ایک تاریخی تالاب کا احیا

یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن سے ملنے والے عطیہ سے ریاست گجرات کے چمپانیر ۔پاوا گڑھ میں واقع میدھی تلاؤ کومحفوظ رکھنے کی کوشش پر مبنی مضمون۔

جیسون چیانگ

January 2019

ایک تاریخی تالاب کا احیا

چمپانیر۔ پاوا گڑھ میں واقع میدھی تلاؤ جو اے ایف سی پی گرانٹ کی بدولت بحال کیا جاسکا۔ یہ قدرتی تالاب نہیں بلکہ انسانی کاوش کا ثمرہ ہے۔(تصویر از راہل گجّر)

۱۵ ویں اور ۱۶ ویں صدی میں گجرات کا چمپانیر شہر اس ریاست کو مغربی بھارت میں مالوا کے علاقے سے منسلک کر نے والے تجارتی راستے پر واقع ایک اہم مقام تھا ۔سر بہ فلک ۸۰۰ میٹر اونچے پاواگڑھ پہاڑ(جس پر۱۰ ویں صدی میں ایک قلعے کی تعمیر کی گئی تھی )کے قدموں میں قرونِ وسطیٰ کا یہ چمپانیرعلاقہ فروغ پایا اوراس نے ترقی کی منازل طے کیں۔یہ ہندو زیارت گاہ آج بھی قائم ہے مگر اپنی تعمیر کے سیکڑوں برس بعد یہ تاریخی جگہ گھنے جنگلوں میں کہیں کھوگئی ہے۔

سنہ ۲۰۰۳ ءمیں یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن نے چمپا نیر ۔ پاوا گڑھ میں میدھی تلاؤ ( تالاب) کے مجموعے کے احیا کے لیے۲۰ ہزار ۶ سو ۱۹ ڈالر (قریب ۱۵ لاکھ روپے)فراہم کیے۔اس مالی امداد سے وڈودرا شہر کے ورثے کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کرنے والے ہیریٹیج ٹرسٹ کو حفاظتی اقدامات کے تحت چمپانیر ۔ پاواگڑھ کے تحفظ کا کام شروع کرنے کا موقع ملا۔ چمپا نیر ۔ پاواگڑھ کو ۲۰۰۴ ءمیں یونیسکو نے عالمی وراثت کی فہرست میں شامل کیا۔ پیش ہیں چمپانیر۔ پاواگڑھ کو تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیریٹیج ٹرسٹ کی منتظمہ کمیٹی کی رکن سندھیا گجر سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔

چمپانیر۔ پاواگڑھ کے تحفظ کے کام میں آپ کیوں کر شامل ہوئیں؟

میں ہیریٹیج ٹرسٹ کے ذریعے تشکیل دی گئی رضاکاروں کی بنیادی ٹیم کا حصہ تھی جس کا اہم مقصد چمپانیر۔ پاواگڑھ کویونیسکو کی عالمی وراثت کی فہرست میں شامل کرانا تھا۔ اس جگہ کے کئی مسائل تھے جن میں سے ایک یہاں ہونے والی کھدائی تھی۔ اور یہ تمام مسائل پاواگڑھ پہاڑ کے ساتھ اور چمپانیر میدان پر موجودتعمیراتی ورثے کے لیے حقیقی خطرات کی حیثیت رکھتے تھے۔

ذاتی سطح پر میرے شوہر راہل گجر۱۹۹۰ ءکے اوائل سے ہی ممبئی کے امیریکن سینٹر(ممبئی قونصل خانہ تب اسی نام سے جانا جاتا تھا)سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے تمام بھارت اور امریکہ سے فوٹوگرافروں کی بہت ساری نمائشوں کی بڑودہ( اب وڈودرا)میں میزبانی کی جن کا افتتاح امریکی سفارت خانے کے اعلیٰ عہدیداروں کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔ وہ ہمیشہ سفارتی عملے کے اراکین کو چمپانیر ۔پاواگڑھ کے دورے پرلے کر جایا کرتے تھے۔

آپ کی نظر میں چمپانیر۔ پاواگڑھ کی سب سے دلچسپ خصوصیت کیاہے اور کیوں؟

مجھے اس کی سب سے دلچسپ خاصیت اس کی دو مقامات(پاوا گڑھ پہاڑ اور اس کے قدموں میں بچھا ہوا چمپا نیر میدان) میں تقسیم لگتی ہے۔ اس کے خاص داخلی راستے پر واقع محصور چمپانیر کے باقیات (جو عہد وسطیٰ کا دارالحکومت ہو ا کرتا تھا )کو پاواگڑھ پہاڑ تک جانے والے راستے سے بس ایک لمبی پٹی تقسیم کرتی ہے۔ ہیریٹیج ٹرسٹ کی فہرست میں شامل ۱۱۴ورثوں میں سے زیادہ تر اسی علاقے میں ہیں جو اس کے اہم حصے کے ۶ مربع کلو میٹر علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو پتھر کی نقاشی اور فنِ تعمیر کے تعجب خیز نمونے ہیں۔

چمپا نیر۔ پاواگڑھ میں سیاحوں کی توجہ کا ایک بڑا مرکز سات محراب۔ (تصویر از راہل گجّر)

اس تاریخی مقام کے تحفظ کی منصوبہ بندی میں ہیریٹیج ٹرسٹ نے کون سی حکمت عملی اختیار کی تھی؟

ایک غیرمنافع بخش تنظیم ہونے کی وجہ سے ہمارا کام اس مقام کے تئیں لوگوں میں بیداری پیداکرنے اور تحفظ کے کام میں مصروف سرکاری ایجنسیوں کو فعال حمایت فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

چمپانیر۔ پاواگڑھ سے متعلق ہماری حکمت عملی ابتدائی طور پرئ۲۰۰۰ میں اسے ورلڈ مونیومینٹس فنڈ کی سب سے زیادہ خطرے سے دو چار ۱۰۰ مقامات کی فہرست میں شامل کرانا تھا۔ہمارا اگلا قدم یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن سے امداد حاصل کرنے کے لیے درخواست دینا تھا۔ چوں کہ ہم مئ۲۰۰۴ کے یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ اجلاس کے لیے دستاویز تیار کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے، لہٰذا چمپانیر۔ پاوا گڑھ کے تمام پہلوﺅں کو دستاویز کی شکل دینے کے لیے ہم پوری رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے۔اس میں سے کچھ کاموں نے پاواگڑھ کے ہندو اور جین حکمرانوں کے دور حکومت میں ان کے ذریعے تعمیر کیے گئے پانی کے ذخیرے کے غیر معمولی نظام کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔

یو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن گرانٹ(اے ایف سی پی) کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح کی سرگرمیاں انجام دی گئیں؟

میدھی تلاﺅ ایک ایسی اہم جگہ پر انسانوں کے ذریعے تعمیر کیا ہوا ایک تالاب تھا جہاں پہاڑ کے اس علاقے سے بہنے والے بارش کا قریب قریب پورا پانی اکٹھا ہوتا تھا جس کا استعمال لوگ موسم گرما کے مہینوں میں کیا کرتے تھے۔اس تالاب کے چاروں طرف پتھروں کے زینے بنے تھے جن کی وجہ سے مقامی لوگوں اور عقیدت مندوں کے لیے یہاں آنا اور پانی کا استعمال کرنا آسان ہو گیا تھا۔ یہاں تالاب کے کنارے ایک مینار نما چبوترہ بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ ۲۰۰۱۔۲۰۰۰ء میں میدھی تلاﺅ کوآرکایولوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تھا جو چمپانیر۔ پاواگڑھ خطے کے لیے قومی ایجنسی ہے۔لہٰذا ، ہیریٹیج ٹرسٹ نے اس کے تحفظ کی خاطر اے ایف سی پی گرانٹ کے لیے ایک تجویز تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس مالی امداد کا استعمال میدھی تلاﺅ کے احاطے کو نئی زندگی بخشنے کے لیے کیا گیا۔ اس تالاب کے چاروں طرف کے برباد ہو چکے ڈھانچے کے لیے دستاویزتیار کی گئی اور بہت سارے ایسے ڈھانچے کو باہر نکالا اور صاف کیا گیا جو گر چکا تھا ۔ پھر اسے دوبارہ تعمیر کیے گئے تالاب میں نصب کر دیا گیا ۔خیال رہے کہ یہ تالاب پاواگڑھ پر سلطانوں اور راجپوت حکمرانوں کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔

اے ایف سی پی گرانٹ حاصل کرنے اور امریکی سفارتخانے کے عہدیداروں کے ذریعے اس مقام کے دوروں نے اس وقت تک نظر انداز کی گئی اس جگہ کو ایک حوصلہ افزا مقام بنا ڈالا۔ اس نے ریاستی ذرائع ابلاغ میں ہلچل پیدا کی اور زمانے سے ایک ورثے کے زیر سایہ رہنے والی مقامی آبادی میں فخر کا احساس پیدا کیا۔

جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے