صنفی رکاوٹوں پر عبور پانا

آئی ای ایل پی سے سرفراز مانک مٹیانی شمولیت اور نوجوانوں کی قیادت کی تعمیر کے سلسلے میں سرگرمِ عمل ہیں۔

جیسون چیانگ

June 2023

صنفی رکاوٹوں پر عبور پانا

(تصویر بشکریہ مانک مٹیانی)

مانک مٹیانی خواتین اور صنفِ خاص کے حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن ہیں۔ وہ کمیونٹی ڈیولپمنٹ اور انسانی حقوق کے شعبہ میں بحیثیت مشیر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا مقصد صنفی انصاف، جنسیت کے حقوق، طبّی مساوات، تشدد کی روک تھام اور نوجوان قیادت کی ترقی کے مسائل پر نظام کی اصلاح اور طاقت کی تبدیلی کو یقینی بنانا ہے۔

مٹیانی دہلی میں واقع خواتین کے حقوق کی تنظیم ’جاگوری‘ کی مجلس عامّہ کے رکن ہیں۔ وہ صنف، جنسیت، تعلیم اور سماجی شمولیت پر کام کرنے والی نوجوان قیادت کی ترقی کی تنظیم دی وائی پی فاؤنڈیشن کی مجلس مشاورت کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دہلی  کی صنفِ خاص کے لیے کام کرنے والی کمیٹی ’دہلی کیر پرائڈ‘کے ساتھ بحیثیت رضاکار بھی وابستہ ہیں۔۲۰۱۹ء  میں انہوں نے ’پسماندہ برادریوں کے لیے انسانی اور شہری حقوق‘ پر امریکی وزارت خارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام میں شرکت کی۔

اسپَین کے ساتھ بات چیت میں مٹیانی نے صنفِ خاص کے اہم مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ کس طرح اپنی کوششوں کے ذریعے ایک مثبت معاشرتی تبدیلی لانے کی جانب کوشاں ہیں۔

پیش خدمت ہیں انٹرویو کے چند اقتباسات۔

آپ کی زندگی میں ایسا کیا ہوا جس  سے آپ کو صنف اور صنفِ خاص کے شعبے میں کام کرنے کی ترغیب ملی ؟

جب میں بڑا ہو رہا تھا اس وقت میں  خود اپنی شخصیت کے متعلق تذبذب کا شکار تھا ۔ بدقسمتی سے میرے معاشرےمیں میرے لیے مواقع کا شددید بحران تھا۔ چونکہ میرا تعلق صنفِ خاص سے تھا لہٰذا میرا اسکول اور کالج کا تجربہ نہایت منقسم اور تنہائی والا تھا۔

مجھے بعض ایسے مواقع فراہم ہوئے جن سے میں معاشرتی حقیقتوں سے جڑنے میں کامیاب ہوا۔ اپنی انڈر گریجویٹ تعلیم کے دوران میں نے ان کے لیے رضاکار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور صنفی مساوات اور صنفِ خاص کے حقوق کے لیے کام کرنی والی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے سے مجھے سماجی تبدیلی کے خیراتی لائحہ عمل اور انسانی حقوق و سماجی انصاف پر مبنی لائحہ عمل کے درمیان کا واضح فرق سمجھ میں آیا۔

یہ دنیا کے بارے میں میرے نظریہ کے ساتھ بڑی حد تک ہم آہنگ تھا۔ یہی چیز سیکھنے اور سماج ا ور برادری کی ترقی کے لیے مزید کام کرنے کے معاملے میں میرا موجودہ ا نقطہ نظر اور  میری عینک ہے ۔

کیا آپ اپنے آئی وی ایل پی سفر کی حصولیابیوں یا تجربات شیئر کر سکتے ہیں؟

آئی وی ایل پی تجربہ کافی یادگار رہا۔ ہم نے فلوریڈا کے آرلینڈو میں واقع صنفِ خاص کے لیے مخصوص پلس نائٹ کلب کا دورہ کیا اور وہاں شوٹنگ کے بدقسمت واقعہ کے بعد جو کام ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر ہماری آنکھیں نم ہوگئیں۔ ہمیں کنساس میں نوجوانوں کے ایک گروہ سے ملاقات کرنے کا موقع ملا جو صنف ِ مخصوص کی شمولیت کے لیے کام کر رہا ہے۔ ہمیں یہاں پتہ چلا کہ آج بھی امریکہ میں صنفِ خاص اور ہم جنس نوجوانوں کے خلاف تفریق ہوتی ہے اور ان افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

آپ کی نظر میں آج کل صنفِ خاص کو درپیش بڑے مسائل کیا ہیں؟

آئی وی پی ایل سے ایک اہم بات جو میں نے سیکھی وہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے خلاف ہو رہے تشدد اور امتیازی سلوک پر قدغن کیسے لگایا جا سکتا ہے۔صنفِ خاص کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس طرح کے نظاموں کو مختلف ممالک کے قوانین اور خاص طور پر بھارت کے قانون میں کس طرح شامل کیا جائے۔

شادی کو تسلیم نہ کرنا، محفوظ اور غیر متعصب طبّی  خدمات کا فقدان، گود لینے کا ناممکن ہونا اور شادی کے پدرانہ ماڈل سے پرے خاندانی اکائیوں کو تسلیم نہ کرنا۔ یہ سبھی چیزیں ان مسائل کو بڑھاتی ہیں جو آج کل صنفِ خاص کو درپیش ہیں۔

کیا آپ اپنی سرگرمیوں سے حاصل شدہ نتائج کے متعلق کچھ بتا سکتے ہیں؟

دی وائی پی فاؤنڈیشن کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ چھوڑنے سے پہلے میں نے اپنے حلقہ اثر میں  جو آخری چند کام کیے ، ان میں سے ایک تشدد اور امتیازی سلوک کو روکنے کا صنفِ خاص سے تعلق رکھنے والے نوجوان قائدین کی حمایت کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام کو ماہرین کی ایک ٹیم نے ایک برس تک کامیابی کے ساتھ چلایا۔ اس کے نتیجے میں ۱۹ صوبوں میں ۲۶ افراد نے اپنی صلاحیتوں اور قیادت کا لوہا منوایا اور صنفِ خاص کے حقوق کے لیے تعلیمی اداروں، صحتی اور قانونی خدمات میں مقام بنایا۔ اس پروگرام نے ایسا نظام بنانے میں مدد کی جس سے زمینی سطح پر صنفِ خاص کے خلاف امتیازی سلوک کو روکا جا سکے۔

براہ کرم مزید کچھ اور ایسے واقعات بتائیں جن سے لوگ صنفِ خاص کی وکالت کی جانب راغب ہوں۔

میں نے جن اہم پروگراموں میں  کام کیا ان میں سے ایک اسکولوں کے اندر اور باہر نوعمروں کو جنسیت کی جامع تعلیم فراہم کرنا ہے۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ چھوٹے بچے تنوع اور شمولیت کی اہمیت کو جلدی سمجھنے کی وسعت رکھتے ہیں اور اس کے چیمپئن بن سکتے ہیں۔

ایک دس سالہ بچی نے اپنے اسکول کے لیے  ایک ویڈیو انٹرویو کے دوران ایک خوبصورت بات کہی کہ یہ دنیا ایک کھانے کی پلیٹ کے مانند ہے جس میں انواع و اقسام کی کھانے کی چیزیں رکھی  گئی ہیں جن سے یہ کھانا تغذیہ سے بھرپور اور صحت مند بن جاتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے ایک بہت ہی حوصلہ افزا بات تھی۔

اس نے میرے اس یقین کی تصدیق کی ہے کہ نوجوانوں میں مدبر، جامع اور کرشمائی  قائد بننے کی صلاحیت  موجود ہے۔

جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سِلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے