اطلاعاتی منظرنامے کی سیاحت

آئی وی ایل پی یافتہ طالب علم پرتیک واگھرے اس مضمون میں بدلتے ہوئے اطلاعاتی ماحولیاتی نظام اور خبروں کو حقیقی بنائے رکھنے میں ذرائع ابلاغ اورتعلیمی اداروں کے کردار کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔

نتاشا مِلاس

May 2023

اطلاعاتی منظرنامے کی سیاحت

( کَیسیمیرو پی ٹی/شٹر اسٹاک ©)

کرنسی نوٹوں میں لگے ہوئے  نینو چپس سے لے کرکووِڈ۔۱۹ کے گھریلو علاج تک ،متعدد پلیٹ فارموں  پر صارفین کی  توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کی کوششیں لگاتار کی جاتی رہی ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ سلسلہ گمراہ کن بھی ہو جاتا ہے جو مختلف پلیٹ فارم پر تواتر کے ساتھ جاری رہتا ہے۔

نئی دہلی میں واقع  ڈیجیٹل حقوق کی وکالت کرنے والی تنظیم ’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن ‘کے پالیسی ڈائریکٹر پرتیک واگھرے کے مطابق، یہ  ظاہرہ  اگرچہ کوئی نئی چیز نہیں ہےلیکن حالیہ برسوں میں  اس کی رفتار اورتناسب میں اضافہ ہوا ہے۔

واگھرے نے حال ہی میں  ’’کواڈ میں غلط معلومات  کی شناخت کرنے اور اس سے نمٹنے ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ امریکی محکمہ خارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام(آئی وی ایل پی)میں حصہ لیا تھا۔آئی وی ایل پی نے بھارت ، آسٹریلیا اور جاپان کے شرکاء کو اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ مصروف عمل ہونے، ایک دوسرے سے سیکھنے اور اپنے اپنے ملکوں میں غلط اطلاعات کی تشہیر سے موثر طورپر  نمٹنے کی غرض سے   ایک پلیٹ فارم پیش کیا۔ آئی وی ایل پی امریکہ کے  مختصر دورے پر مشتمل ایک پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے ۔پیش ہیں واگھرے سے  انٹرویو کے اقتباسات۔

  غلط معلومات  کی تشہیر کیوں باعث تشویش  ہے ؟

اس  کی کئی پرتیں ہیں۔ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ غلط معلومات پھیلانا ہمیشہ سے تہذیب کا حصہ رہا   ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم اسے پچھلی دہائی میں غلط معلومات کے نام سے جانتے  ہوں، لیکن پروپیگنڈا کئی دہائیوں سے موجود ہے۔

اپنےموجودہ  ڈیجیٹل اوتار سے پہلے بھی  اشتہارات   لوگوں کو بعض فیصلے کرنے کے لیے راضی کرنے  کے بارے میں رہے ہیں ۔ خبروں اور تفریحی صنعتوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کی توجہ مبذول  کر کے  ’’کھپت‘‘  میں اضافہ کرنے کی کوشش  بھی لگاتار کی ہے۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ  کچھ بھی  نہیں بدلا ہے ؟نہیں ایسا  بالکل  نہیں ہے ۔ انٹرنیٹ تک آسان  رسائی، آلات کی ملکیت اور سوشل میڈیا  کی وجہ سے  معلومات کی پیداوار کی رفتار،  اس کا تناسب  اور اسے جمہوری بنائے جانے کے سبب   ایسی تمام جگہیں معلومات سے پُر ہو گئی ہیں جہاں ہم رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ معلومات کی فراوانی کس سطح پر مسئلے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کیا ایسی صورت حال ، جیسا کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں ، جمہوریت کے لیے خطرہ ہے یا موجودہ سماجی تقسیم اور کم علمی پر مبنی  خواندگی جیسے گہرے مسائل کی علامات ہیں؟

آپ نے آئی وی ایل پی  کے دوران  غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے   کن رجحانات اور ٹیکنالوجیوں  کے بارے میں سیکھا؟

بہت سی انتہائی بصیرت انگیز ملاقاتیں ہوئیں لیکن جس سے مجھے سب سے زیادہ حوصلہ ملا وہ واشنگٹن یونیورسٹی میں سینٹر فار این انفارمڈ پبلک تھا ۔ ان کے کچھ فریم ورک اور خواندگی نمونے امید افزا ہیں ۔

آئی وی ایل پی سے آپ کی سب سے بڑی حصولیابی کیا ہے؟

اس دورے کی سب سے کلیدی یافت میرے لیے امریکی معاشرے کے کام کرنے کے  طریقے کی بہتر تفہیم تھی ۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں  بھارت میں بڑے ہوتے ہوئے میں نے امریکی پاپ کلچر سے کافی حد تک واقفیت حاصل کی۔

کسی ملک میں تین ہفتوں تک اپنے آپ کو مستغرق کر دینا  ایک مختلف تجربہ ہے ۔تجربات اور  باریک بینی سے سمجھنے کے لیے  یہ آپ کے ذہن کو  کھولتا ہے۔ بلاشبہ، آپ صرف تین ہفتوں میں کسی متنوع ملک کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعویٰ کبھی نہیں کر سکتے ۔میں اس ملک کے بارے میں   بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا جہاں  میں نے اپنی پوری زندگی گزاری ہے ۔لیکن  میرے پاس بہت سی چیزوں کے  لیے   بہتر تعریف ہے جو شاید اس سے پہلے نہیں تھی۔

میڈیا اور تعلیمی ادارے غلط معلومات اور فرضی خبروں سے نمٹنے  میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو اہم رول ادا کرنا ہو گا ، نہ صرف غلط معلومات اور فرضی خبروں  کے بارے میں بلکہ اس سلسلے میں  بھی  کہ ہم ان تمام معلومات کو کس طرح وسیع پیمانے پر پھیلاتے  ہیں۔ دونوں بدلتے ہوئے معلوماتی ماحولیاتی نظام کے بارے میں ہماری سمجھ کی تشریح کرتے ہیں اور یہ کہ وہ تبدیلیاں ہمیں کس طرح تشکیل دے رہی ہیں۔

تعلیمی اداروں کے رول اور  تقاضوں کا خلاصہ ’’اسٹیوارڈشپ آف گلوبل کلیکٹِو بی ہیویر‘‘ کے عنوان سے ایک مقالے میں اچھی طرح سے پیش  کیا گیا تھا جس میں معلوماتی ماحولیاتی نظام  کے مطالعہ اور بحران کے نظم و ضبط کے طور پر اس کے ارتقاء کو ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

میڈیا کو ہمیں وسیع اور مزید  متنوع کہانیاں سنانے کی ضرورت ہے۔  کہانیوں کو کس طرح تیار کیا جاتا   ہے، کسی کہانی کو مکمل سیاق و سباق فراہم نہ کرنے کے نشیب و فراز  اور یہاں تک کہ بنیادی سوالات کے بارے میں کہ کسی چیز کو کب طول دیا جانا  چاہیے یا نہیں، میڈیا کو اس کے نتائج پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

بلا شبہ یہ وہ سوالات ہیں جن سے  نیوز روم  میں لگن سے کام کرنے والے  صحافی  ہر روز نبردآزما ہوتے ہیں، لیکن یہ  زیادہ تر معاملوں  میں اس رفتار کی ترغیبات سے متصادم ہیں جو زیادہ تر  ذرائع ابلاغ کی صنعت کو چلاتے ہیں۔

ایسے میں ضرورت ہے  کہ معلّمین فعال ہوں اور ذرائع ابلاغ ذرا سست روی اختیار کریں ۔

نتاشا مِلاس نیویارک سٹی  میں مقیم ایک آزاد پیشہ  مصنفہ ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے