غریب بچوں کو مفت تعلیم

اے آئی آر ایس ڈبلیو ای ای ای میں شرکت کر چکی اکشما ہستک کی تنظیم سارتھَک فاؤنڈیشن سماج میں اقتصادی طور پر کمزور طبقات کے بچوں کو مفت تعلیم مہیا کراتی ہے۔

پارومیتا پین

May 2020

غریب بچوں کو مفت تعلیم

ھما ہستک(دائیں) سارتھک فاؤنیشن کی بانی ہیں جوکہ اپنے پیلے کمروں میں اسکول کے مفت اسباق کے ساتھ ساتھ زندگی کی ہنر مندیاں سکھاتی ہیں۔ تصویر بہ شکریہ چھما ہستک
قتصادی اعتبار سے کمزور طبقات کے بچوں کو اگر تعلیمی مواقع نہیں ملیں تو اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ انہیں بچہ مزدور کے طور پر زندگی گزارنی پڑے گی۔یونیسیف کے مطابق”انڈیا میں ایسے بچوں کی تعداد قریب قریب ۶۰ لاکھ ہے جو اسکول نہیں جا پاتے۔ ہر ۱۰۰ میں سے ۲۹ فی صد لڑکے اور لڑکیاں ابتدائی تعلیم کا کورس مکمل کرنے سے پہلے ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کا تعلق اکثر سب سے زیادہ پسماندہ طبقات سے ہوتا ہے۔ اکشما ہستک نے اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی کاوش لکھنؤ میں سارتھک فاؤنڈیشن کے قیام کی صورت میں منتج ہوئی۔ ۲۰۱۳ء میں فاؤنڈیشن کا آغاز ۶ بچوں سے ہوا۔اب اس کے ۷ مراکز میں ایک ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ فاؤنڈیشن کا دیہی علاقے میں ایک پرائمری اسکول بھی ہے۔

غریب اور روایتی طور پر پسماندہ طبقات کی دہلیز تک تعلیم کی روشنی پہنچانے کے لیے وقف سارتھک فاؤنڈیشن کا خیال ہستک کے ذہن میں اسی زمانے سے پروان چڑھ رہا تھا جب وہ امیٹی یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں پڑھانے کے لیے جایا کرتی تھیں۔انہوں نے بتایا ”میں آس پاس کی جھگیوں کے ان بچوں کو دیکھا کرتی تھی اور اکثر انہیں کچھ کھانے کو دیتی تھی۔ایک دن ایسا ہوا کہ میں انہیں صرف میٹھا سونف ہی دے سکی۔“

یہ بچے بہت پر جوش تھے۔ ان کے چہروں پر خوشی دیکھ کر ہستک یہ سوچنے پر مجبور ہوئیں کہ یہ بچے اسکول نہیں جا سکتے کیوں کہ ان کے گھر والے اس قدر غریب ہیں کہ وہ انہیں اسکول نہیں بھیج سکتے۔ پھر ہستک نے ان بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ انہوں نے سوچا کہ وہ جب تک لکھنؤ میں ہیں اپنایہ معمول جاری رکھیں گی۔ مگر بچوں کا منصوبہ تو کچھ اور ہی تھا۔ ہستک اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں ”بچوں نے مجھے اپنے مستقبل کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ تب میں نے جانا کہ وہ ان کی تکمیل کے لیے مجھ پر انحصار کر رہے تھے۔“

ہستک بھی بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ یوں صرف ۴ مہینے میں سارتھک فاؤنڈیشن قائم ہوگیا۔وہ بتاتی ہیں ”شروع میں امیٹی یونیورسٹی کے میرے طلبہ نے کلاسوں کا انتظام سنبھالنے اور نادار بچوں تک رسائی میں میری مدد کی۔ فاؤنڈیشن ان پیلے کمروں سے، جو مختلف علاقوں میں واقع ہیں، کام کرتا ہے۔بچوں کو یہاں تعلیم مفت میں دی جاتی ہے۔ بچوں کو زندگی کے اسباق بھی سکھائے جاتے ہیں۔ روزانہ ۵ سے ۶ گھنٹے تک کلاس چلتی ہے۔ ہستک بتاتی ہیں ”جب ہم نے شروعات کی تو ہم ان بچوں کو جھگیوں میں بنے ان کے کمرے میں پڑھاتے تھے۔ بچوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا پسندیدہ رنگ پیلا ہے۔ اسی لیے ہر کمرے کو چمکتے پیلے رنگ سے رنگا گیا اور وہاں کمپیوٹر اور ٹی وی سٹ لگائے گئے۔“

سارتھک کا پروگرام ۷ دن کی تربیت سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد بچوں کو سیکھنے کی ان کی اہلیت کی بنیاد پر تین سیکشن میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ وہ گروپ ٹینڈر فیٹ کہلاتا ہے جس کی تعلیم تک رسائی بالکل نہیں ہے۔ دوسرا گروپ لرنر گروپ کہلاتا ہے اور تیسرے گروپ کو ایڈوانسر کہتے ہیں۔ہستک بتاتی ہیں ”ہمارے طلبہ زیادہ تر گدا گر، کاغذ چننے والے اور دکانوں میں جھاڑو پونچھا کرنے والے بچے ہیں۔“ہمارے تربیتی پروگرام میں زیادہ زور صنفی مساوات اور اخلاقیات پر دیا جاتا ہے۔بچوں کی پنچایت جیسے پروگرام چلائے جاتے ہیں جن کی قیادت زیادہ تر لڑکیاں کرتی ہیں۔ ہستک بتاتی ہیں ”ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ لڑکیوں کو بھی تعلیم تک رسائی حاصل ہو کیوں کہ غریبی کی مار ان کو ہی جھیلنی پڑتی ہے۔“

جب سارتھک فاؤنڈیشن کے معلم لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں تو ان کو بتاتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کے بغیر پڑھائی شروع نہیں کر سکتے۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ لڑکوں کے ساتھ اپنی لڑکیوں کو بھی پڑھائی کے لیے بھیجتے ہیں۔

سارتھک فاؤنڈیشن کے پروگرام کا ایک لازمی عنصر اسکولوں میں شمولیت ہے جس کے تحت ان بچوں کا داخلہ نجی اور سرکاری اسکولوں میں کروایا جاتا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد اسکول کی تعلیم بیچ میں چھوڑنے کا معاملہ شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔فاؤنڈیشن ان بچوں کی ہائی اسکول تعلیم کی کفالت کرتاہے اور گریجویشن کے بعد ہنر مندی سکھانے والے اسکولوں میں ان کا داخلہ کراتا ہے تاکہ بچے تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار سے لگنے کے بھی اہل ہو جائیں۔ فاؤنڈیشن نے پیلا کمرہ قائم کرنے کے بعد ۲ سال کے اندر اپنے ۹۵ فی صد بچوں کو باضابطہ اسکولوں میں داخلہ دلانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔فاؤنڈیشن کی کاوشوں کے نتیجے میں بچوں کی اسکول میں حاضری ۲۰ فی صد سے بڑھ کر اوسطاََ ۸۰ فی صد تک جا پہنچی ہے۔

فاؤنڈیشن نے اتر پردیش کے سوناری گاؤں میں گروکول کے نام سے کم فیس والا ایک پرائمری اسکول قائم کیا ہے جس سے علاقے کے بچوں کی تعلیم کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بچوں کو تعلیم یا روزگار کی تلاش میں گاؤں سے باہر نہ جانا پڑے۔

جب حکومت کی کوووِڈ۔ ۱۹ کی روک تھام کی تدبیریں زیر عمل آئیں تو فاؤنڈیشن نے یو ٹیوب اور وھاٹس اَیپ کا استعمال کرکے اقتصادی لحاظ سے کمزور طبقات اور دیہی خاندانوں کے بچوں کے لیے زندگی کی ہنر مندیاں سکھانے کے اجلاس شروع کیے۔فاؤنڈیشن نے لکھنؤ میں کم و بیش ۰۰۳ کنبوں کو کھانے کا سامان مسلسل فراہم کرنے کے لیے کمیونٹی کچن اور مقامی سرکاری افسران کے ساتھ تعاون کیا۔

ہستک نے ۲۰۱۶ ء میں ملازمت چھوڑ دی تھی اور فاؤنڈیشن کے ساتھ کُل وقتی طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔۲۰۱۸ء میں انہوں نے آل انڈیا روڈ شو آن ومینس اکونامک امپاورمینٹ تھرو انٹر پرینر شپ (اے آئی آر ایس ڈبلیو ای ای ای)میں شرکت کی۔ یہ نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے امور عامہ سیکشن کا ایک عطیہ پروگرام ہے جس کا نفاذ امریکہ کو مرکز بنا کر سرگرم غیر منافع خیز تنظیمدی انڈَس انٹر پرینرس (ٹی آئی ای اِنک)اور اس کے ہندوستانی شریک کار کر رہے ہیں۔ ہستک کہتی ہیں کہ مذکورہ پروجیکٹ سے انہیں اپنی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافے کا موقع ملا۔ وہ بتاتی ہیں ”اس کے تحت میں نے جو کچھ سیکھا تھا اس سے اپنے اساتذہ اور رضاکاروں کو باخبر کرنے کے لیے میں نے ایک خصوصی موڈیول بنایا۔اس پروجیکٹ سے مجھے بہت سی صورتوں میں فائدہ ہوا۔“

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پروجیکٹ سے مالی انتظام،بازارکاری منصوبہ اور عطیہ دہندگان کے ساتھ رابطہ کرنے جیسے کچھ ٹھوس معاملات میں بہتری آئی۔ اس کے علاوہ اس پروجیکٹ کے ڈھیر سارے غیر مادی فائدے بھی ہوئے۔ وہ گویا ہوئیں ”میرے روابط بہت سے اچھے لوگوں سے بن گئے۔ ورکشاپ کے بعد بھی یہ مراسم جاری رہے۔ ان میں سے کئی لوگ سارتھک فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے۔ یہ لوگ میری مدد کر رہے ہیں اور نئے لوگوں سے میرے روابط بنوا رہے ہیں۔ ان چیزوں کے علاوہ میں نے قیادت، ٹیم کے انتظامات، اخلاقیات اور دیانت داری کے اسباق بھی سیکھے۔“

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسر ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے