دسترس رنگ روغن کی

امریکی فنکارہ آگسٹینا ڈروز نے اپنے فل برائٹ - نہرو فیلوشپ کے توسط سے ہند میں نہ صرف معاشرتی طور پراہمیت کے حامل معنی خیزفن پارے بنائے ہیں۔

مائیکل گیلنٹ

January 2020

دسترس رنگ روغن کی

فل برائٹ نہرو پروجیکٹ کے طور پراگسٹینا ڈروز کی دیواروں پر بنائی گئی نقاشی جس میں ناگپور کے ڈاکٹر بابا صاحب امبیدکر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر لڑکیوں کی خود مختاری اور تعلیم کے لیے ان کی ۲۳۰ فٹ طویل ’’بریڈیڈ ہوپ‘‘ نقاشی بھی شامل ہے۔ بنارس میں دیوار پر بنائی گئی ایک نقاشی ’’ہَر پاور‘‘ جس میں ایک لڑکی کو طاقت اورعلم کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تصویر بہ شکریہ اگسٹینا ڈروز

۲۰۱٧سے ہی ناگپور کے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر بین الاقوامی ہوائی اڈے کا استعمال کرنے والے مسافروں کو سامان کی جانچ اور اس کو لینے کے لیے لمبی قطاروں کا ہی نہیں بلکہ عوامی فن کے ایک حیرت انگیز نمونے کا بھی تجربہ ہوا۔یہ عوامی فن پارہ اصل میں ایک ۲۳۰ فٹ لمبی نقش و نگار سے مزین دیوار ہے جس میں ایک روشن آنکھوں والی ہندوستانی لڑکی کو دکھایا گیا ہے جس کے گیسو بکھرے ہوئے ہیں۔ اس سے ایک خوبصورت منڈالہ کے علاوہ دیگر کئی اور چیزوں کی بھی صورت گری ہوئی ہے۔

مقامی برادری کے ۴۶ رضاکار فنکاروں کی مدد سے امریکی فنکار آگسٹینا ڈروزکی تخلیق کردہ اس چیز کی حیثیت ایک فن پارے سے کہیں زیادہ کی ہے۔ ڈروز کہتی ہیں کہ یہ نقاشی سماجی عدم مساوات کے خلاف خواتین کو بااختیار بنانے کے موضوعات کی عکاسی کرتی ہے ، خاص طور پر نوجوان خواتین کی تعلیم تک رسائی کے معاملے کی۔

ڈروز نے  فل برائٹ ۔ نہرواکیڈمک اینڈ پروفیشنل ایکسیلینس ایوارڈ ۱۷۔۲۰۱۶ ء کے لیے اس کی تخلیق کی۔

انہیں یہ اعزاز پانے ، ہند کا سفر کرنے اور اپنے  کمیونٹی مورال امپاورمنٹ پروجیکٹکو زندگی بخشنے کے علاوہ یکسانیت ،طبقہ اور جنس سے متعلق اہم امور کے بارے میں شعور اجاگر کرنے پر بے پناہ مسرت ہوئی۔وہ بتاتی ہیں ’’ایک فنکار کی حیثیت سے میری تحقیق ہند میں تعلیم حاصل کرنے میں خواتین سے متعلق سماجی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے فن اور طبقات کو با اختیار بنانے والے پروجیکٹس کے ایک سلسلے کی شکل میں تھی۔‘‘

ان کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں مقامی برادریوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور ملک بھر میں معاشرتی طور پر معنی خیز فنی تخلیق کاری کا موقع ملا۔مثال کے طور پر بنارس میں انہوں نے مقامی لڑکیوں کی ۸ بڑی تصویروں کی تصویر کشی ہے۔ مخالف حالات میں نسوانی طاقت کو اجاگر کرنے کی غرض سے ان تصویروں کو پوجا والے پھولوں سے سجایا گیا ہے۔مصوّری کے ان نمونوں کی نمائش اب شہر کے ہوائی اڈے پر مستقل طور پر کی جارہی ہے۔

ان تصویروں اور ان کے ناگپور ہوائی اڈے والے کام کے علاوہ ڈروز نے بڑی سطح پر مصوّری کے ۴ اضافی نمونے بھی تخلیق کیے ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر معنی خیز ایک نقاشی بنارس میں ایک قدیم مکان کی دیوار پر بھی موجود ہے۔

۲۰۱۷ ء میں ڈروز نے انگریزی روز نامہ ٹائمس آف انڈیا کو بتایا تھاکہ کیسے شہر کے اسّی گھاٹ کے قریب ٹہلتے ہوئے ان کی ملاقات ایک ایسی ناخواندہ نوجوان لڑکی سے ہوئی تھی جو بھیک مانگ رہی تھی۔بچی کے والدین سے اجازت لینے کے بعد انہوں نے لڑکی کی تصویریں کھینچیں اور اس لڑکی کے ساتھ دیوار پر ایک نقاشی کا خواب دیکھنے لگیں جو مرکزی اہمیت کی حامل کسی جگہ پر موجود ہو،بااختیاری کی علامت ہواور جسے از سر نو تصور میں لایا گیا ہو۔

بنارس ہندو یونیورسٹی کے فنون ِ لطیفہ کے طلبہ کی مدد سے ڈروز نے ایک وسیع و عریض اور پُر کشش پینٹنگ تیار کی جس میں لڑکی کو ایک پگڑی پہنائی گئی۔ اور ایک ہلال تِلک لگایا گیا جو افسانوی شہرت کی حامل جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی یاد دلاتا ہے جو بنارس ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔روزنامہ کے ساتھ انٹرویومیں ڈروز نے یہ بھی بتایا ’’ وہ کمل کے پھولوں اورہنسوں سے گھری ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک مسوّدہ ہے۔ عقیدہ ہے کہ ہنس تعلیم کی دیوی سرسوتی کی سواری ہے۔‘‘

ایک نئے تصور کے ساتھ تخیلق شدہ یہ کام خوبصورت ہونے کے ساتھ علامتی اہمیت کا بھی حامل ہے ۔ ڈروز امید کرتی ہیں کہ اس کو دیکھنے والوں کے اندر لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کا احساس بیدارہوگا۔

اپنی فیلو شپ کے دوران ڈروز نے ہندوستانی طلبہ کو ورک شاپ کے ذریعے پینٹنگ اور ڈرائنگ کے بارے میں سکھایا۔

انڈیا میں سماجی خود مختاری سے متعلق پیغامات کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا ارادہ کرنے سے بہت پہلے ڈروز کو فنکارانہ اور معاشرت پر مبنی امکانات کی شکل میں پیش کی جانے والی دیواروں کی نقاشی کی جانب راغب کیا گیا تھا۔وہ کہتی ہیں ’’میں اس رائے کو پسند کرتی ہوں کہ فن پاروں کو صرف لوگوں کے لیے ہونا چاہئے نہ کہ صرف نگارخانوں اور عجائب گھروں کے لیے۔ نقش و نگار سے مزین دیواروں میں بھی یہ استعداد ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی پیغامات کی تشہیر کریں اور ان لوگوں کی آواز بنیں جنہیں ہمیشہ سنا نہیں جاتا ۔‘‘

ڈروز اس وقت انڈیا میں کیے گئے اپنے کام کی بنیاد پر براہ راست ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔وہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ وہ وہاں کے معاشرتی اثرات کا بھی اندازہ لگانا چاہتی ہیں ۔ مگر وہ انڈیا میں بھی اپنے کام کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ یہ ایسا ملک ہے جہاں وہ بار بار کھنچی چلی آتی ہیں۔ اور اس کے اسباب کا ذکر وہ اس طور پر کرتی ہیں ’’ مجھے ان بچوں،خاص طور پر ایک مقامی اسکول کی ان لڑکیوں ،سے بھر پور پیار ہو گیا جن کے ساتھ میں نے کام کیاتھا۔ ان کی کہانیاں متاثر کن تھیں۔ جب میں نے ان کو چھوڑا تومجھے ایسا لگا کہ میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں کسی روز ایک بار پھر ان سے ملاقات کی منتظر ہوں۔‘‘

مائیکل گیلنٹ ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای او ہیں۔ وہ نیو یارک سٹی میں رہتے ہیں ۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے