اگر آپ کو طب اور سائنس میں دلچسپی ہے اور تجزیہ کرنے کا شوق اور رجحان آپ کے اندر پایا جاتا ہے تو طبی لیباریٹری سائنس میں ایک ڈگری آپ کے لیے اچھا متبادل ہو سکتی ہے۔
July 2020
یونیورسٹی آف ورمونٹ میں میڈیکل لیبارٹری سائنس کے طلبہ اساتذہ کے ساتھ مل جل کر کام کرتے ہیں اور عملی تجربہ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ تصویر بشکریہ سَیلی میکے / یونیورسٹی آف ورمونٹ کالج آف نرسنگ اینڈ ہیلتھ سائنسیز۔
میڈیکل لیباریٹری سائنس (ایم ایل ایس) جو کہ حفظان صحت کے نظام کا ایک لازمی جزو ہے، صحت سے متعلق ایک ایسا پیشہ ہے جو بیماریوں کی تشخیص، نگرانی اور علاج کے لیے خون،خلیوں اور جسمانی نمونوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف ورمونٹ (یو وی ایم) میں میڈیکل لیبارٹری سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ایال امیل کہتے ہیں’’کے آج کے دور میں طبی تجربہ گاہوں کے سائنسدانوں کی شراکت کے بغیر حفظانِ صحت کے نظام کا تصور شاید ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
معالجاتی سائنس کی تجربہ گاہ میں کام کرنے والے سائنسدانوں کے کام کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں کینسر کے خلیوں کا پتہ لگانے اور ذیابیطس کی جانچ پڑتال سے لے کر خون کی اقسام کا تعین کرنے اور جینیاتی جانچ کرنے کے کام تک شامل ہیں۔واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبۂ لیبارٹری میڈیسن میں تعلیمی خدمات کی منیجر ہیتھر ایگلیسٹن کہتی ہیں’’ایک اندازے کے مطابق، مریضوں کی تشخیص اور علاج میں استعمال ہونے والی قریب ۷۰فی صد معلومات طبی تجربہ گاہوں کے کاموں سے حاصل ہوتی ہیں۔‘‘
امریکی یونیورسٹیوں میں ایم ایل ایس پروگراموں کے لیے درخواست دہندگان کو عام طور پر حیاتیات، علم کیمیا، انسانی عضویات اور شماریات میں مطلوب کورسیز کی تکمیل کی ضرورت ہوتی ہے۔کچھ پروگراموں کے اضافی تقاضے بھی ہوسکتے ہیں جن میں ذاتی بیان، سفارش فارم اور انٹرویو شامل ہیں۔
کئی ایم ایل ایس پروگراموں میں وظائف کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔مثال کے طور پر، واشنگٹن یونیورسٹی میں کسی میجر پروگرام میں داخلہ لینے کے بعد طلبہ متعدد وظائف کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ایگلیسٹن کا کہنا ہے’’یہ وظائف سابق اساتذہ اور طلبہ کے فراخدلانہ تعاون سے دیے جاتے ہیں۔ ورمونٹ یونیورسٹی بین الاقوامی طلبہ کو تعلیمی کارکردگی پر مبنی قابلیت وظیفے کی شکل میں مالی تعاون کرتی ہے۔ ورمونٹ یونیورسیٹی کے نیوز اینڈ پبلک افئیرس کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر جیف ویک فیلڈ کہتے ہیں‘‘بین الاقوامی میرٹ اسکالرشپ ہر سال ۲۰ہزار ڈالر تک دی جاتی ہے۔ اگر آپ کا داخلہ یو وی ایم میں ہوتا ہے تو پھرآپ کو قابلیت پر مبنی وظیفہ کے لیے خود بخود تسلیم کر لیا جائے گا۔ اس کے لیے الگ سے کوئی درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
امریکی یونیورسٹیوں میں ایم ایل ایس پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ کو کورس کے دوران ہی کافی تجربہ ہوجاتا ہے جو انہیں مستقبل میں ملازمتوں کے لیے تیار کرتا ہے۔امیل کہتے ہیں’’اس مضمون میں طلبہ، اساتذہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور کلاس روم، لیباریٹری اور طبی ماحول میں تنقیدی سوچ اور فنی مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے براہ راست طور پر سیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں’’یو وی ایم کے میڈیکل لیباریٹری سائنس پروگرام میں طلبہ پورے نصاب کے دوران کلینیکل کیمسٹری، امیونولوجی، ہیماٹولوجی اورمائکرو بایولوجی جیسے شعبوں میں سخت قسم کی کلیکنکل ٹریننگ(طبی ادارے میں مریضوں کی نگہداشت کی تربیت)حاصل کرتے ہیں۔ کورس کا اختتام ایک سمسٹر طویل کلینیکل پلیسمنٹ پر ہوتا ہے جہاں طلبہ آپریٹنگ کلینیکل لیباریٹری میں کل وقتی کام کرتے ہیں اور اپنی تمام تر تعلیمی تربیت کا استعمال اسپتال میں براہ راست طور پر مشق میں کرتے ہیں۔ یہ چیز اس قدر مؤثر ہوتی ہے کہ بہت سارے طلبہ کو گریجویشن کی تکمیل کے پہلے ہی ملازمت کی پیشکش مل جاتی ہے۔‘‘
ایگلسٹن بتاتی ہیں ’’واشنگٹن یونیورسٹی میں پروگرام کے پہلے سال کے دوران جونیئر ایم ایل ایس طلبہ کو ایم ایل ایس فاؤنڈیشن کورس،ہیماٹولوجی، میڈیکل بیکٹریا لوجی، کلینکل کیمسٹری، مائکولوجی، پیراسیٹالوجی، کلینکل مائکروبایولوجی ، پیشاب کا تجزیہ کرنے یا سوائل جسم، انجماد اور ٹرانسفیوزن میڈیسن میں کامیابی کے ساتھ لیب کورسیز مکمل کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
ان لیب کورسیز کے علاوہ بقول ایگلسٹن’’طلبہ کو سیئٹل یا پُگیٹ ساؤنڈ خطے میں واقع اسپتالوں کی تجربہ گاہوں میں پروگرام کے دوسرے یا آخر ی سال کے دوران ان کے کلینیکل روٹیشن کورسز میں مزید براہ راست تربیت دی جاتی ہے۔ہر طالب علم لیبارٹری طب کے تمام مضامین میں باری باری سے اپنی تربیت پوری کرے گاجس کی میعاد ایک ہفتے کی ہوتی ہے۔ان مضامین میں کیمسٹری، ہیماٹولوجی، مائکرو بائیولوجی، تحقیق اور ٹرانسفیوژن میڈیسن اور سالماتی تشخیص شامل ہیں ۔‘‘
اس کے علاوہ یونیورسٹی ہر ایک متعلقہ مقام پر طلبہ کی ترجیحات اور باری کی دستیابی پر مبنی پلیسمینٹ اور شیڈولنگ کا نظم کرتی ہے جہاں طلبہ کیس اسٹڈیز ، ہفتہ وار کوئزکی تکمیل اور متعلقہ موضوع پر پریزینٹیشن کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ یونیورسٹی ہر روٹیشن کے خاتمے پر فائنل امتحان لیتی ہے۔
ایم ایل ایس پروگراموں کے گریجویٹ تجربہ گاہوں ، بچوں کے اسپتالوں ، سرطان مراکزیا طبی مراکز کے ہنگامی محکموں میں کام کرتے ہیں۔ ایگلسٹن بتاتی ہیں کہ طلبہ طبی اور غیر طبی تحقیق، بایو ٹیکنالوجی، فورینسکس، ریاستی جرائم کی تجربہ گاہوں ، امریکہ کے صحت عامہ سے متعلق قومی ادارے سی ڈی سی اورایسی کمپنیوں میں کام کر سکتے ہیں جو جانچ آلہ اور سازوسامان تیار کرتی ہیں اور ان کی مارکیٹنگ کرتی ہیں۔ان کے علاوہ طلبہ لیباریٹری میڈیسن میں دستیاب آئی ٹی پوزیشنوں میں اور اسپتالوں میں اور صحت عامہ پر مرکوز فلاحی تنظیموں میں بھی کام کرسکتے ہیں۔
جب کہ امیل کہتے ہیں ‘‘میڈیکل لیباریٹری سائنس کے شعبے میں تربیت یافتہ تعلیم یافتہ کارکنوں کی مستقل طور پر زیادہ مانگ ہے۔ خواہ صحت عامہ کے ابھرتے ہوئے مسائل کا جائزہ لینا ہو اور ان سے نمٹنا ہو، متعدی بیماری کے لیے طبی جانچ اور علاج معالجے کی فراہمی ہو یا کینسر کا پتہ لگانے کے لیے نئے طریقے دریافت کرنا ہو، ہمارے طلبہ دنیا میں اپنے علم کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔اس کورس کے گریجویٹ زیادہ تر طلبہ اسپتال کی کلینیکل لیبارٹریوں میں میڈیکل لیباریٹری سائنسدانوں کی حیثیت سے فوری کریئر سازی کا متبادل چنتے ہیں۔ یہی نہیں یہ کورس کرنے والے سو فی صد طلبہ گریجویشن کے بعد کلینکل لیباریٹری میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘
کچھ اسی طرح کے احساسات کا اظہار ایگلسٹن بھی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر واشنگٹن یونیورسٹی کے ایم ایل ایس کورس کے سو فی صد طلبہ کو کورس کی تکمیل کے تین ماہ کے اندر یا اس سے پہلے ہی ملازمت مل جاتی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’بہت سارے طلبہ کے پاس کورس کے دوران ہی ملازمت کی پیشکش رہتی ہے اور وہ کورس کی تکمیل کے بعد ملازمتیں شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
بعض طلبہ کے لیے ایم ایل ایس ڈگری حفظان صحت کے شعبے میں کریئر سازی کے لیے ایک راستہ بھر ہے۔ جیسا کہ امیل بتاتے ہیں’’کئی طلبہ مائکرو بایولوجی ، وائرولوجی، جینو مکس یا متعدی بیماری سمیت میڈیکل اسکول ، فزیشینس اسسٹنٹ پروگرامس اور گریجویٹ اسکول پروگراموں کی تیاری کے طور پر انسان رخی بایو میڈیکل سائنس میں سخت تعلیمی تربیت حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی آف ورمونٹ کا ایم ایل ایس پروگرام کرتے ہیں۔‘‘
نتاشا مِلاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ