میں اکثر اپنے دوستوں کے لیے ماڈلنگ کیا کرتا تھا جن کی اپنی ملبوسات کی دکانیں تھیں۔‘‘ مگر اسی طرح کی ایک دوستی تلخی میں بدل گئی اور ۲۰۲۱ میں ان پر تیزاب سے حملہ کر دیا گیا۔ فی الحال ساہو نئی دہلی میں ایک کمرشل ائیر لائن گروپ کے ساتھ گراؤنڈ عملہ کے رکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

اگروال اپنی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے خواب ابھی بھی تقریباً وہی ہیں جو کہ حملے سے قبل تھے۔ اگروال ایک تربیت یافتہ گلوکارہ ہیں۔ انہوں نے یوٹیوب پر ایک میوزک ویڈیو بھی جاری کیا ہے جسے ریپ فنکار ایچ ٹی نے لکھا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ’’مجھے سجنے سنورنے کا بہت شوق تھا جو آج بھی برقرار ہے۔‘‘

 

امدادی نظام قائم کرنا

اگروال خود عملِ جرّاحی اور بازآبادکاری کے ایک طویل اور تکلیف دہ عمل سے گزری ہیں ،لہٰذا ان کو تیزاب حملوں کے متاثرین اور ان کے گھروالوں کی ضروریات کا بخوبی اندازہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تیزاب کے شکار افراد جو دہلی میں اپنے علاج کے سلسلے میں آتے ہیں ان کو فاؤنڈیشن ایک محفوظ جگہ فراہم کرتی ہے۔

اگروال وضاحت کرتی ہیں ’’تیزاب کے شکار افراد کو سب سے بڑا خطرہ انفیکشن ہونے کا ہوتا ہے۔ بحالی ایک نہایت ہی نازک عمل ہے۔ لہٰذا ،ہم صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، متاثرین بہت زیادہ نفسیاتی اور جذباتی دباؤ میں ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ آتے ہیں اور وہ بھی ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم متاثرہ افراد اور ان کے گھر والوں دونوں کی مشاورت کرتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ موسم سرما فاؤنڈیشن کے لیے کافی مصروفیت والا ہوتا ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’چونکہ دیگر موسموں کے مقابلے میں ٹھنڈ میں بحالی کافی جلدی ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر متاثرین اسی موسم میں علاج کر وانے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘

فاؤنڈیشن کی قیام گاہ تین کمروں والے فلیٹ پر مشتمل ہے جس میں غسل خانہ اور باورچی خانہ بھی ہے۔ اگروال کہتی ہیں ’’ہم باورچی خانے میں کھانے پینے کی اشیا وافر مقدار میں دستیاب رکھتے ہیں تاکہ متاثرین اور ان کے گھر والوں کو اس حوالے سے پریشان نہ ہونا پڑے۔ فلیٹ کی دیواروں پر اگروال اور دیگر متاثرین کی تصاویر آویزاں ہیں۔

اگروال کا کہنا ہے کہ تیزاب حملوں کے متاثرین کو زخموں کی بحالی کے لیے کئی بار تکلیف دہ آپریشن کر وانے پڑتے ہیں۔ ساہو کی ہی مثال لے لیجئے۔ حالانکہ حملے کا شکار ہونے کے ایک سال بعد وہ ملازمت تو کر رہے ہیں مگر ان کی داہنی آنکھ، جو کہ حملہ میں شدید متاثر ہوئی تھی، کا مزید علاج کرانے کی ضرورت ہے۔ لکشمی فاؤنڈیشن اس طرح کے آپریشنوں کے اخراجات کے لیے مالی امداد فراہم کرتی ہے۔

وہ تیزاب حملے کا شکار ہونے کے بعد کی اپنی جدوجہد کی داستان بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں ’’میں خود بالکل اکیلا محسوس کر رہی تھی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں پوری دنیا میں واحد ایسی لڑکی ہوں جسے تیزاب کے حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘ لیکن حملے کے ایک سال بعد یعنی ۲۰۰۶ ءمیں انہوں نے عدالتِ عظمیٰ میں ایک مفاد عامّہ کی عرضی داخل کی جس میں گذارش کی گئی تھی کہ دکانوں پر کھلے عام تیزاب کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔

اگروال کہتی ہیں ’’وہ انتہائی طویل جنگ تھی۔ مگر مجھے اپنے جیسے بہت سے لوگ ملے جن پر تیزاب سے حملہ کیا گیا تھا۔ لیکن میں نے سوچا کہ آخر کب تک ہم خاموش بیٹھیں گے اور بند دروازوں میں قید رہیں گے؟‘‘

تیزاب حملہ کا شکار ہونے کے ۱۶ سال بعد اگروال تیزاب حملہ کے متاثرین کی قیادت کر رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں ’’ہم خود اپنے وکیل ہیں اور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے