موسمیاتی بحران سے نمٹنے کا اختراعی طریقہ

ورچوئل انگلش لینگویج فیلوز موسمیاتی تبدیلی کے کارکنوں اورطلبہ کو اور زیادہ مؤثر طریقے سے بات چیت کرنا سکھاتے ہیں۔

برٹن بولاگ

June 2022

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کا اختراعی طریقہ

خوشبو شرما(بائیں) اور اکشے شرما(دائیں، سامنے) نے انگریزی تربیتی پروگرام میں شامل ہونے کے بعد زیادہ پُر اعتماد طریقے سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنا سیکھا۔ تصویر بشکریہ خوشبو شرما اور اکشے شرما۔

ردھی راٹھور  موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو درپیش چیلنجوں کو سمجھتی ہیں۔ اس سال جنوری میں انہوں نے ہماچل پردیش میں ڈاکٹر یشونت سنگھ پرمار یونیورسٹی آف ہارٹیکلچر اینڈ فاریسٹری میں بایو ٹیکنالوجی میں ماسٹرپروگرام شروع کیا، جس میں فصل کے پودوں پر پانی کے دباؤ کا انتظام کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ۔

لیکن انہوں نے طویل عرصے سے محسوس کیا کہ وہ اپنے خیالات سے انگریزی زبان میں کسی کو قائل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

وہ اپنے اور ساتھی سائنسدانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ ہم سائنسداں کے طور پر اپنے کام کو تحقیقی مقالوں کی شکل میں جمع کرتے ہیں جو عام طور سے ہمیشہ انگریزی ہی میں ہوتے ہیں ۔ جب ہم غیر ملکی ساتھیوں سے بات چیت بھی کرتے ہیں تو یہ زیادہ تر انگریزی ہی میں ہوتی ہے۔ عام طور پر ہماری انگریزی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس اعتماد کی کمی ہے ، خاص طور پر جب ہم دوسرے ممالک کے لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہماری انگریزی اور ہمارا لہجہ اچھا نہیں ہے۔‘‘

پچھلے سال انہوں نے اس کے بارے میں کچھ عملی اقدام کیا۔ مدھیہ پردیش میں جواہر لال نہرو ایگریکلچرل (جے این کے وی وی) یونیورسٹی میں زراعت میں بیچلر کی طالبہ کے طور پر اپنے آخری سال میں راٹھور نے ۱۰ ہفتے کے کورس میں داخلہ لیا جس کا مقصد بات چیت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے طلبہ کی انگریزی میں اظہار خیال کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانا تھا۔

اعتماد کے ساتھ بات چیت

انفرادی کلاس میٹنگز صحت مند زندگی، موسیقی، سفر، کمیونٹی کی سرگرمی اور ماحولیات جیسے مختلف موضوعات کے لیے وقف تھیں۔طلبہ کو عام طور پر ہر کلاس سے پہلے ایک متن پڑھنا پڑتا تھا یا ویڈیو دیکھنا پڑتا تھا اور پھر استعمال شدہ الفاظ اور اٹھائے گئے مسائل پر بحث کرنا پڑتا تھا ۔ پہلے چار طلبہ کے ’چھوٹے گروپ ‘میں اور پھر پوری کلاس میں۔

طلبہ نے کورس’علمی شعبے میں کامیابی کے لیے انگریزی دانی‘ کو تفریح  پر مبنی اور دلکش قرار دیا۔ راٹھور کہتی ہیں کہ اس کورس نے انگریزی میں گفتگو کرنے کے ان کے اعتماد کو مہمیز کیا ۔وہ کہتی ہیں’’میں اسٹیج پرانگریزی میں بات کرنے سے گھبرا تی تھی۔‘‘ لیکن  یہ صورت حال اس وقت بہتر ہوئی جب انہوں نے کورس کے اختتام پر تقریر کی جسے سن کرپہلے سال کے طلبہ نے کہا ’’ ہم آپ کی طرح بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

جے این کے وی وی میں بایو ٹیکنالوجی میں بیچلر کے طالب علم اکشے شرما نے بھی کورس کیا۔ان کا کہنا ہے کہ تمام طلبہ کو کورس میں شامل مختلف موضوعات پر زبانی اور کبھی تحریری شکل میں اپنے خیالات کا اظہار کرناہوتا تھا۔وہ بتاتے ہیں ’’ میں بہت طویل جملے لکھتا تھا۔ کرسٹین نے مجھے مشورہ دیا کہ میں مختصر جملے لکھوں ،نیز جس سے مخاطب ہوں اس کے لحاظ سے موزوں زبان استعمال کروں۔ اس کلاس نے انگریزی میں اظہار خیال کرتے وقت ’ احساس کمتری‘ پر قابو پانے میں میری مدد کی۔‘‘

ایک اور طالبہ خوشبو شرما کا کہنا ہے کہ اس کورس نے جو تبدیلیاں لائی ہیں وہ بولتے ہوئے سب کو نظر آ رہی تھیں۔ ’’کلاس میں ایسے لوگ تھے جو شروع میں، انگریزی میں اظہار خیال کرنے میں ہچکچاتے تھے۔ لیکن کلاس کے اختتام تک وہ آزادانہ گفتگو کر رہے تھے۔‘‘

اس کورس کی کفالت نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ نے کی۔ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ اس میں شراکت دار کے طور پر شامل ہوا۔ یہ کورس امریکی حکومت کے ورچوئل انگلش لینگویج فیلو (وی ای ایل ایف ) پروگرام کا حصہ تھا۔یہ پروگرام  دوسری زبان جاننے والوں کو انگریزی زبان سکھانے کی غرض سے اعلیٰ تعلیم یافتہ امریکی معلموں کی خدمات حاصل کرتا ہے ۔ اس کام کے لیے انہیں دنیا کے الگ الگ خطوں میں  ۱۰ مہینے تک  الگ الگ موضوعات  پر مختلف علمی اداروں میں رہنے اور کام کرنے کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں۔ یہ کورس موسمیاتی تبدیلی کے شراکت داروں کے درمیان بہتر رابطہ قائم کرنے کے لیے انگریزی سیکھنے میں مدد کرنے پر مرکوز تھا جس کی کلاس ورچوئل انگلش لینگویج فیلو کرسٹین ایڈ نے لی تھی۔

مؤثر طریقے سے رسائی

ایک دیگر ورچوئل انگلش لینگویج فیلو ولیم کینیڈی نے گذشتہ موسم سرما میں تین کورسیز کو مجازی طور پر پڑھایا جو مکمل طور پر موسمیاتی تبدیلی میں شرکا کی پیشہ ورانہ مواصلات کی مہارت کو بہتر بنانے پر مرکوز تھا۔

پہلا کورس مہاراشٹر کے آس پاس کی این جی اوز کے بھارتی کارکنوں کے لیے تھا جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اورنگ آباد، مہاراشٹر میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی (بی اے ایم یو) اور گجرات میں بڑودہ، وڈودرا کی مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی(ایم ایس یو) میں ماحولیاتی سائنس کے گریجویٹ طلبہ کو بھی کورسز بھی پڑھائے۔

کینیڈی کہتے ہیں ’’میں موسمیاتی تبدیلیوں میں ان کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔میں معلومات پیش کرنے میں ان کی مدد کر رہا تھاکہ ایک مربوط پیغام کو آگے کیسے بڑھایا جائے۔‘‘

کورسز میں دو دو افراد اور چھوٹے گروپوں میں کام کرنا اور موجودہ موسمیاتی تبدیلی کے دستاویزات کو قریب سے دیکھنا شامل ہے۔’’ہم نے اس کےحصول پر کام کیا کہ زبان کیسے استعمال کی جاتی ہے، اور خود معلومات کو کیسے پیش کیا جائے۔اسے سامعین کے مطابق کیسے بنایا جائے۔ یہ ایک معاون حکومتی تنظیم یا کسانوں کا ایک گروپ ہو سکتا ہے جو مسائل کے بارے میں بہت کم جانتے تھے۔‘‘

کینیڈی نے تقریباً ۲۰ممالک میں ۳۰سال تک انگریزی پڑھائی۔ وہ کہتے ہیں کہ وبائی مرض کے دوران عملی طور پر انگریزی زبان کے فیلو کے طور پر پڑھانے کے اچھے اور برے دونوں پہلو تھے۔وہ کہتے ہیں ’’تدریس رشتوں اور اساتذہ کی آگاہی کے بارے میں ہے، اور جب یہ اسکرین کے ذریعے ہوتی ہے تو بہت مشکل ہو جاتی ہے۔‘‘ تاہم، جیسا کہ وہ بتاتے ہیں، اس طرح کے ورچوئل کورسز وسیع جغرافیائی علاقے سے لوگوں کوجمع کرنا ممکن بناتے ہیں۔ پروگرام ’’ان لوگوں کے لیے شرکت کو ممکن بناتے ہیں جو ماضی میں شرکت کرنے کے قابل نہیں رہے تھے‘‘ اور مؤثر مواصلات کے ذریعے اہم عالمی مسائل سے نمٹنے کی ہماری اجتماعی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔

برٹن بولاگ واشنگٹن، ڈی سی میں مقیم  ایک آزاد  پیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے