ویمن کنیکٹ چیلنج انڈیا خواتین کے واسطے تجارت کے مواقع میں وسعت پیدا کررہی ہے اور انہیں با اختیار بنا رہی ہےتاکہ وہ اپنی اور اپنی برادریوں کی ترقی کا باعث بن سکیں۔
May 2022
انٹرنیٹ اور تکنیک شناس عوام کو سکھاتے ہیں کہ اسمارٹ فون کا استعمال کیسے کریں۔ تصویر بشکریہ ٹیکنو سرو انڈیا
دنیا بھر میں لوگ اسمارٹ فون کا استعمال اپنی خورد ہ تجارتوں کو بہتر بنانے کے لیے کررہے ہیں۔ اسمارٹ فون سے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں اور مختلف خدمات جیسے آن لائن ادائیگی اور بینک کاری کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان سہولیات کی بدولت ان لوگوں کی زندگیوں میں کافی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ مگر بعض معاشرتی اور معاشی حالات کے سبب خواتین ان فوائد سے دور ہیں۔
ویمن کنیکٹ چیلنج (ڈبلیو سی سی) در اصل عالمی مہم ہے جس کے ذریعہ سے روز مرہ کی زندگی میں خواتین کی شرکت کو ،ٹیکنالوجی تک رسائی اور ٹیکنالوجی کے استعمال دونوں کے طریقوں میں تبدیلی لاکر، مزید بہتر بنایا جاتا ہے۔ ڈبلیو سی سی کے توسط سے امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے ریلائنس فاؤنڈیشن کے ساتھ شراکت کی اور ۲۰۲۱ میں دس تنظیموں کو مالی امداد فراہم کی۔ جن تنظیموں کو عطیات ملیں وہ ڈیجیٹل تفاوت کو پاٹنے میں مصروف رہیں ۔ یہ کمپنیاں اس مقصد کے حصول کے لیے مجرب نسخوں کو بروئے کار لا رہی ہیں۔ ان میں معاشرتی اور ثقافتی دقیانوسی تصورات، ہنرمیں اضافہ اور معاشی مواقع فراہم کرنا، ٹیکنالوجی کے استعمال میں اعتماد پیدا کرنا، طبقات کی وکالت میں مزید اضافہ کرنا اور خواتین کو دھیان میں رکھتے ہوئے ٹیکنالوجیاں تیار کرنا شامل ہیں۔
جب خواتین خود کمانے لگتی ہیں توخانگی معاملات کے فیصلوں اور برادریوں کے فیصلوں میں ان کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے۔ نیلادری ساہو بتاتی ہیں’’ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ جب خواتین مالی طور پر بااختیار ہوتی ہیں تو نہ صرف ان کا بلکہ ان کے بچوں کا بھی معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور ان کے بچے اچھی تعلیم اور اچھی صحت خدمات حاصل کرتے ہیں۔‘‘
ساہو اڈیشہ میں واقع ڈبلیو سی سی مالی امداد یافتہ مرکز برائے نوجوانان اور سماجی ترقی میں پروگرام مینیجر ہیں۔ مثال کے طور پرڈبلیو سی سی انڈیا میں شرکت کرنے والی ایک خاتون سمپا اب حاصل شدہ خدمات کے لیے آن لائن ادائیگی پر قادر ہیں۔ ان چیزوں کے سیکھ لینے کی وجہ سے ان کو پانچ کلو میٹر کی روزانہ مسافت طے کرنے سے نجات مل گئی ہے۔ اب وہ اپنی برادری میں دوسروں کو بھی ان ہنرمندیاں سکھانے میں مدد کر رہی ہیں تاکہ روز مرہ کے کاموں میں وہ دوسروں پر منحصر نہ رہیں۔ ڈبلیو سی سی انڈیا منصوبوں کا ہدف سترہ صوبوں میں تین لاکھ خواتین کو اسمارٹ فون استعمال کرنے کی تربیت دینا اور راہنمائی کر نا ہے تاکہ زراعت اور خوردہ تجارت سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔
بہار، جھارکھنڈ اور اترپردیش جیسے بعض صوبوں میں خواتین میں شرح خواندگی کافی زیادہ ہے ۔ ان صوبوں میں خواتین کو اسمارٹ فون میں مختلف آئیکون کو پہچاننا اور آواز پہنچاننے والے نظام میں بول کر اسمارٹ فون کو استعمال کرنا سکھایا جار ہا ہے۔ اس پروجیکٹ کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے اس رویہ میں بھی تبدیلی لائیں کہ نہ صرف خواتین اسمارٹ فون رکھ سکتی ہیں بلکہ وہ اس کا استعمال بھی بخوبی کر سکتی ہیں۔ حالانکہ بعض رجعت پسند برادریوں میں ابھی بھی اس جانب مزاحمت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پور للیتا، جو اپنی برادری میں سامان بیچنے کا کام کرتی ہے ، کو لگا کہ چوں کہ وہ انگریزی سے نا بلد ہے اس لیے وہ اسمارٹ فون استعمال نہیں کر سکتی۔ مگر تربیت حاصل کرنے کے دوران للیتا نے اسمارٹ فون کا بعض بنیادی استعمال سیکھا اور اب وہ سماجی میڈ یا اور ترسیلی ایپ پر کافی سرگرم ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے رابطہ کرکے خود کو محفوظ اور پراعتماد محسوس کرتی ہیں۔ان کو اب خاص طور پر کووِڈ۔۱۹ عالمی وباکے دور میں بینک جانے کی بھی حاجت نہیں، وہ گھر بیٹھے پیسے بھیج سکتی ہیں اورپیسے نکال بھی سکتی ہیں۔
فرینڈس آف ویمنس ورلڈ بینکنگ، انڈیا
انٹرنیٹ والے سیل فون کی سرعت رفتار سے مقبولیت اور ساتھ ہی اسمارٹ فون کی گرتی قیمتوں نے ڈیجیٹل خواندگی کے ذریعہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے خیال کو جنم دیا۔ اور اب یہ محض خام خیالی سے نکل کر ایک سنجیدہ شکل اختیارکر گیا ہے۔ گجرات میں واقع فرینڈس آف ویمنس ورلڈ بینکنگ، انڈیا (ایف ڈبلیو ڈبلیو بی) کی پروگرام سربراہ نہیا کنساڑا بتاتی ہیں’’ یہ پروگرام بالکل صحیح وقت پرآیا۔بالخصوص عالمی وبا کے دوران ٹیکنالوجی کافی تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔‘‘
ایف ڈبلیو ڈبلیو بی خواتین کے خوردہ کاروباروں کے واسطے چھوٹے چھوٹے قرض دیتی ہے۔ اس تنظیم کو ڈبلیو سی سی سے مالی اعانت حاصل ہوئی ہے جس کا استعمال یہ اپنے’’ ٹیکنالوجی برائے خواتین خوردہ کاروباری‘‘ پرو جیکٹ کو وسیع کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت گجرات، مہاراشٹرا اورمنی پورمیں موجودہ اور ممکنہ ۳۵۰۰خواتین خورد ہ کاروباریوں کی امداد کی جائے گی جس میں ٹیکنالوجی پر خاص توجہ ہوگی۔
ایف ڈبلیو ڈبلیو بی ۱۵۔۱۰ شرکا پر مشتمل گروپ کے کے لیے کلاسیز کا اہتمام کرتی ہے۔ ان کلاسیز میں تجارتی منصوبہ بندی، مالی منصوبہ بندی، بازارکاری اور اسمارٹ فون اور ایپ کے استعمال جیسے ہنر سکھلائے جاتے ہیں۔ ان میں آن لائن ادائیگی، تصاویر پوسٹ کرنا ، اپنی تجارت کو مقامی سماجی میڈیا پر مفت اکاؤنٹ کے ذریعہ سے فروغ دینا، اور بہی کھاتے کے لیے مفت ایپ کا استعمال کیسے کریں جیسے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف خورد ہ کارباروں سے تعلق رکھنے والے ماہرین شرکا کو انفرادی طور پرتربیت دیتے ہیں تاکہ وہ کپڑا بنائی، ضیافت، سلائی، زیبائش اور دستکاری کے شعبوں کے بازار کے مطالبہ کا بہترادراک کرسکیں۔
مثال کےطور پر ایف ڈبلیو ڈبلیو بی کی تربیت یافتہ کانسٹانس، جو کہ ایک روایتی زیورات فروش ہے، نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنی مصنوعات کو فروخت کرنا اور اپنے گاہکوں میں اضافہ کرنا سیکھا ۔ تربیت حاصل کرنے کے بعد اس نے وہاٹس اپ اور انسٹا گرام دونوں ہی پر اپنا بزنس اکاؤنٹ بنالیا اور اپنے ممکنہ گاہکوں کے ساتھ ڈیجیٹل کیٹلاگ ساجھا کرتی ہے۔ وہ تجارت سے ہونے والی آمدنی اور اخراجات کا ڈیجیٹل ریکارڈ بھی رکھتی ہے۔
مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور موثر افراد کی شراکت سے ایف ڈبلیو ڈبلیو بی برادریوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ خواتین کی آمدنی میں اضافے سے ان کے گھر بار کوبھی فائدہ پہنچتا ہے۔’’ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کم آمدنی والے گھرانوں کی خواتین فوراً اسمارٹ فون نہیں خریدسکتیں۔ لیکن اگر وہ گھر میں موجود ایک بھی اسمارٹ فون چلا سکتی ہیں تو ہم بخوشی انہیں تربیت دیں گے۔‘‘
مرکز برائے نوجوان اور سماجی ترقی
ڈبلیو سی سی مالی امداد یافتہ یہ تنظیم بنیادی طور پر اڈیشہ کی قبائلی برادریوں میں کام کرتی ہے۔ اس کا’’قبائلی عورتوں کو ڈیجیٹل کاروباری لیڈروں میں تبدیل کرنا‘‘ پروجیکٹ ۶۶۰۰ ایسی خواتین کے ساتھ کام کررہا ہے جو کہ غیر لکڑی والی جنگل کی پیداوار جیسے املی، جنگلی آم اور سال کے درخت کے بیج اور پتیوں کی کاشت کرتی ہیں۔ ان پتیوں سے ماحول دوست کھانے کی رکابیاں اور ڈونگے بنائے جاتے ہیں۔
دراصل یہ خواتین بھارت سرکار کے امداد یافتہ ۲۲ کلکٹو کا حصہ ہیں۔ یہ گروپ’’ ون دھن وکاس کیندر‘‘ (فارسٹ ویلتھ ڈیولپمنٹ سینٹر) کہلاتے ہیں اورہر ایک کلکٹو تین سو خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ سی وائی ایس ڈی نے اب تک ۴۴ مقامی’’چیمپین ‘‘کو منتخب کرکے تربیت فراہم کی ہے۔ یہ لوگ ہر ہفتہ اپنے اپنے کلکٹو کا دورہ کرتے ہیں اور اراکین کو کاروباری منصوبہ بندی، مارکٹنگ اور اسمارٹ فون کے استعمال کی تربیت دیتے ہیں۔
سی وائی ایس ڈی نے ایک بن شری ایپ تیار کیا ہے۔تنظیم سے تعلق رکھنے والی ساہو بتاتی ہیں کہ اس کے ذریعہ خواتین کو بازاری قیمتوں اور سرکار کی کم از کم حمایتی قیمت کے بارے معلومات حاصل ہوتی ہے۔ اس سے قبل وہ اس قسم کی معلومات سے محروم تھیں اور’’اپنی مصنوعات کافی کم داموں میں فروخت کردیتی تھیں۔‘‘
اس ایپ کی مدد سے یہ خواتین اپنی مصنوعات کی فہرست وینڈرحضرات کے ساتھ ساجھا کرسکتی ہیں۔ اس ایپ میں بین الاقوامی مارکٹنک سائٹس کے لنکس بھی موجود ہیں جس سے فروخت کرنے کے نئے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ مزید برآں اس ایپ میں ایسی معلومات اور ویڈیوز بھی ہیں جن میں ذراعت کے پائدار طریقوں اور اپنی مصنوعات کو مزید بہتر بنانے کی جانب رہنمائی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پراگر املی کے بیج نکال دیے جائیں تو اس کی بازار کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح خواتین فروشوں کی مالی آزادی میں اضافہ ہوتا ہےجس سے کلکٹو خواتین کو بَن شری ایپ استعمال کرنے کی مزید ترغیب ملتی ہے۔
سی وائی ایس ڈی کے پروجیکٹ لیڈ آشیش کمار جَلّی بتاتے ہیں’’ہم چاہتے ہیں کہ قبائلی خواتین بھی ڈیجیٹل لہر کا فائدہ اٹھائیں جو کہ متوسط درجہ کے بھارتی پہلے سے ہی اٹھارہے ہیں اور اسے خود کو معاشی طور پربا اختیار بنانے کے لیے استعمال کریں۔‘‘
ٹیکنو سرو انڈیا
ٹیکنو سرو انڈیا دراصل ورجینیا میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم کی بھارتی شاخ ہے۔ ٹیکنو سرو انڈیا دیہی علاقوں میں کام کرتی ہے۔ اس کے مقاصد میں کاروباریت ، پائدار مقامی معاشی ترقی اوربرادریوں میں صنفی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ویلیو چین کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ ڈبلیو سی سی انڈیا سے حاصل شدہ مالی امداد کو ٹیکنو سرو انڈیا’’راجستھان کے بیکانیر میں ڈیجیٹل تفاوت کو پاٹنے‘‘کے پروجیکٹ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ در حقیقت یہ پہلے سے چل رہے ایک اور پروجیکٹ ہی کی توسیع ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت گوار ، یا سیم کی پھلی کی کاشت کرنے والے چھوٹے کاشت کاروں کی مدد کی جاتی ہے۔ سیم کی پھلی زیبائش کی چیزوں، کھانے کی چیزوں اور دوا سازی میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کئی اور بھی استعمال ہیں۔ اس اقدام کے تحت ۱۶۰۰ خواتین کاشت کاروں کو گوار کی کاشت کی تربیت دی جاتی ہے اور ان کی امداد کی جاتی ہے۔ ٹیکنو سرو کی پروگرام ڈائریکٹر جسپریت گُرم انکشاف کرتی ہیں ’’ ان میں اکثریت ناخواندہ خواتین کی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی موبائل فون استعمال ہی نہیں کیا ۔‘‘
اس پروگرام میں پروگرام کی وکالت کرنے والے۸۰ افراد ہیں جن کے ماتحت ۲۰ شرکا ہیں۔ ان کو ہر ماہ ایک روز کی تربیت دی جاتی ہے۔ پھر یہ لوگ گھر گھر جاکر دوسروں کو اسمارٹ فون چلانے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کےعلاوہ یہ لوگ شرکا کو دیگر معلومات مثلاً بازار میں یومیہ قیمتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اس سے شرکا کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ کب بازار جانا ہے۔ یہ لوگ موسم کے متعلق ایپ کو استعمال کرنے کی تربیت بھی شرکا کودیتے ہیں جس سے یہ جاننے میں آسانی ہوتی ہے کہ کب بیج بونا ہے اور کب فصل کاٹنی ہے۔
یہی لوگ شرکا کو مختلف ایپس کے آئیکون کو پہچاننے میں مدد کرتے ہیں اور یہ بھی سکھاتے ہیں کہ صوتی شناسائی سے کس طرح معلومات تلاش کی جاسکتی ہیں۔ ‘‘ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ خواتین صوتی ٹائپنگ کے ذریعہ سے سلائی کے متعلق تصاویر اور ویڈیوزکی تلاش کرتی ہیں۔تربیت حاصل کرنے والی ایک خاتون گایتری بتاتی ہیں ’’مجموعی طور پر شرکا خود کو دوسروں پر منحصر نہ پاکر زیادہ پُر اعتماد محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت بہت اچھا لگتا ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ خواتین بغیر کسی کی مدد لیے خود سے اسمارٹ فون کا استعمال کر رہی ہیں ۔‘‘
اس پروجیکٹ میں خواتین شرکا کے گھروں سے ۸۰۰ مرد بھی شامل ہیں۔ ان مردوں کو وہی تمام ہنر سکھائے جاتے ہیں اور یہ بھی باورکرایا جاتا ہے کہ اب سماج میں ایسی خواتین کو بھی قبول کیا جارہا ہے جو اسمارٹ فون کا استعمال کرنا جانتی ہیں۔ کووِڈ۔۱۹ عالمی وبا کے دوران موبائل فون کے ذریعہ سے گوار کاشت کاروں کو مشورے دیے گئے۔ جسپریت کا ماننا ہے کہ اس طرح کی امداد کرنے سے خواتین کاشت کاروں اور خورد ہ کاروباریوں’’کی زندگی میں بہتری کے کافی امکانات ہیں۔‘‘
اس طور پر پورے ملک میں ڈبلیو سی سی مالی امداد یافتہ تنظیمیں خواتین کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنے اوران کو بااختیار بنانے کی مہم کے ساتھ ساتھ معاشرتی شمولیت اور صنفی ڈجیٹل تفاوت کو ختم کرنے میں مدد کررہی ہیں۔
برٹن بولاگ واشنگٹن، ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ صحافی ہیں۔
تبصرہ