مشترکہ تاریخ سازی

صدر بش اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے مابین کئی معاہدے ہوئے اور کئی اقدامات کے خد وخال وضع کیے گئے جنھیں دونوں قائدین نے ’’ تاریخی‘‘ نوعیت کا حامل قرار دیا۔

لورِنڈا کیز لونگ

Mar-Apr 2006

مشترکہ تاریخ سازی

صدر جارج ڈبلیو بش اور خاتونِ اوّل لورا بش کا صدر اے پی جے عبدالکلام ، وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کی بیگم گور شرن کو ر نے ۲   مارچ کو راشٹرپتی بھون ، نئی دہلی میں خیر مقدم کیا۔ گیرالٹ ہربرٹ ©اے پی ڈبلیو ڈبلیو پی

صدر جارج ڈبلیو بش یکم مارچ سے تین مارچ ۲۰۰۶ء تک بھارت کے سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ صدر محترم اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے مابین کئی معاہدے ہوئے اور کئی اقدامات کے خد وخال وضع کیے گئے جنھیں دونوں قائدین نے ’’ تاریخی‘‘ نوعیت کا حامل قرار دیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، دوسری جمہوریتوں کو تعاون، صاف ستھری توانائی کی پیداوار اور زراعت کے جدید اور موثر طریقوں میں تعاون کے سلسلے میں اٹھائے گئے اہم اقدام دونوں ملکوں کے مابین رفاقت میں ایک نئے عہد کے آئینہ دار ہیں۔ اس رفاقت کے بارے میں صدر بش نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رفاقت ’’ ہماری اس دنیا میں امن کی بنیادیں فراہم کرنے میں ایک نیک قدم ثابت ہوگا۔‘‘

وزیر اعظم نے کہا’’ ہمارا باہمی تعاون جن میدانوں پر محیط ہے ان میں سے بیشتر بھارت کی قومی ترقی کے لیے لازمی ہیں۔‘‘ دو مارچ کو دونوں رہنماؤں کے ذریعہ جاری کیے گئے پانچ۔ جزوی مشترکہ بیان میں مذکورہ حوصلہ مندانہ ایجنڈا، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی ، تجارت ، سرمایہ کاری ، صحت ، ماحولیات اور صاف ستھری توانائی کے میدانوں میں شانہ بہ شانہ کام کرنے کے تئیں ، دونوں حکومتوں کے عہد و پیمان کا مظہر ہے۔ نئی دہلی میں  حیدر آباد  ہاؤس میں صدر بش کے ساتھ ایک مشترکہ کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نے کہا ’’ نافذ العمل ہونے کے بعد، یہ اقدامات ہمارے عوام کی زندگیوں کو ایک حقیقی تبدیلی سے روشناس کرائیں گے۔‘‘

نئی دہلی میں ۲ مارچ کو صدر بش کے پروگرام میں راشٹرپتی بھون پر ایک شاندار خیر مقدم؛ تجارت میں حکیمانہ اصلاح اور کاروبار و صنعت کی نو بہ نو قسموں کے فروغ کے طریقوں پر امریکی اور بھارتی کمپنیوں کے طاقتور سی ای اوز کے ایک گروپ کی جانب سے خلاصے کی پیشکش، سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں، مذہبی نمائندوں کے ساتھ گفت و شنید ، راج گھاٹ پر گُل پوشی، وزیر اعظم کی جانب سے ظہرانہ اور صدر اے پی جے عبدا لکلام کی میزبانی میں سرکاری عشائیہ شامل تھے۔

صدر بش ۳ مارچ کو حیدر آباد تشریف لے گئے جہاں انہوں نے وعدہ کیا کہ امریکی حکومت ، بھارت میں اپنا پانچواں قونصل خانہ کھولے گی  تاکہ بھارتی طلبہ، نئے تاجروں ، ماہروں اور سیاحوں کو آسانی کے ساتھ ویزا مل سکے۔ساتھ ہی ساتھ متعدد نئے کو آپریرٹو  منصوبوں کو جاری رکھنے والے امریکی اہلکاروں سے ملاقات میں سہولت پیدا کی جاسکے۔ ان میں سے ایک اہم منصوبہ اقدام برائے زرعی علم و آگہی ہے جن میں امریکی اور بھارتی سائنسدانوں، تکنیک کار، کاشت کار اور اہلکاربھارت میں ایک دوسرا سبز انقلاب برپا کرنے کے لیے اسی طرح شانہ بہ شانہ کام کریں گے جس طرح انہوں نے ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کیا تھا۔ آندھرا پردیش کے اپنے پر سکون دورے کے دوران، صدر بش نے کاشت کاری اور چھوٹے کاروباروں سے متعلق، مقامی عورتوں کے خود امدادی گروپوں کے اراکین سے شگفتہ خاطر گفت و شنید کی۔ اس کے بعد انہوں نے ۴۰۰ طلبہ، اساتذہ اور ان نئے تاجروں سے ملاقات کی جو مستقبل کے سی ای اوز ہوں گے۔

اسی شام دہلی واپس آکر صدر نے پرانے قلعے میں اپنا الوداعی خطبہ دیا۔ انہوں نے بھارت اور امریکہ کے مابین اس فطری رفاقت پر سیر حاصل گفتگو کی جس کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب امریکہ نے بھارت کی جدو جہد آزادی کی حمایت کی تھی ۔ صدر نے بنیادی حقوق ، انصاف اور جمہوریت کے تئیں دونوں ملکوں کے عہد و پیمان کی مشترکہ اساس کی توثیق کی۔ تحفظ و سلامتی، معاشی مواقع، ٹیکنالوجیاتی پیش رفت، صحت اور تعلیم کے حصول میں ممد و معاون مزید گہری رفاقت پر زور دیتے ہوئے صد ر نے کہا کہ وہ ’’ ایک دوست کی حیثیت سے یہاں آئے ہیں۔‘‘

مضمون کی اشاعت پہلے پہل مارچ۔اپریل ۲۰۰۶ء میں ہوئی۔


وزیر اعظم منموہن سنگھ اور صدر جارج ڈبلیو بش نے واشنگٹن ڈی سی کی ملاقات میں اس امر پر اتفاق کیا کہ  بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک نئی عالمی شراکت داری کی شروعات ہوگی جو دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسے رشتے کا آ غاز کرے گی جسے آزادی کے بعد اب تک نہیں دیکھا جا سکا ہے۔ انہوں نے جمہوریت کو آگے بڑھانے کے لیے  اقدامات کرنے، دہشت گردی کا خاتمہ کرنے، بیماریوں کے خلاف جنگ کرنے ، توانائی کے ذرائع میں اضافہ کرنے، خلائی مہمات ، زراعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں باہمی تعاون کرنے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ امریکہ اس وقت بھارت میں سب سے زیادہ سرمایہ لگانے والا ملک ہے اور دونوں ممالک اس پر متفق ہیں کہ تجارت اور معاشی رابطے کو مزید پائیدار بنایا جائے گا۔

اس  کی اشاعت پہلے پہل جولائی۔ اگست ۲۰۰۵ء میں عمل میں آئی۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے